مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک - چھٹی قسط

لہور لہور اے بھئی

گرینڈ ہوٹل کا مالک حاجی امین بہت خوش مزاج اور باتونی قسم کا آدمی تھا ، بات شروع کرتا تو ختم کرنا بھول جاتا میرے ساتھ تو عموماً لاہور کے متعلق ہی باتیں ہوتی رہیں، میں نے باتوں باتوں میں اُن سے اپنے کام کے بارے میں ذکر کیا تو کہنے لگے کیوں نہیں بھئی آپ کا کام تو ہو جائے گا ، پھر کچھ سوچ کر کہنے لگے، آپ مولانا شمس الدین صاحب سے کیوں نہیں کہتے ؟ وہ تو یہاں کے لوکل ہیں اور ان کی ہر جگہ جان پہچان بھی ہے،اس سلسلے میں وہ آپ کی صحیح رہنمائی کر سکتے ہیں۔ ان کی بات میرے دل کو لگی اور میں مولانا صاحب کی طرف چل پڑا ، رائے صاحب بھی وہاں موجود تھے فرمانے لگے، ارے لطیف بھائی آپ کو آج صبح سے یاد کر رہا ہوں آپ تو ہوٹل جا کر ہم کو بھول ہی گئے۔میں نے ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا ، رائے صاحب آپ کو میں کیسے بھول سکتا ہوں آپ تو میرے محسن ہیں!! کہیے کیسی گزر رہی ہے ؟ انہوں خوش ہوتے ہوئے جب یہ بتایا کہ وہ کل واپس جا رہے ہیں تو میرا چہرہ اتر گیا جسے دیکھ کر انہوں نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا، ارے بھی تم کیوں فکر کرتے ہو اور مولانا صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے،ارے بھئی میری جگہ اب یہ آپ کو کمپنی دیں گے میں نے ان سے کہہ دیا ہے ، انشااللہ آپ کو میری کمی محسوس نہیں ہو گی۔ادھر مولانا صاحب نے بھی مجھے بہت تسلی دی، دراصل رائے صاحب کا ساتھ میرے لیے انجانے دیس میں ایک سہارا تھا ،بہر حال دل کو یہ کہہ کر تسلی دے لی کہ اللہ کریم سب سے بڑا سہارا ہے جو یہاں تک لایا ہے آگے بھی وہی لے جائے گا۔میں نے مولانا صاحب سے کام کے بارے میں بات کی تو انہوں بڑے انکسار سے کہا کہ دیکھئے میں تو کاروبار کے متعلق کچھ نہیں جانتا ،ہاں میرے بڑے بھائی صاحب کاروبار کرتے ہیں میں اُن سے آپ کو ملوا دوں گا ، انشااللہ وہ آپ کا کام کر دیں گے ۔ میرے پاس جو رقم میں کاروبار کے لیے ساتھ لے گیا تھا وہ میں نے اُن کے پاس امانت کے طور پر رکھوانی چاہی کہ ہوٹل میں رکھنا ٹھیک نہیں تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آپ اسے کسی بنک میں رکھیں تو بہتر ہو گا، میں نے کہا میرا تو یہاں بنک اکاﺅنٹ نہیں ہے تو انہوں نے اپنے ایک دوست جن کا نام فاروق صاحب تھا جو چینیوٹ کے رہنے والے تھے کو فون کر کے مجھے ان کے پاس بھیج دیا جو بڑی محبت سے پیش آئے انہوں میرا اکاﺅنٹ کھلوا کر رقم جمع کروائی اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ بھائی جب دل چاہے آجانا کوئی بھی کام ہو بلا تکلف بتانا ہم بھی آپ ہی کی طرح یہاں ملتانی لنگیاں بیچنے آئے تھے بس یہاں ہی کے ہو کر رہ گئے۔ دوسرے دن چیک بک بھی مل گئی ۔ اب میں بھی بے فکر ہو گیا کہ چلو رقم تو محفوظ ہو گئی۔

