مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک - پانچویں قسط

کوئین آف دی ایسٹ

جب ہمارا فوکر طیارہ جس کے دونوں طرف پنکھے زور شور سے چل رہے تھے اپنے چالیس پینتالیس مسافروں کے ساتھ چٹاگانگ ائرپورٹ کے او پر نیچی پرواز میں چکر لگا رہا تھا تو میں کھڑکی سے نیچے کا منظر دیکھ کر مسحور سا ہو گیا سر سبز پہاڑیوں میں آبادی اور دریا کا سمندر میں گھل مل جانے کا منظر یہ سب ایک روح پرور نظارہ تھا۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ جب ہم لوگ یہاں آنے کے لیے ٹرین یا بس کے سفر کا ارادہ کر رہے تھے تو مقامی ساتھیوں نے یہ کہہ کر ڈرایا کہ ٹرین کا سفر بہت خطرناک ہے اسلیے کہ راستے میں مکتی باہنی والے پلوں کے نیچے بم لگائے رکھتے ہیں جو ٹرین کے پل پر سے گزرتے وقت پھٹ جاتے ہیں ،اس سے بچنے کے لیے پیسنجر ٹرین کے انجن کے آگے مال گاڑی کی چار پانچ خالی بوگیاں لگائی جاتی ہیں کہ اگر خدانخواستہ ایسا کوئی حادثہ پیش آئے تو کم سے کم نقصان ہو، اور بس کو تو کہیں بھی راستے میں روک کر لو ٹ لیا جاتا ہے۔یہ سب سن کر ہم لوگوں نے ہوائی سفر کو ترجیح دی جس کے باعث پریشانیوں کے جمگٹے میں ایک دل و دماغ کو ترو تازہ کرنے والا نظارہ دیکھنے کو ملا۔

