انجمن اقوام متحدہ کے مطابق Genocide is a process. The
holocaust did not start with gas chambers. It starts with a hate speech.
اس کی جیتی جاگتی ایک اور جھلک دنیا نے دہلی میں دیکھی جو نہ ہی بی جے پی
کا پہلا منظم دہشتگردانہ منصوبہ ہے نہ ہی شاید آخری، جنکی تعلیمات و عقائد
کی بنیاد ہی مسلمان، عیسائی وغیرہ سے نفرت پر ہو ان سے خیر کی توقع کیسے کی
جاسکتی ہے، بی جے پی کے لیڈروں کی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں دہلی فسادات
نے جنم لیا جو خوفناک صورتحال میں تبدیل ہوگئے جس کے نتیجے میں بیسیوں
افراد جان سے گئے، ہزار سے زائد زخمی اور لاکھوں افراد نقل مکانی پہ مجبور
ہوے، اربوں کی املاک کا نقصان ہوا، دنگے فسادات ہوتے رہے، مسلمان دہائیاں
دیتے رہے، چیخ و پکار مچتی رہی لیکن بھارت سرکار سرے سے غائب رہی اور قانون
نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے سب کچھ دیکھتے رہے۔ سنگھ پریوار سر
تا پیر انسانی خون میں دھنسا پڑا ہے اور انسانی لاشوں کے ڈھیر پر سنگھ
پریوار ہندو راشٹر بنانے پر تُلا ہے، ممبء فسادات ہوں یا گجرات کے مسلم کش
فسادات 2002 یا پھر 1984 کا سکھ قتل عام یا 2008 میں کندھمال میں عیسائیوں
کی نسل کشی، سارے کے سارے انتہائی منظم اور سوچے سمجھے سازشی منصوبے کے تحت
وقوع ہوے اور سب میں ہی پولیس کا کردار انتہائی مشکوک رہا، دہلی کے موجودہ
مسلم کُش منصوبے میں بھی دہلی پولیس کی جانب داری پوری دنیا نے دیکھی جس پر
سابق ڈی جی پولیس پرکاش سنگھ نے اپنے مضمون Cop Out In Delhi میں لکھا کہ
''دہلی پولیس نے جانبدارانہ روش اختیار کرکے ثابت کردیا کہ پہلے یہ برطانیہ
کے غلام تھے اب بی جے پی یعنی ہندوتوا کے'' بہت سی چونکا دینے والی ویڈیوز
وائرل ہیں جن میں دہلی پولیس فسادیوں کی شناخت اور ثبوت مٹانے کے لیے CCTV
کیمروں کو توڑتی نظر آئی، ایک اور ویڈیو میں بہت سے پولیس والے مسلمانوں پر
غیرانسانی تشدد کرکے انہیں وندے ماترم پڑھنے پہ مجبور کرتے دکھائی دئیے
جبکہ بہت سی ویڈیوز میں دہلی پولیس سنگھی دہشتگردوں کے ساتھ پتھراو اور
انہیں لیڈ کرتی دیکھی گئی اس کے علاوہ مسلمان آبادیوں پر حملوں میں بجرنگ
دل و آر ایس ایس کے ساتھ ملی ہوئی دیکھی گئی، ان فسادات میں سرکاری طور پر
27 افراد کے مرنے اور سینکڑوں زخمی ہونے کی تعداد بتائی گئی جبکہ زرائع کے
مطابق مرنے والوں کی اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے، دہلی کوئی دیہی
علاقہ نہیں بلکہ بھارتی دارالحکومت ہے جہاں تین دن تک فسادات ہوتے رہے لیکن
بی جے پی سرکار خاموش تماشائی بنی رہی جس سے ثابت ہوگیا کہ یہ بی جے پی کی
منظم سازش ہے، رعنا ایوب کو پولیس زرائع سے پتہ چلا کہ باہر سے باقاعدہ
ٹرینڈ دہشتگردوں کو بلوایا گیا اور ممبء طرز پر مسلم جینوسائڈ کے منصوبے کو
دہرایا گیا جس طرح ممبء میں سنگھیوں نے پہلے اشتعال انگیزی کے زریعے لوگوں
کو اکسایا پھر منظم انداز میں مسلمانوں پر حملے کیے گئے، اس بار بھی بی جے
پی نے پہلے اشتعال انگیزی پھیلا کر دونوں طرف سے لوگوں کو اکسایا اور پھر
منظم طریقے سے مسلمان آبادیوں و املاک پر حملے کیے، اشتعال انگیزی میں بڑے
(مودی، امیت شاہ، یوگی) اور چھوٹے سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش
کرتے رہے، کپل مشرا نے شاہین باغ کو پاکستان قراردیا، انوراگ ٹھاکر نے کہا
''گولی مارو ساروں کو''، پرویش ورما و دیگر نے مسلمانوں کو غدار قرار دیا،
