میرا فیصلہ قرآن کرے گا :قسط :١٤

کاروکاری جیسی بے رحم رسم سے اٹھتی سچی داستان جس کا فیصلہ قراآن نے کیا

میرے قلم میں تمہارا لہو بولے گا

سردار کے ڈیرے پر برگد کے پھیلے ہوے درخت کی چھاؤں ایسی پھیلی ہوئی تھی جس کو نہ چڑھتا سورج اور نہ ہی سوا نیزے کا سورج مات دے سکتا تھا ۔اور اس درخت کی ٹھنڈک نہر کے قریب ہونے کی بنا پر سورج کی تپش کو بھی ٹھنڈا کردیتی تھی ۔درخت کے آس پاس چارپائیاں اس طرح سے بچھی تھیں کے اس پر بیٹھے لوگوں کا رخ سردار کی ٹکریلی سرخ گندی (سندھی بیڈ شیٹ )سے ڈھکی ،رنگین چار پائی کی طرف تھا ۔ گاؤں کے چند بزرگ بھی اس وقت موجود تھے۔ ان بزرگوں میں چند تو روزے کی حالت میں تھے اور باقی حقے کے دھوئیں کو اپنے حلق میں انڈیل رہے تھے ۔ سردار کا رنگین حقہ بھی کاکے نے تیار کرکے اس کے سامنے رکھا ۔ مولوی صاحب سردار کے سامنے والی چارپائی پر بیٹھے تھے ۔سردار اپنی خونخوار نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد سردار نے مولوی صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ٌ ہاں استاد جی! کیا درس دیا ہے لوگوں کو مسجد میں ۔کونسا نیا مزہب پڑھا رہے ہو جس میں کاروکاری ناحق ہے اور گناہ ہے ۔بابا پہلا مولوی دیکھ رہا ہوں جو اس طرح کی خرافات بول رہا ہے ۔ہوش میں ہو مولوی یا بھنگ شنگ پی کے بولا تھا ۔تجھے پتا بھی ہے کہ تونے کیا بولا ہے اگر دوسرے مولویوں کو بتا دیا تو تجھے قتل کرنے کا فتوی وہ حق سمجھ کے دیں گے ۔کیا سمجھے ؟مولوی صاحب نے بہت ہی عاجزی سے کہا ٌ سائیں ! میں نے کچھ غلط نہیں کہا ،نہ ہی میرا مقصد ہے کہ اللہ کے قانون کی خلاف ورزی کروں ۔وہ تو مجھے خواب میں ایسا آ رہا تھا ۔ایک لڑکی چوٹیا منہ میں دباے قرآن سر پر رکھے تھی ،میں نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا کسی کا ناحق قتل ہوا ہے کیونکہ خواب کی تعبیر یہی بتا تی تھی ۔ اور پھر کسی کو شک کی بنیاد پر قتل کرنا اور عینی شاہدوں کے بغیر کسی کو مجرم سمجھ کر قتل کرنا تو اللہ سائیں سے دشمنی کرنا ہے ۔تم اپنے کام سے کام رکھو ۔گناہ کیا کسی کے سامنے کرتی ہے کالی ۔ہمیں نیا اسلام نہ سکھاؤ ۔لوگوں کی غیرت کو کونسا مولوی ہے جو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ کیا تو سراغ لگانے کی کوشش کر رہا ہے کہ لڑکی کے ساتھ کیا ہوا تھا ۔لڑکی ہماری تھی ہم اس کے مالک ہیں ہم غیرتی قوم ہیں ،مسلمان ہیں اور آج تک جو کچھ کر رہے ہیں اس سے سب مولوی خوش ہیں اور ہماری مثال وہ شہر کے بے غیرت لوگوں کو دیتے ہیں ۔ برسوں ہمارے بزرگوں نے غیرت کا خون پلایا ہے ہمیں ۔تم یہ اپنے بے غیرتی کے احساس والے لیکچر اپنے پاس ہی رکھو ۔سردار جانتا تھا کہ گاؤں کے سادہ لوح لوگ اتنے عرصے سے کاروکاری جیسی رسم اللہ کا حکم سمجھ کر نبھا رہے تھے۔ جس پر ہر شخص یہ سوچ کر خاموش ہوجاتا کہ اس رسم کی خلاف ورزی کرنے پر سائیں بھی اسے سزا دے گا اور اللہ بھی لیکن اس مولوی کے لیکچر سے ایسا نہ ہو گاؤں کے لوگ حق اور نا حق قتل میں تمیز کرنے لگ جائیں اور پھر اس کی سرداری تو غیرت کے جھولوں پر کیسے جھولے گی۔چنانچہ اس نے رب نواز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ٌرب نوازے ! پرانا مولوی کہاں مر گیا ہے ۔اسے بلا کر لا اور اسے واپس بھیج دے ورنہ جس طرح سے یہ بول رہا ہے مجھے تو بے دین لگ رہا ہے ایسا نہ ہو یہ اپنے گھر بغیر سانسوں کے پہنچے ۔ہم مولویوں کا بہت احترام کرتے ہیں ۔اس استاد جی کا دماغ تھوڑا ہل گیا ہے بہت عزت کے ساتھ اسے اپنے گھر چھوڑ آ ۔ یہ کہہ کر سردار اٹھ گیا کیونکہ اسے دوسرے گاؤں جرگے کے لئیے جانا تھا ۔سائیں کی لینڈ کروزر تیار کھڑی تھی ۔کچھ ہی دیر میں نہر کے ساتھ بنی کچی سڑک پر سائیں کی گاڑی دھول اڑاتی جا رہی تھی ۔ڈیرے پر بیٹھے تمام لوگ سائیں کو جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔

لوگ کچھ پریشان تھے کیونکہ پینو کے مرنے کے بعد بہت ہی عجیب و غریب سے واقعات ہو رہے تھے اور اب وہ مولوی صاحب کو بھی خواب میں دکھنے لگی تھی۔گاؤں کے لوگ مسجد کے مولوی صاحب کا بہت احترام کرتے تھے ۔مسجد میں ہر سال جو مولوی صاحب بھی آتے تھے وہ ان کی باتیں غور سے سنتے ان میں سے ذیادہ تر عورتوں کو دنیا کی بربادی کہتے ۔اور جنت سے نکالنے والی مجرم کہتے ۔سادہ دیہاتی لوگ یہی سمجھتے کہ ان مولویوں کے پاس اللہ کا علم ہے لہذا ان کے کہے پر آنکھ بند کرکے یقین کرتے ۔جتنے بھی امام صاحب آتے وہ یہی کہتے ٌاللہ نے کہا اگر سجدے کا حکم ہوتا تو بیوی شوہر کو سجدہ کرتی یعنی اتنا بڑا درجہ مرد کا ہےٌ عورت محکوم ہے ۔کھیتی ہے ۔ٹیڑھی پسلی ہے ۔کم عقل ہے ، اسے پردے میں رکھو ،اس پر نظر رکھو ۔مرد گناہ کرے تو اسے قتل کرنے کی بجائے اس کی بیٹی ،بہن یا بھتیجی جرگے کے اصول کے مطابق کالک کے عوض یعنی جس شخص سے گناہ سرزد ہوا اس کی جان بخشی کے بدلے میں دیا جاتا جبکہ عورت پر شک آنے پر بھی سنگسار کا حکم دیا جاتا ۔یہ حقوق گنوائے جاتے اور آدمی چار شادیاں کرے بھلے سے لیکن عورت جس کھونٹی میں بندھ گئی ہے وہاں سے مت ہلے۔یہ باتیں وہ ہمیشہ سنتے لیکن یہ عجیب مولوی تھا جو عورت کو شک کی بنیاد پر قتل کرنا ناحق کہہ رہا تھا چنانچہ سردار کے ڈیرے سے نکلتے ہی چند بزرگ تو اٹھ کر چلے گئے اور چند بیٹھے رہے ، رب نواز مولوی صاحب سے یہ کہہ کر کہ میں ابھی آتاہوں اور آپ کو آپ کے گاؤں چھوڑ کر آتا ہوں کہہ کر نہر میں نہانے چلاگیا تو پینو کے سسر نے ڈرتے ڈرتے ،ادھر ادھر دیکھ کر مولوی صاحب سے پوچھا کہ مولوی صاحب کالی رمضو کے خواب میں بھی آتی ہے اور کہتی ہے میرا فیصلہ قرآن کرے گا ۔اب تو وہ قتل ہوگئی ۔اب کونسا فیصلہ قرآن کرے گا۔