پاکستان بننے کے بعد جب قائداعظم مشرقی پاکستان کے دورے پر گئے تو چٹاگانگ سرکٹ ہاﺅس میں ٹھہرے ، جو ملکہ برطانیہ نے اپنے دور حکومت میں اپنے لیے خاص طور پر بنوایا تھا ، قائداعظم نے چٹاگانگ کی چھوٹی چھوٹی سر سبز پہاڑیوں اور سمندر ی بندرگاہ جہاں دریا اور سمندر آپس میں شیرو شکر ہوتے ہیں اس خوبصورت منظر کو دیکھ کر اس شہر کو ” کوئین آف دی ایسٹ “کا خطاب دیا تھا۔اسی دورے کے دوران جب انہوں اعلان کیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی تو اس کو لے کر یہاں احتجاج شروع ہو گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زور پکڑتا گیا، حالانکہ اردو زبان پاکستان کے کسی بھی صوبے کی نہیں کہیں سندھی کہیں پنجابی اور کہیں پشتو بولنے والے رہتے ہیں جہاں تک اردو کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ایک لشکری زبان ہے جو مغلوں کے دورِ حکومت میں ایجاد ہوئی کہ لشکر میں ہر زبان کے بولنے والے لوگ ہوتے تھے، ان کی آسانی کے لیے ہر زبان کے کچھ لفظ ملا جلا کر اردو کا نام دے دیا گیا تھا۔ مگر بنگالی چاہتے تھے کہ یہاں بنگلہ زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے، اس وقت شیخ مجیب صاحب ڈھاکہ یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹ لیڈر اور ”عوامی مسلم لیگ“ کے سیکرٹری تھے جو کہ خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی جیسے سرکردہ لیڈروں کی تشکیل دی ہوئی مشرقی پاکستان کی مقبول ترین جماعت تھی، اس میں ہندو بھی شامل تھے جنہوں نے مسلم کے لفظ پر اعتراض کیا تو شیخ مجیب نے لفظ مسلم کو ہٹا ک صرف ” عوامی لیگ“ کے نام پر ہندوﺅں سے خوب بڑے پیمانے پر فنڈ اکٹھا کیا ۔ اس نام کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ ہند و عوامی لیگ میں شامل ہوتے گئے اور خواجہ ناظم الدین اور مولانا بھاشانی جیسے نامور مسلم لیڈر اس جماعت کو چھوڑ کر علیحدہ ہو گئے۔ جبکہ ہندووئں نے لینگویج مومنٹ(LANGUAGE MOWMENT ( کو خوب بڑھاوا دیا جو اردو کی مخالفت میں شروع ہوئی تھی، یہاں تک کہ ا نیس سو باون میں دفعہ 144 (ایک سو چوالیس) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک احتجاج کے دوران تین طالب علم پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ جن کی یادگار کے طور پر یہاں ” شہید مینار“ بنائے گئے جو کہ ہر گاؤں اور شہر میں اسکول کالجوں میں تین ستونوں پر مشتمل جو ایک دوسرے کے برابر فاصلے پر سیدھے کھڑے ہوتے ہیں اور ا وپر جا کر سامنے کی طرف رکوع کی طرح جھکے ہوتے ہیں ایسے شہید مینار بنا کر ہر سال اکیس فروری کے دن ا ن پر پھول چڑھا کر” LANGUAGE DAY“منایا جانے لگا کیونکہ اسی د ن ان طالب علموں کو گولیاں لگی تھیں۔اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان لوگوں کو ”شہید “کس کارنامے پر کہا جاتا ہے جبکہ وہ صرف اور صرف اپنی مادری زبان کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے اور حکومت کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بنے۔ بہر حال یہ میرے اپنے دلی جذبات ہیں جن کو روکنا میرے بس میں نہیں ، مگر ایک بات یہاں تسلیم کرتا ہوں کہ بنگالی جتنی محبت اپنی بنگلہ زبان سے کرتا ہے شاید ہی دنیا میں کوئی اتنی محبت کرتا ہو !! میرا چونکہ بنگلہ دیش بننے کے بعد بھی وہاں آنا جانا رہتا ہے ،میں نے وہاں خاص کر عوامی لیگ کے دور حکومت میں دیکھا ہے کہ فروری کی پہلی تاریخ سے ہی ٹی وی پر الٹی گنتی شروع ہو جاتی ہے روزانہ ایک پروگرام اس موضوع پر دکھایا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں تو قومی ترانہ جس میں پاکستان سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے، مگر بنگلہ دیش کے اسکولوں میں بچے جو ترانہ گاتے ہیں ”امار بنگلہ بھاشا امی تمائے بھالو باشی“(اے میری بنگلہ زبان میں تم سے محبت کرتا ہوں) اس کے علاوہ جب مارچ کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو باقاعدہ انیس سو اکہتر میں مارچ مہینے میں کیا کیا ہوا شیخ مجیب کی وہ تاریخی جلسہ عام میں” تقریر“ جس میں انہوں نے بڑے جوشیلے انداز میں کہا تھا ”اے بار یر شنگرام مُکتیر شنگرام“ (اس دفعہ کی جدوجہد آزادی کی جدوجہد) بنگلہ دیش کی پہلی جلا وطن حکومت بھی مارچ اکہتر میں ہی تشکیل ہوئی تھی جس کے ورزیراعظم تاج الدین احمد بنے، جن کو ”مجیب نگر“ جو اس وقت کے مشرقی پاکستان ہی کا ایک حصہ تھا وہاں پاکستان کی باغی فورس نے گارڈ آف آنرز پیش کیا جہاں اب اس نظارے کو مجسموں کی شکل میں محفوظ کر دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ بنگالی قوم ایک بڑی ہی حساس قوم ہے کہ چالیس سال گُزرنے پر بھی ان کا نادیدہ زخم تازہ ہی نہیں بلکہ دن بدن ترو تازہ ہوتا جا رہا ہے!!! گزشتہ روز میں نے BBC.COM پر ایک خبر پڑھی کہ ایک بنگلہ دیشی خاتون نے ایک فلم بنائی ہے جس کی کہانی کچھ یوں ہے ، کہ انیس سو اکہتر کی لڑائی کے دوران ایک پاکستانی فوجی کو ایک بنگالی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے، جبکہ بعد میں اُن دونوں کو بہت بے عزت کیا جاتا ہے، اس فلم کو بنگالیوں کی مخالفت کی وجہ سے سینما گھروں کو خیر باد کہنا پڑا۔