سی ٹی راوی اور گرش ویاس نے گجرات ماڈل دہرانے کی بات کی۔ پولیس کی موجودگی
میں کپل مشرا نے اشتعال انگیزی کرتے ہوے مسلمانوں کو شاہین باغ سے ہٹانے کا
الٹی میٹم دیا تو اگلے روز منظم انداز سے پولیس کی ناک کے نیچے سنگھی غنڈوں
نے پُرامن مسلمانوں پر پتھراو شروع کردیا اور ساتھ ہی مسلمان آبادیوں پر
حملے کردیئے،مسلمانوں کو شناخت کرکے مارا گیا، 85 سال کی بزرگ خاتون اکبری
تک کو نہ چھوڑا اور زندہ جلادیا گیا، گھر کے گھر زندہ جلادئیے گئے، مسلمان
گھرانے حواس باختہ محفوظ پناہ گاہیں تلاش کرتے رہے، قریشی ٹاور سے S.O.S
کال دینے والوں نے حکومت یا پولیس کی بجائے عام لوگوں سے مدد کی اپیل کی
کیونکہ پولیس تو خود بجرنگ دل و آر ایس ایس کے ساتھ مل کر ان پر فائرنگ
کررہی تھی، پوری دنیا نے بی جے پی کا اصل چہرہ دیکھا جس صحافی نے حقائق
دکھانے کی کوشش کی اسے دھمکیاں ملیں، ایڈیٹر دی وائر عارفہ خانم کو ریپ اور
قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں ایک لمبی فہرست ہے جنہیں دھمکیاں مل رہی ہیں بہت
سے جرنلسٹوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن بی جے پی انسانی لاشوں کے
ڈھیر پر بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کے مشن پہ قائم ہے جس پر CNN اینکر جیک
ٹیپر نے کہا کہ مودی کے ہاتھ انسانی خون سے دھنسے ہیں۔ پروفیسر اسٹیو ہانک
نے اسے بی جے پی کو ریڈیکل ہندو تنظیم قرار دیا جو مذہبی منافرت پھیلانے کے
ایجنڈے پر ہے۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں و مسلمانوں کے قتل عام پر
ڈونلڈ ٹرمپ کی خاموشی اور اسے انڈیا کا اندرونی مسئلہ قرار دینے پر برنی
سینڈر نے ٹرمپ کو ناکام لیڈر قرار دیتے ہوے بھارت پر کڑی تنقید کی لیکن
فاشسٹ سنگھ پریوار کو نہ اندرونی تنقید کی پرواہ ہے نہ بیرونی، دہلی
ہائیکورٹ کے جسٹس مرلی دھر نے دہلی فسادات کے زمہ داران کے خلاف پولیس کو
FIR کاٹنے اور ہسپتالوں میں زیر علاج زخمی مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کا
سخت حکم دیا تو اوور نائٹ جسٹس مرلی دھر کا پنجاب ہریانہ ہائیکورٹ تبادلہ
کردیا گیا جس میں قانونی طریقہ کار کو بھی نہ اپنایا گیا، یہ جسٹس مرلی دھر
کی خوش قسمتی ہے کہ دوسرے صوبے میں تبادلہ ہوا ورنہ امیت شاہ کے حکم پر
جعلی مقابلے میں قتل کیے گئے سہراب الدین کیس میں جج برجگوپال ہرکشن لویا
کو تو 2014 میں دنیا سے ہی ٹرانسفر کردیا گیا تھا جس کی انکوائری بھی نہیں
ہونے دی گئی۔ گجرات میں تقریباً تین مہینے تک بی جے پی کی سرپرستی میں مسلم
کش کاروائیاں جاری رہیں اب اسی طرز پر دہلی میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن
بنانے کا سلسلہ جاری ہے جس کا مقصد ہندو راشٹر کے منصوبے کو یقینی بنانا ہے،
بی جے پی بخوبی جانتی ہے کہ وہ بیس کروڑ مسلمانوں کو ختم نہیں کرسکتے اس
لیے بی جے پی کے مسلم کُش فسادات کے پیچھے اصل کہانی مسلمانوں کو ان کے
علاقوں سے بیدخل کرکے Ghettos گھیٹوز میں منتقل کرنا ہے جس پر بی جے پی CAA,
NRC اور تشدد کا سہارا لے رہی ہے، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ تو وقت ہی
بتائیگا کہ آیا مسلمان اتنی آسانی سے گھیٹوز میں منتقل ہوجائیں گے یا مذہب
تبدیل کرلیں گے یا پھر مختلف مسلح گروہ وجود میں آکر سنگھیوں کا مقابلہ
کریں گے، بی جے پی کی مذموم سرگرمیوں پر ایک شعر قارئین کی نذر
اور بھی دور فلک ہیں ابھی آنے والے
ناز اتنا نہ کریں ہم کو ستانے والے |