پھر اُٹھا سوال

دہلی میں ہونے والے فسادات کے بعد پورے ملک میںنفسی نفسی کاعالم چھایا ہوا ہے۔1984 کے سکھ کش فسادات کے بعد یہ دہلی میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فسادات ہیں۔1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھ کش فسادات ہوئے تھے جس میں سینکڑوں سکھ مارے گئے تھے،انہیں فسادات میں سکھوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا بھی قتل عام ہو اتھا۔اب دہلی میں بی جے پی نے تو حکومت قائم کرنے میں شکست حاصل کی،البتہ دہلی میں فرقہ وارانہ مسلم کش فسادات پیدا کرنے میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔لوگوں کو مارا گیا اورمرنے والوںکی تعدادمیں اضافہ ہوتا ہی گیا۔جہاں کہیں میڈیا والے ان فسادات کی تفصیلات لینے گئے وہاں ایک ہی بات کہی جارہی تھی کہ یہاں ہمارا کوئی پُر سان حال نہیں ہے،میڈیا ہمارے درد کو بیان نہیں کررہی ہے،انتظامیہ ہمارے زخموں پر مرحم نہیں لگا رہا ہے،پولیس ظلم وستم کی تمام حدوں کو پار کررہی ہے اور ہم بے بس ولاچار ہیں،آخر کیونکر ہماری مددکیلئے کوئی مسیحا بن کر نہیں آرہا ہے؟۔اس طرح کے سوالات پہلی دفعہ نہیں پوچھے جارہے ہیںبلکہ ماضی میں جب جب فسادات ہوئے،فرقہ وارانہ کشیدگیاں ہوئی،مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیا،اقلیتوں کے حقوق کوپامال کیا گیا،اُس وقت اس طرح کے سوال دوہرائے گئے،لیکن70 سالوں سے بھی اس طرح کے سوالات دوہرائے جارہے ہیں،لیکن ان سوالات کے جوابات کا حل نکالانہیں گیا۔ہماری رہنماء تنظیمیںجو آزادی کے70 سالوں سے ہماری قائد قرار دی گئی ہیں اور ان میں سے دس پندرہ سالوں سے یہ دعویٰ کررہی ہیںکہ70 سالوں سے جن تنظیموںنے ہماری قیادت کی ہے وہ قائد نہیں بلکہ ہم جس طرح سے کام کررہے ہیںاُس کے مطابق آپ کے قائد ہیں۔بوڑھی تنظیم ہویا جوان تنظیم دونوںکی طرح کی تنظیموں نے مسلمانوں کے وجود سے کھلواڑکیاہے۔سنگھ پریوارنے آذاد ی سے پہلے ہی یہ منصوبہ تیار کرلیا تھا کہ آذادی ملنے کے بعد انہیں ملک میں کس طرح سے اپنی جڑوں کومضبوط کرنا ہے۔انہوںنے ملک کے انتظامیہ امورمیں چپراسی سے لیکر کمشنر تک کے عہدے کو سنگھ پریوار کے ایجنڈے سے ذہن سازی کی،ہر جگہ پر اپنے نمائندوں کو تعینات کیا،پولیس میں بھر تی کیلئے اپنے نوجوانوں کو اکسایایہاں تک کہ عمر کے آخر ی حد تک بھی سنگھ پریوار سے جڑا ہو اشخص،پولیس،فوج اور نیم فوجی دستوںمیں شامل ہونے کیلئے لگا رہتا ہے،اس کیلئے وہ تمام طرح کی قربانیاں دیتا ہے۔عدالتوںمیں سنگھ پریوارکی قیادت ہوسکے اس کیلئے بھی یہ لوگ وکلاء کو تیار کرتے ہیں جو آگے جاکر تحصیل کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک بھی آر ایس ایس کی دفاع میں کام کرسکیں۔یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کی سب سے بڑی عدالتوں میں راتوںرات ججوںکے تبادلے کردئیے جاتے ہیں۔اب سوال اپنے آپ سے پوچھئے کہ ہمارے گھروں سے کتنے بچے سرکاری نوکریوں پر فائز ہوئے ہیں،کتنے بچے پولیس،فوج اور نیم فوجی دستوں میںنوکریاں حاصل کرچکے ہیں۔اس سوال کا جواب ڈھونڈینگے تو آپ کو محض مٹھی بھر لوگ بھی ان زمروں میں کام کرتے پائینگے۔آسان سے مثال یہ ہے کہ آپ اگر اپنے گھر میں نوکر رکھتے ہیں اُس سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ کانوکر آپ کی بات سنیں،آپ کا خیال رکھے اور آپ کی امیدوں پر پورا اترے،نوکر کو آپ اچھی تنخواہ اور سہولیات دیں تو وہ یقیناً ہرحال میں وہ آپ کی بات پر قائم رہے گا۔بالکل اسی طرح سے ہمارے ملک میں عدلیہ،پولیس،انتظامیہ میں جو لوگ ہیں اسی سوچ کے تحت تعینات کئے گئے ہیں۔جب تک ہم اپنی نسلوں کو سرکاری محکموں میں خدمات پر مامور نہیں کرتے اُس وقت تک ہمارا پُرسان حال نہیںہوگا۔قومی سلامتی مشیر(این ایس اے)اجیت ڈول نے جب دہلی میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا تو اُس دوران مسلمانوں کا ایک وفد ان سے ملاقات کیلئے پہنچا ،جب وفد نےانہیں آر ایس ایس کے تعلق سے شکایت کرنے کی کوشش کی تو وہ فوری طور پر وفد کی بات سننےسے انکار کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ظاہرسی بات ہے کہ جس آر ایس ایس نے ڈول جیسے قابل افسر کو مسلسل دو معیادکیلئے حکومت ہند میں قومی سلامتی مشیر کے طور پر تعینات کیا ہو وہ مشیر یعنی اڈوائزر کیونکرہم مسلمانوںکی بات سنیں گے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد اپنی سوچ کو بدلیں،سعودی دبئی کے کفیلوں کی غلامی کرنے سے بہتر یہاں ملک میں حکومت کا حصہ بنیںاور اپنے آنے والی نسلوں کی حفاظت کیلئے اہم کردار ادا کریں،یہ بھی ایک طرح کا جہاد ہی ہوگا۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 175001 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.