مولوی صاحب جو پہلے ہی بہت غمزدہ سے نیچے سر کئیے بیٹھے تھے گویاہوئے ۔ کالی کہنا چاہتی ہے کہ اس کا انصاف قرآن کرے گا ( ٌسرائیکی زبان میں میڈا فیصلہ قرآن کریسےٌ کا مطلب ہے میرا انصاف قرآن کرے گا ) یعنی مرنے کے بعد بھی وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہتی ہے قرآن کی روشنی میں ۔کیونکہ کاروکاری کو اللہ کا حکم اورزنا کرنے والوں کی اسلامی سزا کا درجہ دے کر اور ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے جبکہ قرآن پاک میں عینی شاہدین کی صورت میں سنگسار کرنے کا حکم آیا ہے نہ کہ شک کرنے پر کسی کو قتل کرنے کا حکم ہے ۔یہ تو قرآن کی آیتوں کی خلاف ورزی ہے ۔مولوی صاحب آبدیدہ ہو کر بولے قرآن اللہ سائیں کی وہ کتاب ہے جس میں احکامات بھی ہیں اور تجربات بھی ۔اللہ سائیں ظلم کرنے والوں کو کس طرح عبرت ناک سزا دیتا ہے۔اور ناحق قتل کرنے والوں کو اپنے غذب سے ڈراتا ہے ۔جس طرح عدالت میں جج قانون کی کتاب پڑھ کر فیصلہ سناتا ہے اسی طرح قرآن پاک بھی اللہ کا فیصلہ سناتا ہے ۔ میرے خواب کی تعبیر کے مطابق وہ لڑکی خود پر لگنے والے الزام اور ظلم کا بدلہ اللہ سے مانگ رہی ہے اور ہم سب کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ میرا انصاف اس قرآن کے مطابق میرا اللہ کرے گا ۔اور یقینا آخرت میں تو سزا ہے ہی لیکن یہ اس دنیا میں ملنے والی سزا کا اشارہ ہے ۔جو جو اس ناحق قتل میں ملوث تھا اسے اپنے اللہ سائیں سے معافی مانگنی چاہیے۔یہ کہہ کر مولوی صاحب نے لمبی سانس لی ۔مولوی صاحب اپنی اس کیفیت پر حیران تھے ۔وہ اتنا علم ہونے کے باوجود کبھی اس طرح کھل کر کاروکاری پر بات نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھےکہ سب تو نہیں لیکن بہت سے مولوی حضرات ان کی بات کو بنا سمجھے انہیں لبرل کا لقب دے کر فتوی دے ڈالیں گے۔ پینو کا سسر گہری سوچ میں پڑ گیا ۔اس کے چہرے پر دکھ کے ساتھ تفکرات ،پچھتاوے کا احساس گناہ بن کر چھلکنے لگ گیا ۔اس کی سزا تو شروع ہوگئی تھی اس کا بیٹا بالی اپنی بیوی پینو کے غم میں نیم پاگل ہوگیا تھا ۔اسے نا کھانے کا ہوش تھا اور نہ ہی اوڑھنے کا بس نہر کے کنارے بیٹھا باتیں کرتا رہتا ۔کبھی ہنستا تو کبھی روتا ۔کاش میں اپنے بیٹے اور بہو کے لئیے کچھ کرسکتا یہ کہہ کر پینو کا سسر آنکھیں پونچھتا گھر کی طرف چل پڑا اور مولوی صاحب رب نواز کے ساتھ اپنے گاؤں کی جانب۔

سردار بہت پریشان تھا اس دفعہ کے واقعے نے اسے بھی ہلا کر رکھ دیا تھا ۔رمضا ن کا مہینہ تو جیسے کیسے گزر گیا تھا ۔رمضو عید پر بھی گھر نہیں آیا تھا ۔جانے کہاں دربدر گھوم رہا تھا ، وہ ایک گاؤں سے دوسرے میں جاتا کہ شاید اسے سکون آجائے اور پینو اس کے خواب میں نہ آئے لیکن ایسا نہ ہوسکا تھا ۔سردار نے کئی دفع اپنے بندوں کے زریعے اسے دوسرے گاؤں سے بلوایا اور کئی دفع اس کے اپنے گھر والے اسے لے کر آئے لیکن وہ پھر سے چلا جاتا ۔