وادی کاغان کی شہ رگ"کوپرا ہل"

تحریر : راشد علی راشد اعوان
وادی کاغان کو اﷲ تعالیٰ نے قدرتی حسن،دلکشی سے مالا مال کر رکھا ہے،وادی کاغان کا یوں تو ہر کونہ اور ہر مقام اپنی مثال آپ ہے مگر خالق کائنات نے نظروں سے اوجھل بعض مقامات پر اپنی رحمتوں،رعنائیوں کی برسات کر رکھی ہے،ایسے ہی مقامات میں سے ایک مقام وادی کاغان کے مرکزی سیاحتی دروازے بالاکوٹ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر عین بالاکوٹ سے نکلنے والی ایک گاؤں بھنگیاں کی رابطہ سڑک کے عین اوپر آزاد کشمیر کی سرحد اوروادی کاغان کی حد سے جڑی بلند ترین چوٹی"کوپرا ہل" موجود ہے،کوپرا ہل وادی کاغان کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ایک چوٹی ہے جہاں تک رسائی جیپ کے سفر اور پیدل پگڈنڈیوں سے گزر کر چند گھنٹوں کے بعد ممکن بنائی جا سکتی ہے،بالاکوٹ سے بھنگیاں کی جانب رُخ کرنے والی سڑک سے بذریعہ جیپ بھنگیاں کے آخری مقام تک جانے کے بعد وہاں سے پیدل سفر کا آغاز کیا جاتا ہے،موسم سرما جبکہ وادی کاغان میں اب آخری مراحل میں ہے تاہم اس کے باوجود کوپرا میں تاحال برف کی جمی تہہ سے یہاں کی خوبصورتی مزید نکھر کر سامنے آتی ہے،چونکہ میں ( رقم الحروف) نے اپنے چند دوستوں کے ہمراہ پہلی بار "کوپرا ہل "کا رُخ کیا تھا اس لیے پہلی بار ہمیں بھی سفری مشکلات پیش آئی ہیں ،میری اس تحریر کا مقصد جہاں قدرتی رعنائیوں میں دوبے ان نظاروں کو سب کو دعوت نظارہ دینا ہے تو ہیں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر آپ "کوپرا ہل"کی جانب اپنا رخت سفر باندھیں تو بطور گائیڈ لائن کے ضروری اشیاء کو ہمراہ رکھیں،کوپرا ہل سطح سمندر سے تقریباً نو ہزار(9000) فٹ کی بلندی پر واقع وہ پہاڑی ہے جہاں اس کی میدان نما چوٹی پر پہنچ کر بیک وقت تین شہروں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے جن میں سرفہرست بالاکوٹ شہر،حد نگاہ سے مانسہرہ اور تاحد نگاہ سے ایبٹ آباد میں چیونٹیوں کی مانند چہل پہل دکھائی دیتی ہے،اسی طرح جانب مشرق ایک پہاڑی آزاد کشمیر کی سرحد ہونے کا پتہ دیتی ہے تو جانب مغرب کی دھند میں لپٹی پہاڑیاں وادی سوات کی خبر دیتی ہیں،شمال کی جانب رُخ کیا جائے تو ایک ابھرتی ہوئی برف سے ڈھکی چوٹی باالکل واضح دکھائی دیتی ہے جو کہ پاکستان کی بلند ترین چوٹی جی ہاں آپ"کوپراہل"سے کے ٹو کی چوٹی کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں،کے ٹو کی چوٹی کو اپنے سامنے دیکھنے کیلئے آپ کو رہنما کے طور پر دو ربین کی ضرورت محسوس ہو گی جو کہ آپ کے پاس ہونا ضروری ہے،بیرونی کوہ پیماؤں کی کشش کا باعث بننے والی دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان میں موجود ہیجو کہ سطح سمندر سے8 ہزار 611 میٹر کی بلندی رکھنے والی اس چوٹی کو سر کرنے کے لیے ہر سال بے شمار ملکی و غیر ملکی کوہ پیما رخت سفر باندھتے ہیں لیکن کامیاب کم ہی ہو پاتے ہیں،اگر آپ"کوپرا ہل" کی جانب کیلئے ایک دن کے سفر کیلئے نکلیں تو کوشش کریں کے آپ کے پاس دن بھر کیلئے کھانے پینے کی اشیاء ضرور ہونی چاہیے،سفر کا آغاز بالاکوٹ سے علی الصبح کیا جانا چاہیے اگر آپ اسپیشل بھنگیاں تک جانا چاہیں تو آپ بالاکوٹ سے کرایہ پر جیپ حاصل کر سکتے ہیں جو آپ سے انتہائی مناسب آنے اور جانے کا کرایہ وصول کرے گی اگر آپ مسافر گاڑی پر جانا چاہیں تو پھر آپ کو اپنے ہمراہ مقامی دیگر مسافروں کا انتظار کرنا پڑے گا،دونوں صورتوں میں آپ ایک حد تک یعنی ہاڑی بھنگیاں تک باآسانی پہنچ جائیں گے،وہاں سے آگے پیدل سفر کیلئے آپ کے پاس پہلے ایسے جوتے ہونے چاہیے جو کہ آپ واکنگ ٹریک کیلئے استعمال کر سکتے ہو،ایک عدد چھڑی آپ کے بہترین معاون و مددگار ہونگے جوآپ کے پیدل سفر میں آپ کو سہارا دینگے،اشیائے ضرورت میں کھانے کی اشیاء بشمول فروٹ اور بسکٹ وغیرہ جبکہ چائے کیلئے دودھ،چینی،چائے کی پتی،دیگچی اور ایک پانی کی بوتل ہمراہ رکھنی ہوگی چونکہـ"بلند کوپرا ہل"ابھی تک نظروں سے اوجھل مقام ہے اس لیے فی الوقت یہاں پر نہ تو کوئی ہوٹل ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا ذریعہ ہے،میرے ہمراہ رخت سفر رکھنے والے شوکت علی خان یہاں کے لینڈ لارڈ شمار ہوتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بھی شوقین"کوپرا ہل"کی جانب جانے کا شوق رکھتا ہو تو وہ ان سے ان کے نمبر0314-9355203پر یا راقم الحروف کے موبائل و واٹس ایپ نمبر0333-3355506پر رابطہ کر کے مزید معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں،شوکت علی خان کا دعویٰ ہے کہ وہ موسم گرما یا ماہ رمضان گزارنے یا کسی بھی موقع پر"کوپرا ہل"کی جانب جانے والوں کو بنیادی تمام سہولیات اور رہائش بھی فراہم کر سکتے ہیں،یوں تو اﷲ تعالیٰ نے حسن قدرت کی عطائیگی میں وادی کاغان پر اپنی خاص نوازشات کر رکھی ہیں مگر"کوپرا ہل" جیسے مقام حکومت وقت کی توجہ کے مستحق ہیں کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جو ممالک سیاحت کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں اورسیاحت کو فروغ دینے کی جانب اپنی توجہ مبذول رکھتے ہیں وہ بے شمار فوائد سے بہرہ مند ہوتے ہیں، جن ممالک میں سیاحوں کی آمد بہت زیادہ ہوتی ہے، وہ عالمی تنہائی کا شکار نہیں ہوتے، مالی دشواریوں سے دوچار نہیں ہوتے، ان ممالک میں تجارت وصنعت اپنے عروج پر ہوتی ہے، عوام کے ذہنوں میں وسعت پیدا ہوتی ہے، مختلف ممالک کی عوام کو آپس میں گھلنے مِلنے اور ایک دوسرے کے کلچر کو سمجھنے میں مدد مِلتی ہے ،تعلیمی ترقی ہوتی ہے، اقوام عالم میں اہم مقام حاصل ہوتا ہے، لوگوں میں ترقی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے،بلاشبہ وطن عزیز پاکستان ملکی اور غیر ملکی افراد دونوں کیلئے دنیا کا سب سے سستا سیاحتی ملک ہے، صرف چند سو ڈالروں یا روپوں میں پورے ملک کی سیاحت خاص کر وادی کاغان کا سکون بشمول قیام و طعام حاصل کیا جا سکتا ہے۔
 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525377 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.