دوسرے دن رائے صاحب کو الوداع کر تے وقت اپنے گھر کا ایڈریس دیا اور کہا کہ وہاں جا کر میرے گھر والوں کو تسلی ضرور دیں کیونکہ آج بیس روز ہو گئے گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ، کیونکہ ٹیلی فوں کی لائن ہی نہیں ملتی، وہ لوگ پریشان ہوں گے، میں بھی انشااللہ کام ہوا تو ٹھیک ورنہ ایسے واپس آ جاﺅں گا۔رائے صاحب نے پھر کام مکمل کر کے آنے کی تاکید کی اور اللہ حافظ کہتے ہوئے پی۔آئی۔اے۔کی بس میں سوار ہو گئے ۔

میں مولانا صاحب کے پاس پہنچا کہ آج ان کے بڑے بھائی صاحب ملاقات کرنے آنے والے تھے، وہاں پہنچا تو وہ لوگ میرا ہی انتظار کر رہے تھے سلام کلام کے بعد اپنا مدعا بیان کیا تو مولانا صاحب کے بڑے بھائی جو دیکھنے میں مولا نا مگر باتوں میں سلجھے ہوئے کاروباری لگے ، میرے کام کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے بولے ،یہ کام میرے لئے کوئی مشکل نہیں کیونکہ میرے گاﺅں کے پاس جو پہاڑ ہیں ان میں بے شمار بانس لگا ہوا ہے، آپ جتنا چاہیں وہاں سے بانس کٹوا سکتے ہیں صرف محکمہ جنگلات کو اس کی معمولی سی رائلیٹی دینی ہوگی ، ہمیں اس کو کٹوانے کے لیے لیبر لگانی پڑے گی۔ اُن کی بات سن کر میرے دل میں خوشی کی ایک لہر سی دوڑ گئی کہ کام کی ابتدا ہو رہی تھی ، میں نے ان سے اس جگہ جانے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے دوسرے دن جانے کی حامی بھرتے ہوئے اپنا وزیٹنگ کارڈ مجھے دیا اور دوسرے دن آنے کا وعدہ کر کے رخصت ہوئے ، میں بھی مولانا صاحب کا شکریہ ادا کر کے واپس ہوٹل پہنچا تو دیکھا بہت ساری پان کی ٹوکریا ں صحن میں رکھی ہوئی تھیں حاجی صاحب سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ پان بھی کراچی جانے کے لیے تیار ہے جو پی۔آئی۔اے کے ذریعے یہاں سے کراچی جاتا ہے ۔