آج پھر سردار نے کچھ لوگوں کو اسے پکڑ کر لانے کا کہا ۔سردار خود بہت پریشان تھا ۔گاؤں کے لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے اوپر سے جو مولوی آیا تھا اس نے بھی اپنا خواب لوگوں کو بتایا تھا پھر پینو کے قتل والے دن عجیب سی چیخیں بھی لوگ نہیں بھول رہے تھے ۔جب سے پینو کا قتل ہوا تھا اس کے بعد سے شام کے وقت آسمان کا لال سرخ ہونا بھی ناحق قتل کی نشاندہی کر رہا تھا ۔عموما کسی کے ناحق قتل ہونے پر صرف ایک یا دو دن ہی آسمان سرخ ہوتا اور لوگ سمجھ جاتے کہ کسی کا ناحق قتل ہوا ہے لیکن اس دفع تو آسمان پر سرخی جیسے پکی ہوگئی ہو ۔عجیب سی خاموشی تھی فضا میں جسے نا بچوں کا نہر کے پانی میں چھپک چھپک کا شور تاڑ پایا نہ کھیتوں میں ٹریکٹر کی آواز نہ کوئیں سے نکلتے پانی کا شور اور نہ عورتوں کے چکی پیسنے کی آوازیں ۔رمضو کو اس کا بھتیجا ڈھونڈھ کر لے آیا تھا ۔اس کی بری حالت تھی ،پگ تو نہ جانے کہاں تھی ۔کپڑے کئی دن کی میل میں اٹے ہوئے تھے ،نہ جانے کب سے نہایا بھی نہیں تھا ۔آنکھوں کی سرخی بتا رہی تھی عرصے سے سویا بھی نہیں ۔چہرے پر تھکاوٹ بتا رہی تھی کہ سکون سے بیٹھا بھی نہیں ،سر کی نسیں درد سے ابھر رہی تھیں ۔سردار کی پریشانی میں اور اضافہ ہوگیا ۔سردار نے رمضو کی طرف دیکھ کر بہت پیار سے کہا اوئے یار یہ تجھے کیا ہوگیا ہے ۔تو تو میرا دایاں بازو تھا ۔یہ کیا حشر بنا لیا ہے ۔کیا ہو گیا تجھے تونے اتنے قتل کئیے ہیں اس پینو کے قتل پر تیرا یہ حال کیوں؟ رمضو نے روتے ہوئے کہاٌ سردار میں تو اب بھی سو قتل اور کر سکتا ہوں لیکن یہ شور میرے کانوں کو نہیں چھوڑ رہا ۔سو نہیں سکتا ہوں ،سونے کی کوشش کرتا ہوں تو کالی آکر کھڑی ہو جاتی ہے اور کہتی ہے ٌ ماما میرا فیصلہ قرآن کریسے ٌ سکون نہیں لینے دیتی سائیں وہ ، مجھے لگتا ہے جیسے وہ زندہ ہے ،کسی کو نظر نہیں آتی لیکن مجھے نظر آتی ہے ۔میں اس سے ڈرتا نہیں ہوں لیکن وہ بہت شور کرتی ہے ،میرے کانوں کو سکون نہین کرنے دیتی سائیں ۔ایک دفع مجھے نیند آجائے بس دعا کریں ۔سردار نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے کہا تونے دم کروایا کیا ؟ جی سائیں بہت دم کروایا ۔ مزاروں پر بھی گیا ہوں ۔تعویز بھی لئیے لیکن سمجھ مین نہیں آتا ،ڈاکٹر کے پاس بھی گیا ہوں لیکن کوئی فائیدہ نہیں ہوا ۔رمضو چارپائی سے اتر کر زمین پر اکڑوں بیٹھ گیا اورسر کو پکڑ لیا اور کہنے لگا دیکھو سائیں وڈا پھر سے چیخوں کی آوازیں آرہی ہیں اس نے اپنا سر ٹانگوں میں ڈالتے ہوئے خود کو چھپانے کی کوشش کی جیسے آسمان اس کے سر پر گر جائے گا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر سردار کی پریشانی میں اور اضافہ ہوگیا۔