دسمبر میں تو یہاں جشن کا سماں ہوتا ہے خوب خوشیاں منائی جاتی ہیں انعامات تقسیم کئے جاتے ہیں، اس وقت بنگلہ دیش میں دو بڑی پارٹیاں ہیں جن میں ایک ”BNP” (بنگلہ دیش نیشنل پارٹی) جو کہ ضیاءالرحمن نے اپنے دور حکومت میں بنائی جس کو پرو پاکستانی کہا جاتا ہے اور دوسری ”عوامی لیگ “ جو کہ شیخ مجیب کی پارٹی ہے، جس کو پرو ہندوستانی کہا جاتا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں میں ان بن چلتی رہتی ہے آجکل یہ جھگڑا چل رہا ہے کہ بنگلہ دیش بننے کا اعلان کس نے کیا ِ ؟ بی۔این ۔پی کا کہنا ہے کہ یہ اعلان ان کے لیڈر ضیاءالرحمن نے کیا جب کہ شیخ مجیب اس وقت پاکستان کی جیل میں تھے اور یہ ہی حقیقت بھی ہے مگر عومی لیگ اس کو نہیں مانتی، ان کا کہنا ہے کہ سب کچھ شیخ مجیب کے نام سے منسوب کیا جائے اور اس کی ابتداء تو بنگلہ دیش بننے کے بعد جب عوامی لیگ نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور سب کچھ انڈیا کے کہنے پر ہونے لگا تو بنگلہ دیشی فوج جو کہ پہلے پاکستان کی وفادار رہ چکی تھی اس بات کو ہضم نہ کر سکی اس کے علاوہ انڈین فوج جو فاتح بن چکی تھی وہ ہر چیز کو اپنا حق سمجھ کر واپس جاتے وقت ساتھ لے گئی ،خوراک کا ذخیرہ فیکٹریوں کی مشینیں یہاں تک کہ گھروں سے ٹی۔وی اور قالین تک نہیں چھوڑے نوزائدہ بنگلہ دیش میں نہ کھانے کو روٹی نہ پہننے کو کپڑا ۔ اللہ کی شان کہ ایک دفعہ ’1969‘ میں سیلاب کی وجہ سے چاول کی فصل کو نقصان پہنچا تو اس وقت کی حکومت نے مشرقی پاکستانیوں سے درخواست کی کہ آپ لوگ ایک وقت روٹی اور ایک وقت چاول کھائیں ۔ تو شیخ مجیب صاحب نے بڑے غرور سے اپنی تقریر میں یہ الفاظ زور دے کر کہے تھے، ” آمرا بھات کھابو روٹی کھابو نہ“ ( ہم لوگ چاول کھائیں گے روٹی نہیں کھائیں گے“ اور پھر دنیا نے غرور کا سرنیچا ہوتے ہوئے دیکھا اور وہی شیخ مجیب جو پاکستان کے وقت روٹی کو حقارت سے ٹھکرا چکا تھا اپنی بنگلہ دیشی حکومت میں لوگوں سے اپیل کر رہا تھا کہ ایک وقت روٹی کھائیں اور ایک وقت بھات۔ میرے ایک بنگالی دوست نے بتایا کہ اس کے دور حکومت میں روٹی تو کیا ملتی مردوں کو دفنانے کے لیے کفن نہیں نصیب ہوا ،لوگوں نے کیلے کے پتوں میں لپیٹ کر مردوں کو دفن کیا۔ بنگلہ دیشی فوجی سوچ رہے تھے کہ انہوں نے تو ملک کی آزادی کے لیے جنگ کی تھی نہ کہ اپنوں کے تسلط سے آزاد ہو کر غیروں کے تسلط میں جانے کے لیے!! اپنی اس غلطی کا انہیں جب احساس ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی ، مگر اب کیا ہو سکتا تھا جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت، آخر یہ تمام غصہ شیخ مجیب کو اہل خانہ سمیت قتل کر کے نکالنے کی کوشش کی گئی، مگر جو بیج شیخ مجیب نے بویا تھا اس کو نہ کاٹ سکے جو آج بھی نئی نسل کے سامنے ”شہید مینار“ بن کر کھڑا ہے۔

چٹاگانگ ائر پورٹ پر جماعت کے ایک کارکن ہمیں لینے آئے ہوئے تھے ا نہیں کے ہمراہ پی ۔آئی ۔اے کی بس میں شہر کی طرف روانہ ہوئے جو ائر پورٹ سے تقریباً پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ ائر پورٹ دریا کے کنارے پر واقع تھا جس کا پانی تھوڑا آگے جا کر سمندر میں گر رہا تھا ہماری بس اسی دریا کے کنارے کنارے چل رہی تھی پوچھنے پر ہمارے میزبان نے بتایا کہ یہ دریائے ”کرنافُلی“ ہے جو لمبائی میں صرف چالیس میل اور گہرائی میں تقریباً سو ہاتھ ہے،چٹاگانگ کی بندرگاہ اسی دریا پر بنی ہوئی ہے جہاں بڑے بڑے جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں۔تھوڑا آگے بڑھے تو ایسٹرن ریفائنری کا بورڈ نظر پڑا یہ بھی کافی بڑی فیکٹری تھی سڑک کے ایک طرف دریا میں آئل ٹینکر کھڑے ہو کر پائپوں کے ذریعے تیل بھروا رہے تھے جو سڑک کے نیچے سے گزر کر دوسری طرف فیکٹری کے بڑے بڑے ٹینکوں سے جڑے ہوئے تھے ، اس کے بعد چٹاگانگ سیمنٹ فیکٹری وہ بھی میلوں میں پھیلی ہوئی تھی ، اس کا بھی سیمنٹ بنانے کا پتھر دریا میں کھڑے جہاز سے ایک کنوئر چین کے ذریعے جو سڑک کے اوپر سے لے جا کر فیکٹری میں گرایا جا رہا تھا، اس کے بعد چٹاگانگ اسٹیل مل کی دیوار جو شروع ہوئی تو ختم ہونے کا نام نہیں میں نے رائے صاحب کی طرف دیکھا وہ بھی میری طرح حیر انی سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔جماعت کے دفتر جو کہ” نندن کانن“ میں تھا وہاں ہمارے انتظار میں نائب امیر جناب مولانا شمس الدین صاحب موجود تھے بڑے خوش اخلاق اور ملنسار آدمی تھے کچھ عرصہ پہلے ان کا انتقال ہوا اللہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا کرے۔آمین

