افغانستان اس وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا
ہے۔چند دن قبل افغانی انتخابات کے نتائج نے پوی دنیا میں میں ہلچل مچائی
ہوئی ہے ۔ عبداﷲ عبداﷲ ،حا مد کرزئی اورشمالی اتحاد نے ان انتخابات کے
نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے جس سے افغانستان کو ایک غیر یقینی
صورتِ حال کا سامنا ہے۔اگر ان نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا تو افغانستان کے
اندرونی انتشار میں مزید شدت آ سکتی ہے۔طالبان نے اپنی طویل جدجہد سے جس
طرح امریکہ کو ناکوں چنے چبوائے ہوئے ہیں اس سے امریکہ شدید دباؤ میں
ہے۔امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں افغانستان سے امریکی
افواج کی واپسی کا جو وعدہ کیا تھا وہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے کیونکہ
افغانستان کے اندرونی حالات اور خطہ کے زمینی حقائق امریکی صدر کے وعدوں سے
تال میل نہیں کھا رہے۔ڈولند ٹرمپ ہر حال میں افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں
لیکن ان کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو رہیں کیونکہ ملک میں بد امنی
اور انارکی کی صورتِ حا ل امریکی افواج کی واپسی میں مانع ہیں۔یہ سچ ہے کہ
امر یکہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو ہر حال میں یقینی بنانا چاہتا ہے
اور ایک خاص تعدادا کو افغانستان میں مقیم رکھنا چاہتا ہے۔امریکی افواج
واپس ضرور جائیں گی لیکن ساری افواج واپس نہیں جائیں گی کیونکہ اس سے
موجودہ کٹھ پتلی حکومت ایک دن بھی قائم نہیں رہ پائے گی ۔ کٹھ پتلی حکومت
کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ امریکی افواج افغانستان میں مقیم رہیں وگرنہ
افغا نستان میں ایک ایسا قتلِ عام ہو گا کہ دنیا سکتے میں آ جائے گی۔
طالبان کا دباؤ اپنی جگہ قائم ہے۔امریکہ طالبان کی عوامی مقبولیت سے خائف
ہے لہذا وہ افغانستان سے اپنے فوجی انخلاء کویک دم عمل نہیں لائے گا۔وہ
اپنی کچھ افواج افغانستان میں مقیم رکھنا چاہتا ہے تا کہ وہ سی پیک پر اپنی
نظریں رکھ سکے۔امریکہ افغانستان کو مشرقِ بعید کا دروازہ سمجھتا ہے لہذا وہ
افغانستان میں اپنی موجودگی کو ہرحال میں قائم رکھے گا۔بھارت اس سازش میں
امریکہ کا اتحادی ہے اور افغا نستان کو آگ اور بارود کا ڈھیر بنائے رکھنے
میں اپنی بقا سمجھتا ہے ۔دنیا کی نظریں اس وقت ۲۹ فروری پر جمی ہوئی ہیں ۔دنیا
جنوبی ایشیا میں امن کی خواہاں ہے لیکن یہ سب امریکی مرضی و منشاء پر منحصر
ہے۔پہلے بھی ایک معاہدے کا بڑا چرچا تھا اور اس پر دستخط ہونے والے تھے کہ
امریکہ نے اس پر پانی پھیر دیا۔ دنیا امن کے خواب سجائے ہوئے تھی لیکن
امریکی ہٹ دھرمی نے امن کا خون کر دیا۔لوگ اب بھی شکو ک وشبہات کا شکار ہیں
۔وہ امریکہ بہادر کی سازشوں اور قلا بازیوں کو بخوبی جانتے ہیں لہذا انھیں
امن کا قیام انتہائی مخدوش نظر آتا ہے۔
امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابی نعروں میں افغانستان سے امریکی
افواج کے انخلاء کا وعدہ کیا تھا لیکن تین سال گزر جانے کے باوجود اس پر
عمل در آمد نہیں ہو سکا۔۲۰۲۰ امریکی انتخا بات کاسال ہے اور ڈولند ٹرمپ اس
میں مضبوط امید وار ہیں لہذا ان کی کوشش ہے کہ وہ فیس سیونگ کے لئے امریکی
افواج کی واپسی کا ڈرامہ رچائیں تا کہ اپنے عوام کو بیوقوف بنا کر اپنی
دوسری مدت کے لئے راستہ ہموار کر سکیں ۔ ان کے بلند بانگ دعوے کیا دنیا کو
امن کا تحفہ دے سکیں گے ابھی تک ایک خواب ہے۔طالبان افغانستان میں بیرونی
افواج کی موجودگی کے سخت مخالف ہیں اور ان کی ساری سیاست اسی ایک نعرے پر
منحصر ہے کہ امریکی افواج افغا نستان سے اپنا بوریا بستر گول کر کے واپسی
کا راستہ ناپیں ۔کیا وہ نئے امن معاہدے میں امریکی افواج کے قیام کو تسلیم
کر لیں گے؟َ کیا وہ اپنے نظریات سے منحرف ہو جائیں گے؟ کیا وہ اقتدار کی
