دہلی کا جنگل راج

جنگل راج میں امن و امان اس لیے نہیں ہوتا کہ وہاں بھیڑئیے نہیں پائے جاتے بلکہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ان کے دل میں شیر کا خوف ہوتا ہے۔ بھیڑیوں کو اندیشہ لاحق ہوتا ہے کہ اگر وہ خرگوش پر دست درازی کریں گے تو شیر سزا دے گا۔ یہ ڈر ختم ہوجائے تو جنگل میں بھی دہلی کی مانند دنگا فساد ہونے لگے ۔ دہلی کے فساد کی ویسے تو کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ شیر خرگوش کے بجائے بھیڑیوں کا ہمنوا بن گیا ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ وہ کمزور ہوگیا ہے۔ جمہوری نظام نے اسے اقتدار میں رہنے کے لیے جانوروں کی حمایت کا محتاج بنا دیا ہے ۔ اس نے اپنا مقبولیت کا انحصار بھیڑیوں پر کرلیا ہے۔ وہ ا نہیں درندگی کی سزا دینے کے بجائے نہ صرف تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ انعام و اکرام سے بھی نوازتا ہے۔ بھیڑئیے کا انعام یہ ہے کہ اسے قتل و غارتگری کا مواقع عطا کیے جائیں ۔ خون خرابے کی کھلی چھوٹ دینے کے بعد اس کی ہر طرح سے حفاظت کی جائے۔ ایسے میں بھیڑیوں کی درندگی شرافت کے خول سے باہر آجاتی ہے اوربستی و بیاباں میں فساد برپا ہو جاتا ہے۔
یہ بات اب شک شبہ سے بالاتر ہے کہ دہلی کے حالیہ فسادات کی ابتداء کپل مشرا کی اشتعال انگیزی سے ہوئی۔ اس حقیقت کا بلواسطہ اعتراف دہلی کے بی جے پی رکن پارلیمان گوتم گمبھیر نے واضح الفاظ میں نام لے کر کیا ہے۔ ان کے مطابق نفرت پھیلانے والاجو کوئی بھی ہو، چاہے وہ کپل مشرا ہوں یا کوئی اور ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہئے ۔ ہر اشتعال انگیز خطیب کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ،قا،ی رکن پارلیمان کے مطالبے کے باوجود اس کی اپنی برسرِ اقتدار جماعت آخر یہ کارروائی کیوں نہیں کرتی ؟ اب تو معاملہ تقریر سے آگے نکل گیا ہے۔ ۱۴ لوگوں کی ہلاکت کے بعد بھی فسادی جئے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے گھوم رہے ہیں۔ ان پر کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے اس لیے یہ بیان بازی محض مگر مچھ کے آنسو ہیں۔ گوتم گمبھیر اگر اپنے گھر سے نکل کر فساد زدہ علاقوں میں چلے جائیں تو کیا مجال ہے کہ قتل و غارتگری نہ رکے لیکن ایسا کوئی کرنا نہیں چاہتا اس لیے کہ جن بھیڑیوں کی مدد سے پچھلا انتخاب جیتا ہے اور آئندہ پھر سے جیتنا ہے ان کی ناراضگی کاخطرہ بھلا کون لے سکتا ہے؟

ہمارے سیاستدانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اشتعال انگیز بیانات کو بھی انتخابی ترازو میں رکھ کر تولتے ہیں یعنی اگر اس سے سیاسی فائدہ حاصل ہو تو وہ نہ صرف مباح بلکہ مستحب ہے اور اگر نقصان ہوجائے تو مسترد کیے جانے کے قابل ہے۔ یعنی اگر اس اشتعال انگیزی کے بعد بی جے پی دہلی کے انتخاب میں کامیاب ہوجاتی اور منوج تیواری وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف لے لیتے تو وہ اس کی مذمت نہیں کرتے لیکن چونکہ ناکامی ہاتھ لگی اس لیے اب وہ خراب ہوگئی ۔ ان سیاستدانوں کے نزدیک انسانی جان و مال اور عزت و آبرو ثانوی حیثیت کے حامل ہیں اس لیے وہ اس کو دنگا فساد سے جوڑنے کے بجائے انتخابی نتائج کے تناظر میں دیکھتے ہیں ۔ دہلی میں بی جے پی اکائی کے صدر اور وزیر مملکت برائے خزانہ منوج تیواری نے کپل مشرا کی مذمت اس لیے نہیں کی کہ اس کے سبب دہلی میں خاک و خون کا ننگا ناچ شروع ہوگیا بلکہ انہیں افسوس اس وجہ سے وہ دہلی کے تخت سے محروم رہ گئے ہیں ۔ منوج تیواری کا مکمل بیان اس امر کی تصدیق کرتا ہے۔

ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ انڈین ایکسپریس جیسے سنجیدہ اور بیباک اخبار کو بھی آزمائش کی اس نازک گھڑی میں فساد کی وجوہات معلوم کرنے سے زیادہ دلچسپی انتخابی نتائج میں ناکامی کی وجہ جاننے میں ہے۔ اس لیے دہلی بی جے پی کے سربراہ منوج تیواری کو کہنا پڑا کہ فرقہ وارانہ تقریروں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو دہلی انتخابات میں بہت نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے اشتعال انگیزی کرنے والے انوراگ ٹھاکر ، پرویش ورما ، پرکاش جاوڈیکر اور یوگی آدتیہ ناتھ جیسے پارٹی رہنماؤں کا نام لے کر کہا کہ ، ’’ تناظر کوئی بھی ہو حقیقت یہ ہے نفرت انگیز تقاریر ہماری شکست کا سبب بنیں ۔ ہم نے ان تقریروں کی پہلے بھی مذمت کی اور آج بھی کرتے ہیں‘‘۔ اس فہرست میں ایک نام چھوٹ گیا تھا تو اسے جوڑ کر وہ بولے ’’ چاہے وہ پارٹی کے ساتھی کپل مشرا ہی کیوں نہ ہوں جنہوں نے دسمبر میں سی اے اے کے حامی ریلی میں ’’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالو ں کو‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ ایسے لوگوں کو اس خطاکی سزا ملنی چاہیے‘‘۔

منوج تیواری نے اپنے بیان میں پارٹی کے بڑے رہنماوں کا نام لے کر بڑی جرأتمندی کا ثبوت تو دے دیا اور یہ ممکن بھی ہے کہ کپل مشرا جیسے چھُٹ بھیا کو بلی کا بکر ابنادیا جائے لیکن انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما جیسے ارکان پارلیمان کے خلاف کسی کارروائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے جو لوگ سادھوی پرگیا ٹھاکر کو اس کے گوڈسے کی کھلے عام حمایت کی سزا نہیں دے سکے وہ بھلا انوراگ ٹھاکر کا کیا بگاڑ لیں گے۔ پرکاش جاویڈیکر پر نظر بد ڈال کر سنگھ کو ناراض کرنے کا بھی تصور محال ہے۔ یوگی ادیتیہ ناتھ کو تو اشتعال انگیزی کی خاطر بلایا ہی جاتا ہے ۔ ان کو اگر اس کام سے منع کردیا جائے تو وہ کسی کام کے نہیں رہ جاتے۔ اس لیے منوج تیواری کا بیان اخبارات اور ٹیلی ویژن کی زینت کا سامان ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

دنیا کی عظیم ترین جمہوریت امریکہ کی تاریخ گواہ ہے کہ اس نظام میں ریپبلکن پارٹی ہو یا ڈیمو کریٹس ہوں ، وہ اپنے لیڈر کو سزا دینا تو دور مواخذے سے بھی بچا لیتے ہیں اور ہندوستان کے اندر نہ صرف بی جے پی بلکہ کانگریس بھی گھناونے سے گھناونے جرم میں ملوث اپنے رہنماوں کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچاتی ۔ تفریق و امتیاز سے بالاتر ہو کر سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کے الفاظ کا استعمال یا تو منشور کی حد تک ہوتا ہے یا کبھی کبھار تقریر و انٹرویو میں ہوجاتا ہے ۔ عملی زندگی سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا اور اس منافقت کو معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔ فی الحال دہلی کے اندر ان بیانات کے سبب فساد پھوٹ پڑا ہے۔اس لیے انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ مذکورہ بالا رہنماوں کو قتل و غارتگری کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان پر مقدمہ درج کیا جائے نیز ان کو قرار واقعی سزاد ی جائے۔

