امریکہ اور طالبان آخر ایک میز پر بیٹھے اور دونوں کے
مابین امن معاہدہ29 فروری 2020ء کو حتمی طور پر طے پاگیا ۔ فریقین کے
نمائندوں نے پچاس ممالک کے نمائندوں کی موجودگی میں قطر کے دارالحکومت دوحہ
کے مقام پر امن معاہدہ پر دستخط کیے، نائب طالبان امیر ملا عبد الغنی بردر
اور امریکی خصوصی نمائندہ برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے معاہدہ
پر دستخط کیے ۔ جس وقت امن معاہدے پر دستخط ہورہے تھے ہال اللہ اکبر کے
نعروں سے گونج اٹھا ۔ باوجود اس کے کہ ہال میں غیر مسلموں کی تعداد
مسلمانوں سے زیادہ ہی تھی لیکن یہی تو بنیادی فرق ہے مسلمان ہونے میں اور
غیر مسلم ہونے میں ۔ طالبان یا مسلمانوں کے پاس اللہ اکبر کی اتنی بڑی طاقت
ہے کہ جس کے سامنے دنیا کی عظیم اور طاقت ور سلطنت (سپر پاور) نے طالبان جو
نا کسی ملک، شہر یا علاقے کے حاکم ہیں ، نہ ہی وہ جوہری طاقت ہیں ، نہ ہی
ان کے پاس منظم فوج ہے، طیارے ہیں نہ ٹینک ہیں ، توپے ہیں نہ کلاشنکوف،
سمندری جہاز ہیں نہ آبدوزیں ، تعلیم یافتہ لوگ ہیں نہ ہی جامعات سے فارغ
التحصیل ۔ اس کے باوجود طالبان نے19سال دنیا کی سپر پاور کہلانے والی قوت ،
طاقت کا گھمنڈ، تکبر، غرور، نخوت، فخر، طاقت کے نشے میں دھت حکمرانوں کو
گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیا ۔ یہ رسوائی کوئی پہلی رسوائی نہیں ، اس سے پہلے
بھی امریکہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر کئی ممالک کے ساتھ ایسا ہی کرچکا ہے،
جس کا انجام سب نے دیکھا، سوال یہ پیداہوتا ہے کہ19 سال کی جنگ سے امریکہ
کو کیا حاصل ہوا اور طالبان نے کیا حاصل کیا ۔ ان دونوں کے مابین ہونے والی
جنگ سے پاکستان کو کتنا نقصان ہوا، افغانستان کو کس قدر نقصان ہوا ۔ اس
نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ ہر ایک فریق کو نقصان ہی نقصان ہوا، یہاں تک
کہ امریکہ کو بھی بھاری جانی نقصان اور زلت و رسوائی کا نقصا ن اٹھا نا پڑا
ہے ۔ پاکستان سے افغانستان سے پڑوسیوں اور اسلامی ملک ہونے کا قریبی ، پیار
و محبت کا رشتہ قدیمی ہے، لیکن طالبان نے پاکستان میں جو کاروائیاں کی جس
کے نتیجے میں جو قیمتی جانی نقصان ہوا اسے کوئی پورا نہیں کرسکتا، ایسا صرف
اور صرف اس وجہ سے ہوا کہ پاکستان کی حکومتوں نے درست یاغلط امریکہ کی
حمایت کی یا امریکہ نے طاقت کے بل بوتے پر زبردستی حکمرانوں کو مجبور کیا
کہ وہ امریکہ کا ساتھ دیں اور انہوں نے ساتھ بھی دیا ، جس کا نتیجہ یہ ہوا
کہ پاکستان میں بے گناہ شہری اور بہادر فوجی اور پولیس اہل کار شہید ہوئے،
دوسری جانب پاکستان نے بھی طالبان کے خلاف کاروئیاں کیں ، کتنے ہی طالبان
بھی جان کی بازی ہار گئے ۔
حاصل کیا ہوا;238;، امریکہ نے عراق میں شکست کھائی، صدام حسین کو ہلاک
کردیا لیکن امریکہ کو کیا ملا، بن لادن کو ہلاک کردیا ، حاصل کیا ہوا،
افغانستان میں طالبان کے خلاف کاروائی کی ، 19 سال کم نہیں ہوتے، امریکہ نے
جو کچھ طالبان کے خلاف کیا اس کے بجائے وہ غریب ممالک کی مدد کرتا انہیں
اپنے پیروں پر کھڑا کرتا وہ زیادہ بہتر تھا ۔ امریکہ اور امریکی سوچ رکھنے