سیاست کا حصہ بن جائیں گے؟ کیا وہ کٹھ پتلی حکومت کو تسلیم کر لیں گے؟ کیا
وہ برسوں کی جدجہد کو رائیگاں جانے دیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر
افغانستان کے امن کا دارو مدار ہے ۔جب تک امریکی افواج افغانستان میں ڈیرے
ڈ الے ہوئے ہیں امن کا ہر معاہدہ بے معنی ہو گا۔امریکہ افغانستان میں طویل
المدتی قیام کے لئے دا خل ہوا اتھا۔اس نے افغانستان پر چڑھائی کا جو ڈرامہ
رچایا تھا وہ اب بے نقاب ہو چکا ہے۔دنیا امریکہ سازش سے مکمل آگا ہ ہو چکی
ہے۔ملا عمر اور ان کے ساتھیوں کے خلاف امریکہ کی یلغار اسلام کے خلاف اس کے
بغض و عناد کی بھیانک شکل تھی۔امریکہ نے اسلامی فکر کے خلاف اپنی نفرت کے
اظہار کیلئے من گھڑت مفروضو ں پر افغانستان پر چڑھائی کی تھی جسے بھارت نے
مکمل سپورٹ کیا تھا۔پاکستان بھی امریکی دم چھلا بننے میں پیش پیش تھا ۔نائین
الیون نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں اور
افغانستان کو اپنا اسلامی بھائی کہنے والا پاکستان امریکی سازش کا حصہ بن
کر افغانستان کے خلاف میدان میں نکل آیا تھا۔افغانستان کا جو ھشر ہوا اس سے
تاریخ کے صفحات بھرت پڑے ہیں لیکن طالبان کو پھر بھی شکست نہ دی جاسکی ۔کل
کے دھشت گرد اب مذاکرات کی میز پر ہیں اور امریکہ ان سے معاہدے کا منتظر
ہے۔معاہدے میں تاخیر طالبان کی رضامندی کی وجہ سے التوا میں ہے۔وہ سرنگوں
ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں جس سے امریکی سازش اپنی منطقی کامیابی سے محروم
دکھائی دے رہی ہے ۔ملا عمر کی حکومت اور اس کے اندازِ حکمرانی سے اختلاف
کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے معنی یہ کہاں تھے کہ امریکہ افغانستان پر چڑھائی
کر دے۔ملا اعمر اور ان کے حوا ری سادہ لوح تھے اور اسلام کے سچے پیرو کار
تھے۔دنیاوی لالچ اور ارتکازِ دولت کی ہوس ان کی زندگیوں سے کوسوں دور تھی۔
ان کے خلاف امریکی یلغار اسلام سے ان کی ازلی دشمنی کی غماز ہے اور یہ نکتہ
اب بھی امریکی پالیسی کا حصہ ہے ڈولند ٹرمپ آج کل بھارت کے دورے پر ہیں اور
بھارتی حکومت ان کی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے۔افغانستان کا ایشو ان دونوں ممالک
میں اشتراکِ عمل کا بہترین نمونہ ہے۔ بھارت میں جس طرح نسلی امتیاز کا بت
بنایا جا رہا ہے اس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔پورا بھارت آگ کے
شعلوں کی لپیٹ میں ہے اور نریندر مودی مسلمانوں کا وجود مٹانے کے لئے بے
چین ہے ۔مسلمانوں کی املاک کو جس بے دردی سے جلایا جا رہا ہے اس نے پورے
بھارت میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔مسلمانوں کے کاروبار اور ان کے گھروں کو
مسمار کیا جا رہا ہے ۔ انھیں بھارت سے بے دخل کئے جانے کے لئے ریاستی جبر
کو بروئے کار لا یا جا رہا ہے۔ نسلی امتیاز اپنی ساری حدود پھلانگتا جا رہا
ہے ۔ مسلمان بھارتی آبادی کا ۲۰ فیصد سے زیادہ حصہ ہیں اور بھارتی ثقافت
اور تہذیب کے امین ہیں۔ایک ہزار سال تک بھارت پر حکومت کرنے وای قوم کو جس
طرح مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے دنیا کو اس کا نوٹس لینا چائیے۔ ہندوترا کا
نظریہ جس طرح رو بہ عمل لانے کی کوشش ہو رہی ہے وہ دنیا کے لئے ایک خطرہ
ہے،جمہوریت تمام مذاہب کے لوگوں کو برابری کے ساتھ زندہ رہنے کے امکانات کو
یقینی بنانے کا نام ہے لیکن بھارت جمہوریت کے اس درس کوپاؤں تلے روھندنے کے
لئے بے تاب ہے۔ بھارتی رویہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں سے
متصادم ہے جس کی مذمت کی جانی ضروری ہے۔بھارت عالمی ضمیر کو کچلنے کے لئے
تشدد کی جس راہ کا انتخاب کر رہا ہے عالمی برادری کو بھارت کی اس فسطا ئیت
کے خلاف متحد ہونا پرے گا۔آگ اور خون کا وہ کھیل جو بھارت نے شروع کر رکھا
ہے اس کو اگر روکا نہ گیا تو دنیا بد امنی اور انتشار کا شکار ہو جائے گی
لہذا اس سوچ کا خا تمہ ضروری ہے تا کہ دنیا امن و چین کا گہوارہ بن سکے۔،۔
|