رکھوالے ہی ڈاکو
میرے ” لہور لہور اے بھئی“ کہنے پر ان لوگوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے جو
تعداد میں چار تھے ، ان میں سے ایک دُبلا پتلا سا ن نوجوان میرے پاس آیا
اور میرا ہاتھ پکڑ کر ہنستے ہنستے اپنی ٹیبل پر لے گیا جہاں اس کے ساتھی
بڑی خوشد لی سے ہاتھ بڑھا کر اپنا اپنا تعارف کرانے لگے ، ریاض احمد،عزیز
احمد چوہدری، ایم اے خان اور جو صاحب مجھے کھینچ کر لائے تھے اُن کا نام
ذوالفقار علی عرف ’زلفی‘بہت ہی جولی قسم کے حاضر جوا ب نوجوان جو لاہور میں
”بھاٹی دروازہ“ کے رہنے والے تھے ، ہم سب نے مل کر ناشتہ کیا اور باتوں
باتوں میں پتہ چلا کہ وہ یہاں ٹیلی فون کے محکمے میں ڈیوتی کرنے تین ماہ کے
لیے آئے ہیں ،میرے پوچھنے پر زلفی صاحب نے بتایا کہ ہمیں یہاں اتنی دور اس
لیے آنا پڑا کہ ا ٓدھا لوکل اسٹاف سول نافرمانی کی وجہ سے کام پر نہیں آرہا
لہٰذا مجبوراً ہمیں مغربی پاکستان سے بلایا گیا ہے، اور پھر آپ پر زور دیتے
ہوئے معنی خیز لہجے میں کہا۔ اب آپ اپنے بارے میں بتائیں کہ آپ کس محکمے سے
تعلق رکھتے ہیں ؟ ظاہر ہے وہ لوگ مجھے بھی اپنی طرح کا سرکاری ملازم سمجھ
رہے تھے،۔
میں نے ذرا ٹھہرے ہوئے لہجے میں دونوں ہاتھ اپنے سامنے ٹیبل پر جماتے ہوئے
کہا !! نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں نہ میں کوئی خفیہ محکمے سے ہوں اور
نہ ہی سرکاری ملازم ہوں میں تو ایک کاروباری آدمی ہوں اور اسی سلسلے میں
یہاں آیا ہوں،یہ سن کر سب لوگ حیران سے ہو گئے کہ ان حالات میں یہ صاحب
کاروبار کے لیے آئے ہیں جبکہ لوگ اپنا اپنا کاروبار سمیٹ کر یہاں سے بھاگ
رہے ہیں، او ر یہ تھی بھی حقیقت کہ اردو یا پنجابی بولنے والے کاروباری لوگ
جو کچھ بھی ساتھ لے جا سکتے تھے لے کر نکلتے جا رہے تھے مکان دوکان یا
فیکٹری بیچنے کی اجازت نہیں تھی ۔ آخر ایم اے خان جن کی مونچھیں ماشااللہ
تنی سی تھیں انہوں حیرت بھرے لہجے میں کہا، ارے بھئی ان حالات میں آپ یہاں
کیا کاروبار کریں گے جبکہ لوگ کاروبار چھوڑ چھوڑ کر مغربی پاکستان کا رخ کر
رہے ہیں۔ تو میں نے انہیں بتایا کہ میں بھی یہاں رہنے نہیں آیا کچھ مال
خرید کر جلد سے جلد یہاں سے چلا جاﺅں گا۔یہ سن کر انہیں تسلی سی ہو گئی،
اور زلفی صاحب نے خوش ہوتے ہوئے کہا، تب تو ایک ساتھ ہی واپس چلیں گے!!
ریاض احمد صاحب جو ابھی تک ہماری باتیں خاموشی سے سن رہے تھے بڑے طنزیہ
انداز میں زلفی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے، ابھی صرف آٹھ دن ہوئے ہیں آئے
ہوئے اور ابھی سے یہ جانے کی باتیں کر رہے ہیں، پگلے تین مہینے کا ایگریمنٹ
کر کے آئے ہیں جس میں ابھی پونے تین مہینے باقی ہیں !!
