معلوم نہیں آپ طالبان اور امریکہ کے مابین دوحہ معاہدہ
امن کو کس حوالے سے دیکھتے ہیں. ممکن ہے آپ بین الاقوامی تعلقات، ڈپلومیسی
اور جنگی فنکاریوں پر گہری نظر رکھتے ہوں اور اسی تناظر میں ہار جیت اور
معاہدہ کا جائزہ لیتے ہوں مگر میرا نکتہ نظر بالکل مختلف ہے. میں تہذیبی
طور پر اس چیز کا مطالعہ کررہا ہوں. یہ ماننے میں حرج نہیں کہ آج کا مغرب
اور اسکا سارا تہذیبی فلسفہ حسی بنیادوں پر قائم ہے یعنی محسوسات پر. غیر
محسوسات پر ایمان لانا اور قابل بھروسہ سمجھنا ان کے لیے مشکل ہے. ان کی
ساری ترقی مادی اور عقلی بنیادوں پر منحصر ہے. دنیا کے ہر معاملہ کو مادہ
اور عقل کی دنیا سے دیکھنے کے قائل ہیں. اپنی مادی تہذیب و ترقی کو عقلی
دلائل فراہم کرتے ہیں اور دنیا ان کے مادہ اور عقل دونوں سے مرعوب ہوتی ہے.
روح اور الہی قوتوں کے وہ کھبی قائل نہیں رہے. اگر اس طرف رخ کیا بھی تو
میسمریزم اور رہبانیت جیسے غیر فطری طریقوں نے ان کی تہذیب کو پنپنے نہیں
دیا. اور وہ ایمان جیسی غیر محسوس چیز کی لذت اور طاقت دونوں سے محروم رہے.
ہر مادی چیز کو حرف آخر سمجھنا اور اس کی عقلی دفاع کرنا قوم عاد و ثمود کا
شیوہ تھا.اس زمانے میں ان سے زیادہ مادی ترقی کون کرسکتا تھا، قرآن کریم نے
بھی قوم عاد و ثمود کی مادی ترقی اور ان کے انجام کا ذکر کیا ہے. (سورہ
شعراء کی آیت نمبر 130 سے 150 تک میں ان کی مادی ترقی و تہذیب کا مفصل ذکر
ملے گا).
اور آج کا مغرب بھی ٹھیک اسی ڈگر پر چل رہا ہے جس نے جلد یا بدیر ختم ہونا
ہے. قوم عاد و ثمود سے زیادہ ماضی میں مادہ کو کوئی قوم استعمال نہیں
کرسکی. مگر ان کا وجود کہیں ہے نہ ہی ان کی تہذیب. اور نہ ان کے بڑے بڑے
قصر و محلات اور پہاڑوں میں تراشی گئی پناہ گاہیں.
اسلام ان عقلی اور مادی فلسفوں سے الگ ایک مکمل فطری نظام ہے. صرف عقل،
مادہ یا ما فوق الفطرت چیزوں پر انحصار نہیں کرتا. اس لیے صدیوں سے چل رہا
ہے.
جس جس نے بھی فطرت اسلام کے آفاقی اصولوں کو مدنظر رکھ کر اپنی بقاء اور
ترقی کی بات کی ہے وہ مادی، حسی اور عقلی طور پر دنیا کے سامنے کمزور ہونے
کے باوجود بھی سرخرو ہوئے ہیں اور جاہلی تہذیب کے مقابلے میں بالآخر فطری
تہذیب کے علمبرداروں کو کامرانی نصیب ہوئی ہے.
ہمارے سامنے افغان معاملہ شروع ہوا تھا. پوری دنیا اور اس کے مادی
اشیاء(ٹیکنالوجی، عالمی برادری کا تعاون اور ہر قسم کا اسلحہ اور لاجسٹک
سپورٹ) امریکہ کے ساتھ تھا. بظاہر عقل اور مادہ دونوں ان کے ساتھ تھے.
امارت اسلامی کے پاس خوفزدہ اپنوں کا اخلاقی تعاون بھی نہیں تھا، بلکہ وہ
سب ان کی ہلاکت کے درپے تھے اور ڈائریکٹ امریکہ کیساتھ تھے. ان بیس سالوں
میں کونسا سپورٹ ہے جو افغان کے خلاف دنیا بھر کے اسلامی ممالک نہیں امریکہ
کا نہیں کیا؟ بین الاقوامی سفارتی اصولوں کو بھی پامال کرتے ہوئے افغان
سفیر ملا ضعیف کو برہنہ کرکے امریکہ کے حوالہ کیا؟ کیا اس سے بھی زیادہ
طاقت سے کوئی مرعوب ہوسکتا ہے؟
مگر انہوں نے مادہ اور عقل کے سامنے جھکنے سے انکار کیا اور دین فطرت کے
اصولوں پر سختی سے کاربند رہے.انیباء کا یہی طریقہ کار رہا ہے کہ انہوں نے
غیرفطری چیزوں اور مادہ کے سامنے جھکنے کی بجائے قربانی دینے کی ریت قائم
کی ہے. نہ اپنوں سے گلہ کیا نہ غیروں کی پروا کی، بلکہ اپنے اصولی مناہج پر
سختی سے کاربند رہے اور فتح ہمیشہ اصولوں کی ہوتی ہے.
انسانی تہذیبوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ غیر فطری تہذیبیں بالآخر فطری اور
الہی تہذیب و تمدن اور اصولوں کے سامنے ڈھیر ہوجاتیں ہیں. اور انسانی
معاشرہ بھی غیرفطری چیزوں کو زیادہ دیر قبول نہیں کرتا بلکہ رد کردیتا ہے.
یاد رہے کہ اسلام نہ مادہ کی نفی کرتا ہے نہ عقل کی، مگر ان دونوں کو زیادہ
سے زیادہ استعمال کرتے ہوئے الہی اصولوں اور انبیائی طریقہ کار کو اپنانے
کی بات کرتا ہے اور مادہ اور انسانی عقل سے زیادہ وحی کو قابل اعتبار
اوراعتماد سمجھتا ہے اور منہ زور طاقت کے سامنے جکھنے سے انکار کرتا .یہی
توحید کا خلاصہ بھی ہے.
طالبان نے بھی جب مادہ، ٹیکنالوجی کی چکاچوند،پوری دنیا کا لاجسٹک سپورٹ
اور مالی معاونت، بےہودہ طرزاستدلال اور عقلی موشگافیوں، غیروں کی ریشہ
دوانیوں اور اپنوں کی بے رعنائیوں کے سامنے جھکنے کی بجائے فطرت الہی کے
سرچشمے پر یقین کیا اور ممکنہ حد تک عقل اور مادہ کا استعمال بھی کیا مگر
مکمل اس پر منحصر نہ رہے، تو الہی نصرت شامل حال رہی.امم سابقہ بھی اس طرح
ہی سرخرو رہی ہیں. امید ہے آگے کے مراحل بھی خدا کے فطری اور آفاقی اصولوں
کے مطابق انجام پائیں گے اور جہاں بھی غیرفطری روایات قائم کی جائیں یا
جاہلی تہذیب کو اسلام کی ملمع سازی کی کوشش کی جائے گی تو پوری عمارت دھڑام
سے گرجائے گی. تو
احباب کیا کہتے ہیں؟
|