ادھر پینو کی ماں اکثر خالی مسجد کے دروازے پر آکر زور زور سے چیختی اور کہتی اللہ سائیں میری دھی کا فیصلہ کرہ ۔قرآن میری دھی کا فیصلہ کرہ اور پھر وہی پراانے نوحوں میں چند نئے نوحوں کا اضافہ کرتی ۔گاؤں کے لوگ اس کی یہ حالت دیکھ کر آبدیدہ ہوجاتے اور آسمان کی طرف دیکھتے اور گلہ کرتے کہ یا اللہ ہمارا مالک تو ہے تو ہمیں سرداروں کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑا ہوا ہے ۔کچھ عورتیں پینو کی ماں سے کہتیں ٌ ادی تمہاری دھی تو قتل ہو گئی اب تم اس کا فیصلہ کس چیز کا کرو گی ؟ ٌ ۔پینو کی ماں کہتی میری بیٹی کے نام کے ساتھ کالی نہ لگائیں وہ معصوم تھی ۔اس کو ناحق قتل کرنے والوں کو اللہ سائیں جب تک سزا نہیں دے گا میں اسی طرح اس مسجد کے سامنے احتجاج کرتی رہونگی وہ کہتے ہیں قرآن میں لکھا ہے کہ کالی کو سزا دو تو میں کہتی ہوں میری بیٹی کالی نہیں تھی اس کو کالی کرنے والوں کی سزا کا بھی تو لکھا ہوگا نہ ۔ کہتے ہیں قرآن سچا ہے تو میری بیٹی بھی سچی تھی نا تو سچا قرآن میری بیٹی کو سچا دکھائے نا ۔ظالموں نے میری بیٹی کے ٹکڑے کئیے ۔ہائے اللہ سائین ان کے ہاتھوں کے ٹکڑے کرے ، ہائے ان ظالموں کے دل بھی نا کانپے جنہوں نے میری لاڈلی دھی کے ٹکڑے کر کے دل کو اپنے ہاتھوں میں لیا ۔میں انصاف مانگتی ہوں اللہ سائیں سے ۔میرے دل کو سکون تب آے گا جب ان کے دل پھٹیں گے ۔ یوں تو وقت بڑا مرہم ہوتا ہے لیکن پینو کی ماں کا دکھ ،اس کے کلیجے پر لگنے والے دکھ کی شدت کم ہوئی اور نہ صبر آیا ۔

یوں تو گاؤں میں عجیب و غریب واقعات ہو رہے تھے لیکن چند دن سے گاؤں میں ایک عجیب سی بدبو پھیلی ہوئی تھی جو پہلے تو ہلکی ہلکی تھی لیکن اب کافی پھیل گئی تھی ۔عجیب بات تھی کہ بدبو کہاں سے آرہی ہے اس کی نشاندہی نہیں ہورہی تھی ۔بو اس قدر زیادہ تھی کہ لوگوں کو اپنے ناک پر کپڑا باندھنا پڑ رہا تھا ۔گاؤں میں مختلف باتیں ہورہی تھیں ،کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ جس عذاب کے بارے میں مولوی صاحب نے بتایا تھا یہ وہی عذاب ہے شاید ، پینو کے ناحق قتل کا عذاب ۔لیکن گاؤں والوں کا کیا قصور تھا یہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا ۔ بدبو نے گاؤں والوں کو پریشان کر رکھا تھا ،اس بدبو کی شدت میں اضافے نے سب کو ہی تقریبا سر درد میں مبتلا کردیا تھا ۔عجیب سی سڑی ہوئی بدبو تھی ،ایسی گندی بدبو تھی کے ہر بندہ استغفار کر رہا تھا ،کتے اس طرح بھونک رہے تھے جیسے وہ بھی اس بدبو سے تنگ ہوں ۔
(کیا ہوگا فیصلہ قرآن کی روشنی میں ؟ دیکھئیے اگلی قسط میں
 

azra faiz
About the Author: azra faiz Read More Articles by azra faiz: 47 Articles with 86976 views I am fond of writing stories, poetry, reading books.
I love to help and motivate the people who are for some reason helpless. I want to raise the vo
.. View More