ہمارے دادا لوگ پانچ بھائی تھے ۔ دادا اور ان کے ایک
چھوٹے بھائی کی بیویاں آپس میں سگی بہنیں تھیں ۔ چھوٹے دادا کی بیوی کا ایک
بچی کی پیدائش کے بعد انقال ہو گیا تو انہی کی ایک کزن سے چھوٹے دادا کی
دوسری شادی ہو گئی ۔ مگر اتفاق کی بات کہ ان بیوی کا بھی ایک بچے کی پیدائش
کے بعد انتقال ہو گیا اب اسی گھرانے سے انہیں تیسری بیوی تو کیا ملتی
بیچارے چھوٹے دادا سب اپنوں پرایوں میں بدنام ہو گئے کہ یہ لڑکا تو بڑا
منحوس ہے بھئی! بیویاں کھا جاتا ہے اب جسے اپنی بیٹی کو دفنانے کا شوق ہو
وہی اس کے ساتھ بیاہے ۔ پھر کوشش بسیار کے باوجود چھوٹے دادا کا کسی جگہ
رشتہ طے نہ ہو سکا حالانکہ اس وقت ان کی عمر صرف بائیس سال تھی ۔ پھر انہوں
نے اپنی باقی کی زندگی اپنے دونوں بچوں کی پرورش اور ان کے شادی بیاہ میں
بسر کی ۔
پھر ہمارے ابو کی شادی ہوئی تو شادی کے ٹھیک آٹھویں روز ان کی ایک پہلے سے
بیمار بہن کا انتقال ہو گیا ۔ تو سوچنے والی بات ہے کہ جن لوگوں نے ایک
لڑکے تک کو نہیں بخشا تھا اسے منحوس قرار دیا تھا تو وہ ایک پرائی باہر سے
آئی ہوئی لڑکی کو کیسے بخش دیتے؟ امی کو بھی سبز قدم کے خطاب سے نوازا گیا
جو آتے ہی اپنی نند کو کھا گئی ۔ دادی نے امی کو ساری عمر معاف نہیں کیا وہ
سمجھتی تھیں کہ ان کی بیٹی بالآخر صحتیاب ہو جاتی اور لمبی عمر پاتی مگر اس
بہو کی نحوست نے اس کی زندگی چھین لی ۔ اور ان کی اس سوچ کو تقویت پہنچانے
میں خاندان والوں کا بہت بڑا ہاتھ تھا جنہیں دادی کا گھر کی لڑکیاں چھوڑ کر
باہر غیروں میں سے لڑکی بیاہ کر لانا ایک آنکھ نہ بھایا تھا ۔ پھر کچھ
دیندار اور سمجھدار جاننے والوں کے سمجھانے بجھانے سے انہوں نے بار بار
اپنی بات کو دوہرانا تو کم کر دیا چھوڑ دیا مگر ان کے دل میں پڑی ہوئی گرہ
مرتے دم تک نا کھل سکی ۔ حالانکہ دادی ، امی کو بہت چاہت اور دھوم دھام سے
بیاہ کر لائی تھیں دو چار دن تک تو دادا اور دادی دونوں ہی کی خوشی کا کوئی
ٹھکانہ نا تھا ایسی چاند جیسی بہو پا کر ۔ پھر بیمار جوان بیٹی کی طبیعت
زیادہ بگڑ گئی اور چند روز بعد وہ وفات پا گئی تو ماں باپ کے دل پر جو بجلی
گری اس نے امی کی بھی نئی زندگی کی ساری خوشیوں اور خوابوں کو جلا کر راکھ
کر دیا ۔ پھر کیسی چوتھی چالے ، کھیر پکائی کی محفلیں؟ گھر میں قل ،
جمعراتیں اور چہلم کی مجلسیں ہوئیں جن میں ایک نئی نویلی دلہن کسی بیوہ کے
سے حلیے میں مجرموں کی طرح نظریں چُرائے ، تیکھی اور طنزیہ نظروں کا سامنا
کرنے پر مجبور تھی ۔
بہت لمبی سزا کاٹی امی نے اپنے جرم کی پھر ایک روز وہ چپ چاپ زندگی کی قید
سے بھی آزاد ہو گئیں اب تو ابو بھی نہیں رہے ۔ عجیب اتفاق ہے کہ امی کا
انتقال ہماری چھوٹی بہن کی شادی کی تاریخ سے تین ہفتے قبل ہؤا اور ابو کا
سب سے چھوٹے والے بھائی کی شادی کی تاریخ سے ٹھیک دس روز پہلے انتقال ہؤا ۔
اگر خاندانی روایت کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تو جہالت کا تقاضا تو یہی تھا
کہ ماں کی موت کو داماد کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا کہ بارات لانے سے پہلے
ساس کو کھا گیا اور باپ کی موت کا ذمہ بہو کے سر کہ گھر میں قدم رکھنے سے
پہلے سسر کو قبر میں پہنچا دیا ، مگر پھر کیا فرق رہ جاتا تب میں اور اب
میں؟ اپنے ماں باپ کی بہت اچانک اور غیر متوقع موت کو ہم سب بہن بھائیوں نے
مشیت ایزدی سمجھ کر قبول کیا کہ جو اس کے آنے کا وقت تھا وہ تبھی آئی اس
میں کسی کا کیا دخل؟ جب جس کا وقت پورا ہوتا ہے وہ چلا جاتا ہے ہمارے ماں
باپ بھی اپنا وقت پورا ہو جانے پر چلے گئے ۔ دونوں بچوں کی شادیوں کی
تاریخیں تبدیل کر کے آگے بڑھا دی گئی تھیں اور شادیوں میں سادگی کو تو
ملحوظ رکھا مگر بےفضول کا سوگ اور ماتم نہیں ڈالا اور اپنے گھر کے داماد
اور بہو دونوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا تاریخ کو نہیں دوہرایا ۔ (رعنا تبسم
پاشا)
|