سلام کلام کے بعد میرا پہلا سوال ان سے یہ تھا کہ مولانا صاحب یہاں کوئی ایسا ہوٹل آپ کی نظر میں ہو تو بتائیں جہاں کوئی اردو بولنے والا ہو جو میری بات سمجھ سکے، انہوں نے بڑے محبت بھرے انداز میں کہا، کیوں بھائی صاحب ہمیں خدمت کرنے کا شرف نہیں بخشیں گے۔ ؟ میں ان کی اتنی پیاری اردو سن کر بہت حیران ہوا کہ ایسی اردو تو ہم بھی نہیں بولتے میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ یہاں مدرسے کے طالب علم کے لیے اردو سیکھنا بہت ضروری اس لیے ہے کہ دینی کتابیں اور احادیث سب اردو میں ہیں اور قرآن پاک کا ترجمہ بھی اردو میں صحیح پڑھا جا سکتا ہے بنگلہ زبان تو انگریزی کی طرح بائیں طرف سے لکھی اور پڑھی جاتی ہے جبکہ اردو اور عربی دائیں طرف سے ، لہٰذا حرف بہ حرف ترجمہ کے لیے اردو سے بہتر کوئی زبان نہیں ہے۔ میں نے رائے صاحب سے تو ڈھاکہ سے روانہ ہونے سے پہلے ہی وعدہ لے لیا تھا کہ چٹاگانگ میں مجھے آپ جماعت کے آفس میں ٹھہرنے پر مجبور نہیں کریں گے ، لہٰذا مولانا صاحب نے جب رائے صاحب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو انہوں نے خاموشی سے اپنی رضامندی کا عندیہ دے دیا، مولانا صاحب نے بتایا کہ ہمارے آفس کے قریب ہی ایک اردو بولنے والے حاجی امین صاحب کا ہوٹل ہے میں آپ کے ساتھ ایک آدمی دے دیتا ہوں وہ آپ کو وہاں چھوڑ آئے گا مگر چائے پینے کے بعد!! روزانہ کے لیے چائے کی دعوت ہماری طرف سے آپ کو ہے ۔ بلا جھجک آ جایا کریں اور کوئی بھی ضروت ہو ہمیں بتائیں ہمارے بس میں ہو گی تو ہم ضرور پوری کریں گے۔ چائے پی کر میں ”گرینڈ ہوٹل“ پہنچا جس کے مالک مولانا صاحب کی بڑی عزت کرتے تھے مجھے بڑے محبت بھرے انداز میں کہنے لگے ارے بھائی لاہور والے تو بڑے دلدار ہوتے ہیں آپ ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو بلا تکلف بتا دیجئے گا یہاں آپ کہ حلوا پوری اور لسی کا ناشتہ بھی ملے گا اور تکے کباب کا بھی انتظام ہے، سنا ہے لاہور والے کھانے پینے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

نوٹ۔گزشتہ قسط میں جو میں نے جماعت کے بارے میں لکھا کہ انہوں نے عورت کی حکومت کو شرعًا ناجائز کہا اور پھر بنگلہ دیش میں خود ہی خالدہ ضیاء کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تو میرے ایک دوست نے اس کی یوں وضاہت کی کہ زیادہ نقصان سے بچنے کے لیے اگر تھوڑا نقصان بردشت کرنا پڑے تو جائز ہے اُن کا کہنے کا مطلب تھا کہ اگر وہ خالدہ ضیاء کے ساتھ نہ ملتے تو حکومت عاومی لیگ کی بنتی جو کہ اکثریتی پارٹی تھی اور ہندوستان کے اشاروں پر چل کر قرآ ن اور سنت کے خلاف کام کرتی ہے جیسا کہ اس وقت اُس کی حکومت میں ہو رہا ہے، کہ عورت کو مرد کے برابر کا درجہ دینے کے لیے قانون بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا اس سے بچنے کے لیے ان کو ایسا قدم اُٹھانا پڑا۔ اب اُن کی منطق کہاں تک صحیح ہے یہ فیصلہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں۔
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 84113 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.