والے غیر مسلم ممالک میں بسنے والوں کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے ،
دنیا کی تمام غیر مسلم اقوام ایک طرف ہوجائیں وہ پھر بھی مسلمانوں کا کچھ
بگاڑ نہیں سکتے، نہ تو ماضی میں بگاڑا ہے ، نا حال میں کچھ کرسکے ہیں اور
نہ ہی مستقبل میں وہ مسلمانوں کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں ۔ امریکہ بہادر کو سوچ
لینا چاہیے کہ جب طالبان جیسی قوت جس کا اپنے ملک پر مکمل اختیار نہیں ،
امریکہ کو مجبور کرسکتی ہے تو اگرمسلم ممالک سب ایک ہوجائیں تو امریکہ تو
کیا چیز ہے دنیا کے تمام غیر مسلم ممالک ان کے سامنے کیڑے مکوڑے ہوں گے ۔
نریندر مودی جیسے حکمران مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر کتنا ہی ظلم کر لیں
، ایک دن کشمیری مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی، انشاء اللہ ۔
معاہدہ کی جانب آتے ہیں طے پایا ہے کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوج
کا انخلا شروع ہوجائے گا اور135 دن میں 8 ہزار امریکی فوجی رہ جائیں گے جو
آئندہ 9 ماہ میں امریکہ واپس لوٹ جائیں گے ۔ اس کے برعکس طالبان افغان
سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ۔ ،
امیریکہ طالبان پر عائد پابندیاں ختم کر دے گا، 10 مارچ 2020ء تک 5 ہزار
طالبان قیدی اور ایک ہزار افغان اہلکاروں کو رہا کیا جائے گا ، معاہدہ کے
فوراً بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات ہونگے ۔ امن
معاہدہ چار نکات پر مشتمل ہے ۔ بنیادی طور پر اس امن معاہدہ سے طالبان جو
کاروائیاں کر رہے تھے وہ رک جائیں گی، امریکی جو طالبان کے خلاف کاروائی کر
رہے تھے وہ تھم جائے گی، رفتہ رفتہ امریکی افغانستان سے اپنے اپنے ملکوں کی
راہ لیں گے ۔ معاہدہ کو سب ہی نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ قطری وزیر خارجہ
نے کہا ہے کہ 19 سالہ طویل جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار ہوگئی ۔ پینٹا گون کے
چیف کا کہنا ہے کہ طالبان نے وعدہ خلافی کی تو معاہدہ منسوخ کردیں گے،
انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ امریکہ طالبان امن معاہدے پر پاکستان اور دیگر
ممالک کے تعاون کی قدر کرتے ہیں ۔ امریکی وزیر خارجہ ماءک پومپیو کا کہنا
ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ سے افغانستان میں امن قائم
ہوگا،پومپیو کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’تاریخی مذاکرات کی میز پر امیر قطر کے
بے حد شکر گزار ہیں ، افغانستان میں حالات بہتر ہوئے اور آج افغانستان کے
شہری بغیر خوف کے جینے کا حق رکھتے ہیں اور انہوں نے ہی مستقبل کا فیصلہ
کرنا ہے‘‘ ۔ کاش تمہیں پہلے ہوش آجاتا، اور یہ احساس ہوجاتا کہ طالبان سے
جنگ میں امریکہ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ امریکی وزیر خارجہ نے بھی پاکستان
کے کردار کی تعریف کی ۔ ٹرمپ جلد طالبان رہنماؤں سے ملاقات کریں گے ۔ امن
معاہدہ کے وقت دیگر کے علاوہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی
موجود تھے ۔ انہوں نے بتا یا کہ امریکہ سمیت دیگر ملکوں نے پاکستان کے