دوسرے دن صبح مولانا صاحب کے بڑے بھائی جن کا نام مولانا طیب اللہ تھا بارش ہونے کے باوجود وعدہ کے مطابق چھتری سر پر تانے تشریف لائے تو میں نے بڑے تعجب خیز لہجے میں کہا ،مولانا صاحب اتنی بارش میں آپ ۔۔۔تھوڑا بارش کے رکنے کا انتظار کر لیتے ؟ تو مولانا صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا، ارے بھائی صاحب با رشیں تو ہوتی رہتی ہیں ان سے یہاں کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑتا ،آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہر آدمی کے ہاتھ میں ایک چھتری ہوتی ہے جو دھوپ میں بھی کام آتی ہے اور بارش میں بھی، چلیے آپ تیار ہیں ؟ میں نے ان کے لیے چائے کا آڈر دینا چاہا تو انہوں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ جہاں جا رہے ہیں وہیں چل کے پئیں گے۔ ایک سائیکل رکشہ لیا اور بس اسٹینڈ کی طرف چل پڑے، میں نے دیکھا کہ رکشہ والے نے سر پر ایک بڑا سا بانس کا بنا ہواہیٹ نما ٹوپ سا پہنا ہوا تھا جس نے صرف اس کے سر کو ڈھانپ رکھا تھا باقی پورے بدن پر سب کپڑے بارش میں بھیگ رہے تھے ، ہمارے اوپر اس نے ایک گول سا چھجا تان دیا جو رکشے کے ساتھ ہی پیچھے کی طرف سمٹا ہوا تھا جس سے ہم لوگ بارش سے محفوظ ہو گئے،میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا ،یا مالک الملک یہ بندہ تیرا سارا دن اسی حالت میں رکشہ چلا کر اپنے بچوں کے لیے روزی کما رہا ہے تیری بے نیازی کے صدقے تو ہی اس کو اتنی طاقت بخشنے والا ہے۔یہ عام سی بات نہیں، ہم لوگ ذرا سا بارش میں بھیگ جائیں تو بخار آ جاتا ہے ، میں انہیں سوچوں میں گم تھا کہ مولانا صاحب نے یہ کہہ کر چونکا دیا ، لطیف بھائی کیا سوچ رہے ہیں، سامنے بس اسٹینڈ آ گیا ہے اور بس بھی تیار ہے جلدی چلیے انہوں اپنی چھتری کھول کر آدھی میرے اوپر اور آدھی اپنے اوپر تان لی، رکشے والے کو چار آنے دئیے جو اُس وقت کے لحاظ سے مناسب تھے اور ہم لوگ دوڑ کر بس میں سوار ہوگئے جو رینگتے ہوئے سواریاں لیتی جا رہی تھی، بھیگا ہوا موسم ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کا ایک اپنا ہی مزا ہوتا ہے اس کے علاوہ اس بات کی بھی خوشی تھی کہ بہت دن بعد اپنے کام ہونے کی اُمید جاگی تھی،بس جب شہر سے باہر نکلی تو ایک مسحور کن نظارہ دیکھنے کو ملا، ہر طرف ہریالی ہی ہریالی بارش کے پانی میں نہاتے ہوئے ناریل کے درخت جن کے ساتھ سبز رنگ کے چھوٹے بڑے ناریل لٹک رہے تھے ۔آسمان کو چھوتے ہوئے سُپاری کے درخت جو چالیس پچاس فٹ لمبے با لکل سیدھے اوپر جاکر پتوں نے چھتری سی تان رکھی تھی۔ہم جس بس میں سوار تھے وہ ایک پرانے طرز کی تھی جس کی کھڑکیاں بھی لکڑی کی تھیں جو اوپر کرنے سے بند اور نیچے کرنے سے بس کی باڈی میں بنی ہوئے خانے میں سما جاتی تھیں،میں چونکہ کھڑکی کی طرف بیٹھا تھا اس لیے مجھے بارش کی خنکی اور چھینٹے چہرے اور سینے پر ٹھنڈک پہنچا رہے تھے۔سامنے ایک آبادی نظر آئی اور بس کنڈیکٹر نے ”بارہ اولیاء“ کی صدا لگائی اور بس کے رکتے ہی لوگوں نے کھڑکیوں سے پیسے باہر پھینکنے شروع کر دیے ایک آنہ سے لے کر ایک روپیہ تک جس کی جتنی حیثیت تھی پھینک رہا تھا مجھے بڑا عجیب سا لگا لوگ جہاں پیسے پھینک رہے تھے وہاں ایک بہت بڑا پیپل کا درخت جس کی شاخوں نے سڑک کے اوپر بھی سایہ بنا رکھا تھا اس کے تنے کے پا س ایک چار یواری جس کے اندر سبز چادروں میں ڈھکا ایک مزار جس کے بارے میں مولانا صاحب نے بتایا کہ یہاں پر بارہ اولیاء نے آ کر کچھ دیر آرام کیا تھا اس لیے اس جگہ کو متبر ک سمجھتے ہوئے یہاں لوگ پیسے پھینکتے ہیں اور دل میں کوئی خواہش ہو تو اس کے پورا ہونے کی دعا کرتے ہیں۔بہر حال اپنے اپنے عقیدے پر ہر کسی کو چلنے کی آزادی ہے ،کوئی کہتا ہے خدا عرش پہ رہتا ہے کسی کو وہ کوہِ طور پر ملتا ہے،کوئی کہتا ہے و ہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب تر ہے، اور اُس سے محبت کرنے والوں کے تو وہ دل میں رہتا ہے ، ۔