منوج تیواری قابلِ مبارکباد ہیں جو انہوں نے کم ازکم اتنا کہا تو سہی کہ ، “میں چاہتا ہوں کہ ایسی نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کو ہمیشہ کے لئے ( سیاست کی دنیا سے) نکال دیا جائے‘‘۔ اس بیان کی اہمیت اس کی ابدیت میں ہے ۔ عام طور پر سیاسی جماعتیں ۶ سال کے لیے کسی رکن کو پارٹی سے نکالتی ہیں اور درمیان میں انہیں خاموشی کے ساتھ جماعت میں شامل کرلیا جاتا ہے جس سے یہ تعذیب بے اثر ہوکر رہ جاتی ہے۔ تیواری کا کہنا ہے کہ ’’آئیے ہم ایک ایسا نظام وضع کریں جہاں نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کو انتخابات لڑنے کے حق سے محروم کردیا جائے‘‘۔ تیواری نے یقین دلایا ہے کہ ’’ اگر اس طرح کے نظام کو قائم کیا جاتا ہے تو میں انفرادی اور پارٹی صدر کی حیثیت سے اس کی حمایت کروں گا ‘‘۔ منوج تیواری شاید اس حقیقت سے واقف ہیں کہ نہ تو ۹ من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی اس لیے اچھی اچھی باتیں کرکے نیک نامی حاصل کرنے میں کیا حرج ہے۔ تیواری اگر نفرت کو محبت میں بدلنا ہی چاہتے ہیں تو انہیں فساد زدہ علاقہ کا دورہ کرکے مصیبت زدگان کے آنسو پونچھنا چاہیے۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہیے ورنہ اس بول بچن کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

شاید یہ پہلی بار ہے کہ سنگھ پریوار کسی شرجیل امام کو ایجاد کرکے اسےفساد کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکا۔ ہندو اور مسلمان فسادزدگان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ کپل مشرا کی لگائی ہوئی آگ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ذرائع ابلاغ اس کو ماسٹر مائنڈ قرار دے کر نت نئی کہانیاں بنا نے سے گریز کررہا ہے۔ مصطفیٰ آباد کا باشندہ شاہد خان رکشا چلاتا تھا۔ وہ پیٹ میں گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا۔ اس کے بھائی عمران نے بتایا ’’ ہم لوگ ۶ سال قبل بلند شہر سے دہلی میں رہنے کے لیے آئے تھے مگر کبھی ایسا فساد نہیں دیکھا۔یہ سب کپل شرما کی اشتعال انگیزی کے سبب ہوا‘‘۔ اس فساد میں فوت ہونے والے راہل سولنکی کے والد ہری سنگھ سولنکی اور دیگر رشتے داروں نے بھی کپل مشرا کوموردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا ’’ اگراسے نہیں روکا گیا تو لوگ اپنے بچوں کو گنواتے رہیں گے ۔ اس کو (کپل مشرا) فوراً گرفتار کیا جانا چاہیے‘‘۔ اس فساد سے متاثر ہونے والا ہر خاص و عام بلا تفریق مذہب و ملت چونکہ کپل مشرا کو موردِ الزام ٹھہرا کر اس کی گرفتاری کا مطالبہ کررہا ہے اس لیے فوراً سے پیشتر اس کی گرفتاری عمل میں آنی چاہیے ۔ فساد پر قابو پانے کا یہ بہترین طریقہ ہے کیونکہ جب شرپسندوں کو پتہ چلے گا کہ ان کا آقا گرفتار ہوچکا ہے تو وہ بزدل خود ہی اپنے بلِ میں دُبک جائیں گے۔ قانون کی بالادستی اور اس کی پامالی کے عوض سزا کا خوف امن قائم کرنے کے لیے لازمی ہے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1220779 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.