نواز شریف کی بیماری اور سیاست۔

آئیندہ 72 گھنٹے بہت اھم ھیں خدا نخواستہ،خدانخواستہ نواز شریف صاحب جو کچھ بھی ہو سکتا ہے وہ اتنے بیمار ھیں کہ اگر کچھ ھوگیا تو عمران خان ذمہ دار ھوں گے " یہ بات کوئی اور کہتا شاید سیاست سمجھ کر بھول جاتے مگر یہ فرما رہے تھے جناب پروفیسر احسن اقبال جب میاں نواز شریف کو باہر بھیجنے کی کوشش کی جا رہی تھی اب پنجاب حکومت نے نواز شریف کی ضمانت مسترد کرنے کی درخواست کی ھے تو شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ یہ غلط بیانی اور انتقام ھے ،دوسرے بولے کہ نواز شریف پر عمران خان سیاست کر رہے ہیں حالانکہ عمران خان کو فی الحال سیاست کی ضرورت نہیں ہے دوسرا آپ کی مانتے ہوئے ایک مجرم کو امریکہ،لندن اور جہاں دل چاہے علاج کرانے کا موقع دیا گیا مگر سیاست تو وہ کر رہے ہیں ملاقاتیں،سوغاتیں اور جپھیاں پیپیاں جاری ھیں مریم بی بی کو بلانے اور لانے کی تیاری کی جارہی ھے۔عمران خان تو اس فیصلے سے کارکنوں،کابینہ اور عوام کی سخت تنقید کا سامنا کر رہا ث اپنے بیانیے پر ندامت اختیار کرنا پڑی ہے۔نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ،عدالت اور میڈیا کی رپورٹس کا انتظار کیا نہ بیماری،نہ علاج ،نہ اتار چڑھاؤ کا شکار پلیٹ لیٹس سامنے آئے روی لندن میں مزے سے چین لکھ رہا ہے۔کیا اس کا اتنا بھی حق نہیں بنتا کہ یہ پوچھ سکے کہ اس عطار کے لونڈے سے یہ پوچھ لے کہ دیدار تو کروا دیں! مگر سب بھی انتقام ،نواز شریف کے ساتھ کھڑے ھونے والے لبرل نامی طبقے کی صفیں الٹ کر میاں صاحب دو بار بھاگ چکے تو کیا وہ سب انہیں مسیحا گردانیں گے۔وای رہے سیاست تیری کون سی کل سیدھی،سلیکڈڈ کا نعرہ لگانے والے خود بانہیں ڈال کر سلیکشن کے غیر معمولی معیار کا حصہ بن گئے ہیں اور قانون عدلیہ اور لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ھمیں میاں نواز شریف سے کوئی دشمنی نہیں ہے طرز سیاست اور تضادات سے اختلاف ھے کیا تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے شخص سے اتنا بھی اختلاف جائز نہیں ہے۔عمران خان کو ایک بار آپ نے چکما دے دیا مگر اب شاید ممکن نہیں ہے البتہ کورٹ کے پاس آپ جو امیج بنا سکے اس کا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ویسے شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی بھی ضمانت ھو گئی ھے جو آپ کے بدلے کافی ھو گی۔بدقسمتی یہ ہے کہ سیاست کے ان اداکاروں نے عوام کو کبھی اس قابل نہیں سمجھا کہ ان کے سامنے سچ بولیں،اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عوام میں وہ معتبر قرار پاتے ہیں یہ قومی سزا ھے یا جزا نقصان ھمیشہ عوام کا ھی ھوتا ھے۔پہچان، محنت، اور جدوجہد کی حس ھی ختم کر دی گئی ہے۔باقی جو بچا وہ حرص،طمع اور راتوں رات مقدر بدلنا رہ گیا ھے کیا قومیں اس طرح پروان چڑتی ھیں ۔جھوٹ ،نا انصافی ،ملاوٹ، حتیٰ کہ بندوں کی خرید وفروخت جیسی قبیح عادات کا شوق اس قوم میں اسی طبقہ شریفیہ نے ڈالا ہے جو تزکیہ کے طویل عمل سے گزرے گا تو صاف ھو گا حشر اٹھنے تک انتظار تو فطری ھے

 

Prof Khursheed Akhtar
About the Author: Prof Khursheed Akhtar Read More Articles by Prof Khursheed Akhtar: 89 Articles with 60708 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.