ہماری منزل ہادیر ہاٹ تھی ،وہاں پہنچنے پر مولانا صاحب کے کچھ جاننے والوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے ہمیں ”بذل سوداگر“ کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ سوداگر لفط کی مولانا صاحب نے اس طرح تشریع کی کہ یہاں کاروبار کرنے والے اپنے نام کے ساتھ سوداگر لگانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور یہ صرف گاﺅں کے لوگ ہوتے ہیں شہر میں اس کا رواج نہیں سنا ہے کہ یہاں عرب سے کچھ سوداگر آئے تھے جو یہیں بس گئے ان کی نسبت سے یہ لوگ اپنے آپ کو سوداگر کہتے ہیں۔ مجھے یہ سن کر کراچی کے چنا بیچنے والے یاد آ گئے جنہیں لوگ سیٹھ کہہ کر بلاتے”سیٹھ ایک آنہ کا چنا دینا“ اور وہ کاغذ کو گول کر کے پڑیا میں چنے ڈال دیتا ( قارئین جانتے ہیں کہ بوڑھا ہونے پر انسان کے پاس یادوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور انہیں کے سہارے زندگی کے دن اچھے گزر جاتے ہیں) ہم لوگ بذل سوداگر سے ملے تو اس نے ہمارے کام کی حا می تو بھر لی مگر اس شرط کے ساتھ کہ بارش کے دنوں کام نہیں ہو گا ۔ ان دنوں میں ایک کیڑا (جونک) جنگل میں پیدا ہوتا ہے جو انسان کا خون پیتا ہے اس لیے لیبر جنگل میں کام کرنے سے گریزاں رہتی ہے اور یہ مہینہ تو ساون کا ہے پندرہ دن بعد آپ کا کام شروع ہوگا ، مولانا صاحب نے مجھے سب ترجمہ کر کے بتایا کیونکہ میں تو بنگلہ اس وقت با لکل نہیں سمجھتا تھا،میں نے دل کڑا کرتے ہوئے مولانا سے کہا جہاں اتنا وقت گزر گیا وہاں پندرہ دن اور سہی !! مولانا صاحب نے بانس کے نرخ اور سائز وغیرہ طے کرنے کے بعد میری رضامندی کے ساتھ کچھ ایڈوانس دے کر پندرہ دن بعد آنے کا وعدہ لیا کہ ہم لوگ آ کر نمونہ دیکھیں گے اگر سب کچھ ٹھیک ہوا تو آدھی رقم دے دیں گے اور باقی مال کی ڈلیوری کے وقت ادا کر کے مال اُٹھا لیں گے، یہ سب باتیں طے کرنے کے بعد انہوں نے کہا لطیف بھائی یہاں سے میرا گاﺅں نزدیک ہے اگر آپ کو پسند ہو تو غریب خانہ پر دال بھات(دال چاول) کھانے چلیں ؟ میں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، کیوں نہیں ضرور (ضرور پر زور دیتے ہوئے) اسی بہانے آپ کا گاﺅں دیکھنے کا بھی مو قع ملے گا۔ اور ہم لوگ ایک سائیکل رکشہ پر جو ان کو پہلے سے جانتا تھا اُن کے گاﺅں کی طرف چل پڑے ،راستے میں ایک کافی چوڑا کھال جس میں پانی تیزی سے چل رہا تھا آیا تو مولانا صاحب نے بتایا کہ اس پر ایک پُل تھا جو مکتی باہنی والوں نے اس لیے توڑ دیا کہ ادھر فوجیوں کی جیپ نہ آ سکے، خیر مجھے انہوں نے رکشے پر بٹھا کر گھٹنے گھٹنے پانی میں سے دھکا لگا کر رکشہ پار کیا ،ہم لوگ جب گاﺅں میں داخل ہوئے تو گاﺅں کے لوگ مولانا صاحب کو سہمے ہوئے سلام کرتے اورایک طرف ہٹ جاتے میں یہی سمجھا کہ ان کا ادب اور احترام کر رہے ہیں ان کے گھر پہنچے جو بانس کی دیواروں اور ٹین کی چھتوں والے چار پانچ کمروں پر مشتمل تھا۔ کھانے سے پہلے کچے ناریل کا پانی پلایا گیا جسے مقامی زبان میں ”ڈھاب“ کہا جاتا ہے، کھانا بڑا پرتکلف تھا ، مچھلی کی دو تین قسمیں مرغی روسٹ اور سبزی دال چاول سلاد وغیرہ، میں حیران تھا کہ اتنے مختصر وقت میں اتنی ساری چیزیں تیار کیسے ہوگئیں ، میں نے مولانا صاحب کو ازراہِ مذاق کہا مولانا صاحب کہیں یہ وہ جادو تو نہیں جسے بنگال کا جادو کہا جاتا ہے، چھو منتر کیا تو سب کچھ تیار،انہوں نے مسکرا تے ہوئے کہا نہیں بھائی یہ تو بنگال کو ایسے ہی لوگوں نے بدنام کر رکھا ہے۔ میں نے مزید کریدتے ہوئے کہا ہم نے تو بڑی بوڑھیوں سے سن رکھا ہے کہ بنگال کی عورتیں مردوں کو کبوتر بنا کر پنجرے میں بند کر لیتی ہیں کیا یہ بات صحیح ہے ؟انہوں نے پھر مسکرا کر جواب دیا نہیں بھئی ایسی بات نہیں بنگال کی عورت تو بڑی خدمت گزار ہوتی ہے شاید اسی کو جادو کہا جاتا ہے ، میں نے ان کے چہرے پر کچھ گبھراہٹ دیکھ کر پوچھا کیا بات ہے آپ کچھ پریشان سے دکھائی دے رہے ہیں ؟ انہوں نے اسی عالم میں کہا ،میں سوچ رہا ہوں کہ ہماری آخری بس نہ چھوٹ جائے ۔ میں نے کہا آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا چلئے کھانا تو کب کا ہوچکا۔۔ واپسی میں بھی اسی رکشہ والے نے ہمیں روڈ تک پہنچایا ،میں نے نوٹ کیا کہ مولانا صاحب کے چہرے پر اب بھی ہوائیاں سی اُڑ رہی تھیں۔

