ہمارے بیشترحکمرانوں کو سفیدہاتھی پالنے کا بڑا شوق
ہے اس شوق میں وہ حدسے گذرجانے سے بھی دریغ نہیں کرتے مزے کی بات یہ ہے کہ
ان کے یہ شوق مال ِ مفت دل ِ بے رحم کی ز ندہ مثال ہیں یہ حکمران اپنے پلے
سے دھیلا بھی خرچ کرنے کے روادارنہیں الٹا ان کے نصف درجن کیمپ آفس کے
اخراجات بھی عوام کے خون پسینہ کی کمائی ہوتے رہے اس کاایک مطلب یہ ہے کہ
پرائے مال پر عیاشی کرنا کیمپ آفسز میں آنے والے مہمانوں کے چائے پانی کا
بل بھی عوام کے ٹیکسز سے دیا جاتا تھا خیرتو بات ہورہی تھی کہ ہمارے
بیشترحکمرانوں کو سفیدہاتھی پالنے کا بڑا شوق ہے ایک ایسا ہی منصوبہ اورنج
لائن میٹروٹرین ہے جس پر منجمند دماغوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں،بھنگڑے ڈالے،
ایک دوسرے کو گلے لگاکر مبارک باد دیتے رہے دراصل سوچے سمجھے بغیر حلق
پھاڑکر نعرے لگانا غلامی کی ایک جدید شکل ہے حقیقت سے بے خبر کارکن ان کی
ہاں میں ہاں ملانے کو جمہوریت سمجھتے ہیں اب تو سیاسی جماعتیں مسلک کا درجہ
اختیارکرچکی ہیں یہ اپنے مخالفین کی متحارب جماعتوں کو سپورٹ کرنا سیاست
کہلاتاہے لیکن تمام باتوں سے بالاتر ہوکر ملکی مفاد میں سوچنا ہی حب الوطنی
کہلاتاہے اتنی تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب کو پاکستانی بن کر
سوچناہوگا حقائق بتاتے ہیں کہ اپنے کسی لیڈر خادم اعلیٰ کا منصوبہ پاکستانی
معیشت کو لے ڈوبا ہے جس سے خدشہ ظاہرہوتاہے کہ اورنج لائن میٹروٹرین پنجاب
کی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دے گی کچھ ماہرین کایہ بھی کہناہے کہ خادم
اعلیٰ کا منصوبہ 2036 تک پنجاب کی معیشت کا جنازہ نکالے گا کیونکہ اورنج
لائن ٹرین کے قرض، اقساط کی ادائیگی کتنی ہوگی ہوشربا حقائق نے لوگوں کو
پریشان کرکے رکھ دیاہے اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کیلئے حاصل کیے گئے
قرض اور سود کی ادائیگی بارے پریشان کن انکشاف یہ ہوا ہے کہ 9 کھرب 53 ارب
سے زائد رقم کا مقروض صوبہ پنجاب سالانہ 6 ارب 28 کروڑ روپے قرض پر سود ادا
کرے گا۔ پنجاب حکومت 12 سال تک سالانہ 40 اعشاریہ 62 ملین امریکی ڈالر پہلی
ملکی لائٹ ریل کے قرض پر سود ادا کرے گی۔اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے سے
پنجاب کی معیشت پر انتہائی سنگین اثرات مرتب ہونگے،خادم اعلیٰ کا منصوبہ
2036 تک پنجاب کی معیشت کا جنازہ نکالے گا۔ سابقہ پنجاب حکومت کی جانب سے
اورنج لائن میٹرو ٹرین کیلئے 1.62 بلین ڈالر کا معاہدہ ایگزم بنک کے ساتھ
کیا گیا۔سابق پنجاب حکومت نے اپوزیشن مطالبات کے باوجود اورنج لائن ٹرین کا
معاہدہ پبلک نہیں کیا تھا، آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی بارہا ہدایت کے باوجود
پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی نے معاہدہ فراہم نہیں کیا تھا، سرکاری اعدادوشمار
کے مطابق اورنج لائن ٹرین پر تین کھرب سے زائد رقم خرچ ہو چکی ہے محکمہ
ٹرانسپورٹ کی جانب سے اورنج ٹرین کے کرائے اور قرض پر ایک رپورٹ ایوان وزیر
اعلی کو ارسال کی گئی ہے جس میں تمام تر تفصیلات سے متعلق ایوان وزیر اعلی
کو آگاہ کردیا گیا ہے۔دوسری جانب بڑھتے ہوئے سود اور جرمانے کی ادائیگی پر
سیکرٹری خزانہ اپنا موقف دینے سے گریزاں ہیں حالات و واقعات کے تناظرمیں یہ
بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ منصوبہ ملکی معیشت کے لئے سفیدہاتھی ثابت
ہوگا کیونکہ ڈالر کی بلند پرواز سے اورنج لائن ٹرین منصوبے کو شدید مالی
دھچکا پہنچا ہے، اورنج لائن ٹرین منصوبہ بروقت مکمل نہ کرنے سے خزانے پر
بوجھ بن گیا اور منصوبے کی لاگت 340 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ پی اینڈ ڈی کا
کہنا ہے کہ منصوبے میں تاخیر اور ڈالر کی زائد قیمت کی وجہ سے حکومت کو
یومیہ تقریبا 6 کروڑ 90 لاکھ روپے کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ منصوبے کی لاگت
2015ء میں 160 ارب 60 کروڑ روپے تھی لیکن اب حکومت کو 234 روز کا جرمانہ 15
ارب روپے تک جاپہنچا ہے جو ہر صورت ادا کرنا ہو گا ورنہ چین سے ہمارے
تعلقات کشیدہ ہونے کا خطرہ ہے 2018ء میں ڈالر بڑھنے سے پراجیکٹ لاگت 224
ارب روپے سے تجاوز کرگئی تھی مگر موجودہ صورتحال میں تاخیر اور دیگر وجوہات
کی بنا پر لاگت اب 340 ارب تک پہنچ گئی ہے۔ کنٹریکٹ کے مطابق منصوبہ 27 ماہ
کے اندر جون 2018ء میں مکمل ہونا تھا جبکہ پنجاب حکومت نے اورنج لائن ٹرین
کی تکمیل کی نئی تاریخ جولائی 2020ء دے رکھی ہے عثمان بزدارحکومت نے اس
سفیدہاتھی کی ازمائشی سروس شروع کی تو یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ یہ ٹرین
پہلے ہی روز پونے دو کروڑ کی بجلی کھاگئی ہے اب منصوبہ سازتو لندن میں مزے
کررہے ہیں موجودہ حکمران سرپکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ پوری قوم کا سر
اوکھلی میں آیاہواہے اورنج لائن ٹرین منصوبہ شروع کیا گیا تھا اس وقت کے
حکمرانوں نے پورے لاہورکو کھنڈربنادیا لوگوں کی کھربوں کی پراپرٹی تباہ
وبرباد کردی گئی کئی متاثرین اب تلک روتے پھرتے ہیں چونکہ پنجاب پاکستان کا
سب سے بڑا اور باوسائل صوبہ ہے اس لئے معاملات سمیٹ لئے گئے ورنہ لاہور کا
حال پشاور جیسا ہونا تھا خادم اعلیٰ نے پورے پنجاب کے ہر محکمے کا بجٹ اس
منصوبے میں جھونک دیا جس سے ہسپتالوں،سکول کالجز،ایگریکلچر اور دیگر شعبوں
کاجو حشر ہوا وہ الگ کہانیاں ہیں اب کسی کے پاس سیکنڈ آپشن نہیں اورنج لائن
ٹرین تو ہرصورت چلانا پڑے گی اگر نہ چلائیں تو چین کو ماہانہ کی
بنیادپرکروڑوں روپے جرمانہ اوپر سے ہرجانہ دینا پڑے گا پھر کھربوں کی
انوسٹمنٹ الگ ہے یعنی یہ وہ دھول ہے جو گلے میں ڈالا کر بجانا ہی پڑے گا
اتنی خطیررقم سے کوئی پاور پلانٹ لگایا جاتا تو ہماری نسلیں لوڈشیدنگ کے
اندھیروں سے بچ سکتی تھیں اب اگر اورنج لائن ٹرین چلتی ہے تو اول تو اس کے
اخراجات ہی افورڈنہیں ہوں گے مسافروں کو ٹکٹ میں سبسٹڈی دینا پڑے گی چین کا
قرضہ بھی اتارناہے اس پر سودکی ادائیگی بھی ہے اس سلسلہ ایک اور مصیبت
ہمارا انتظارکررہی ہے جس سے حلق پھاڑکر نعرے لگانے والوں کے 14طبق روشن
ہوجائیں گے لوڈشیڈنگ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بناہواہے اب اگر
اورنج لائن ٹرین چلتی ہے تو اسے چلانے کیلئے اتنی بجلی کہاں سے آئے گی؟ اس
کا مطلب ہے کہ لاہوریوں کی جان شکنجے میں آنے والی ہے لگتاہے گھروں کا سکون
اور کاروبارٹھپ پھر لوڈشیڈنگ میں لوگ گاتے پھریں گے ساہنوں وے لے چل نال وے
بابو سوہنی گڈی والیا یعنی اورنج لائن ٹرین لاہورمیں چلے گی اس کا قرضہ
پوری قوم اداکرے گی سفیدہاتھی پالنے والی قوم کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔
|