کردارکو سراہا ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ہمارے بغیر یہ ممکن نہیں تھا‘‘
۔ وزیر خارجہ کی بات میں وزن ہے، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کیوں کہ
یہ سوچ رکھتے تھے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت سے مسئلہ کو حل کیا جائے انہوں
یقینا پسِ پردہ کوششیں کی ہوں گی ۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ’’صرف
افغانستان پر ہی نہیں بلکہ پاکستان پر بھی گہرے مثبت اثرات مرتب ہونگے‘‘ ۔
اس میں کوئی شک نہیں امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدہ سے پاکستان میں
مثبت اثرات رونما ہوں گے ۔
طالبان کے ساتھ طویل مدتی جنگ جس کا دورانیہ 19سالوں پر محیط رہا یقینا اس
صورت حال تک پہنچنا انتہائی مشکل امر تھا لیکن طالبان نے سنجیدگی اور
بردباری کا ثبوت دیا ، امن کو وقت کی ضرورت محسوس کیا تو دوسری جانب ڈونالڈ
ٹرمپ نے بھی جن کے اندر مسلمانوں سے ہمدردی کا زرہ برابر جذبہ نہیں ، انہوں
نے بھی یہی محسوس کیا کہ امن اسی صورت میں آسکتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات
کیے جائیں ۔ انہوں نے طالبان پر ہر طرح ظلم و زیادتی کرکے دیکھ لی وہ اب اس
نتیجے پر پہنچے کہ جنگ مسئلہ کا حل نہیں ۔ طالبان نے بھی یہ محسوس کر لیا
ہوگا کہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، ان کے لیے افغانستان میں ، پاکستان میں
مشکلات ہی مشکلات تھیں ۔ اس امن معاہدہ سے افغانستان میں امن قائم ہوگا،
افغانیوں کو اپنی مرضی کے حکمران منتخب کرنے کا حق حاصل ہوگا، اس کے ساتھ
ہی پاکستان میں بھی خوف و ہراس کی فضاء ختم ہوگی، پاکستان میں بھی امن قائم
ہوسکے گا، حکومت اپنی توجہ بھر پور طریقے سے عوام کی فلاح وبہبود پر مرکوز
کرسکے گی ۔ تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کی جانب سے امن معاہدہ کے بارے
میں مثبت اور منفی خیالات سامنے آرہے ہیں ۔ جیسے کیا امن معاہدہ پر امریکہ
اور طالبان عمل کریں گے;238; کیا معاہدہ پر عمل کرتے ہوئے امریکی فوجیں
افغانستان سے طے شدہ شیڈول کے مطابق افغانستان سے چلی جائیں گی;238;کیا یہ
امن معاہدہ دیر پاثابت ہوگا;238;اس قسم کے معاملات کے حوالے ماضی میں
امریکہ کا کردار کوئی اچھا نہیں رہا، وہ جہاں سے بھی گیا ، اپنے پیچھے
مسائل کی ایک طویل داستان چھوڑگیا ۔ اب افغانستان کی حکومت اور طالبان کو
حکمت عملی سے کام لینا ہوگا، امریکہ کو کوئی ایسا موقع نہ دیں کہ امریکہ اس
امن معاہدہ سے بھاگے اور معاہدہ کی خلاف ورزی کرے ۔ دونوں فریقین کو معاہدہ
کے تمام شقوں پر نیک نیتی سے عمل کرنا چاہیے ۔ امریکہ اور اتحادی فوجوں کو
طے شدہ پروگرام کے مطابق افغانستان سے چلے جانا چاہیے ۔ اب طالبان اپنی
حکوت سے مذاکرات کے ذریعہ ہی معاملات کو جمہوری طرز حکمرانی کی جانب لے
جائیں ۔ ملک میں انتخابات ہوں ، نئی قیادت ملک کے استحکام اور افغانستان کے
عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرے ۔ رہی یہ بات کہ اس طویل جنگ میں کس نے
کیا کھویا اور کیا پایا، تو ہر فریق نے اس میں کھویا ہی کھویا ، پایا کسی
نے بھی کچھ نہیں ۔ (یکم مارچ 2020ء)
|