دو تین دن بارش میں ہی گزر گئے ،میں کبھی مولانا صاحب کے پاس اور کبھی فاروق صاحب کے پاس جا کر تھوڑا بہت وقت گزارتا یہ پندرہ دن گزارنے اتنے محال ہو گئے کہ ایک ایک دن یک ایک سال کا لگنے لگا یہ اگست کا آخری عشرہ تھا بارش تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی،گرینڈ ہوٹل کے کھانے کھا کھا کر یکسانیت سی محسوس ہوئی تو سوچا کہیں اور چل کر ناشتہ کریں، کچھ فاصلے پر کیفے جاوید کا سائین بورڈ دیکھا اندر جا کر ایک ٹیبل پر بیٹھا ہی تھا کہ میرے پیچھے والی ٹیبل سے کسی نے پنجابی میں اونچی آواز سے کہا”اوئے نہ کر“ میں نے چونک کر گردن موڑی تو اس ٹیبل پر بیٹھے ہوئے چار نوجوانوں نے بھی میری طرف غور سے دیکھا، میں نے ہاتھ کو گھوما کر آہستہ سے کہا”کتھوں“ وہ لوگ میرا اشارہ سمجھ گئے کہ میں بھی پنجاب سے ہوں تصدیق کے لیے ان میں سے ایک نوجوان نے خوش ہوتے ہوئے سوالیہ انداز میں کسی بس کنڈیکٹر کی طرح آواز لگائی ”لہور لہور اے“ میں نے بھی خوش ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اوپر کرتے ہوئے اُسی انداز میں وہی الفاظ دہرائے تو ہوٹل میں بیٹھے ہوئے سب لوگ چونک کر ہماری طرف دیکھنے لگے۔

(جاری ہے)

 
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 84110 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.