ا ن کی نوک جھونک سے پتہ چلا کہ وہ لوگ بھی یہاں آ کر خوش نہیں ہیں، ظاہر
ہے ان حالات میں کوئی کیسے خوش رہ سکتا ہے کہ جہاں جونیئر اسٹاف کا کام بھی
سینئر کو خود کرنا پڑے۔چائے ختم ہو چکی تھی میں نے جلدی سے کاﺅنٹر پر جا کر
بل ادا کرنا چاہا تو زلفی صاحب نے مجھے پیچھے دھکیل کر بل خود ادا کردیا جس
پر میں نے اعتراض کیا تو انہوں نے کہا کوئی بات نہیں آپ سے کبھی کھانا کھا
لیں گے۔ میں نے بھی موقع غنیمت جانتے ہوئے ان کو گرینڈ ہوٹل آنے کی دعوت دے
ڈالی،’ بھئی آپ کو گرم گرم تکے کباب اور ٹھنڈی ٹھنڈی لسی کی میری طرف سے
دعوت ہے ، کب تشریف لا رہے ہیں ؟ زلفی صاحب ہی ان میں حاضر جواب تھے فوراً
بولے بھائی جی ہم لوگ ٹوٹل آٹھ آدمی ہیں چار ابھی ڈیوٹی پر ہیں۔۔۔
میں نے بھی اسی انداز میں کہا ، آپ لوگ دس بھی ہوں تو پرواہ نہیں آج رات کا
کھانا آپ لوگ میرے ساتھ کھائیں۔ انہوں نے میری دعوت قبول کرتے ہوئے رات کو
آنے کا وعدہ کرتے ہوئے خدا حافظ کہا اور ہنستے مسکراتے ٹیلگراف آفس کی طرف
چل پڑے ، میں بھی کچھ دیر انہیں جاتے ہوئے دیکھتا رہا پھر اپنے ہوٹل کی طرف
روانہ ہوا۔
ہوٹل پہنچ کر میں نے سب سے پہلے وہاں کے باورچی کو اپنے کمرے میں بلایا جو
اردو اسپیکنگ تھا اُسے تاکید کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور کے کچھ مہمان رات کو
کھانے پر آ رہے ہیں یاد رہے کہ وہ لوگ کھانے کے بڑے شوقین ہیں تکے اور کباب
ایسے ہوں کہ وہ لاہور کو بھول جائیں۔باورچی نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا،
صاب آپ فکر نہ کریں مصالحہ ایسا بناﺅں گا کہ وہ دوبارہ بھی کھانے کی خواہش
کریں گے۔ اس کے جانے کے بعد میں جماعت آفس میں مولانا شمس الدین صاحب کے
پاس جا نے کا سوچ کر چل پڑا کہ ان کی باتوں سے مجھے بڑا حوصلہ ملتا تھا،میں
جب وہاں پہنچا تو دیکھا ان کے پاس ایک بوڑھا آدمی( سفید لمبی داڑھی سر پر
پگڑی جیسے عام طور پر مولوی صاحبان باندھتے ہیں) بیٹھا اُن سے باتیں کر رہا
تھا میں بھی دعا سلام کے بعد ان کے پاس ہی ایک کرسی پر بیٹھ گیا ،زبان سے
ناواقفیت کی وجہ سے ان باتیں بڑے دکھ بھرے انداز میں ہو رہی تھیں جو میں
سمجھ نہیں پا رہا تھا مگر دل ہی دل میں سوچ رہا تھا ضرور کوئی ا فسوسناک
بات ہے ۔ باتیں کرتے کرتے وہ صاحب رو نے لگے تو میں نے دیکھا مولانا صاحب
کی آنکھیں بھی بھیگ رہی تھیں ، یہ منظر دیکھ کر میں بے چین سا ہو گیا مگر
ان کی گفتگو میں دخل دینا مناسب نہ سمجھتے ہوئے خاموشی سے ایک طرف بیٹھا
رہا ، کچھ دیر بعد جب وہ بوڑھا آدمی رخصت ہوا تو میں نے آہستہ سے مولانا
صاحب کو مخاطب کیا جو ابھی تک اسی غمزدہ کیفیت میں تھے، مولانا صاحب کیا
کوئی افسوسناک خبر ہے جسے سن کر آپ اتنے پریشان اور غمزدہ ہو رہے ہیں ؟؟
مولانا صاحب نے ایک لمبی سرد آہ بھر ی اور بڑی غمناک آنکھوں سے میری طرف
یکھتے ہوئے آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا ،جسے سن کر ہر درد مند دل رکھنے والے
انسان کے آنسو خود بخود چھلک پڑتے ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ یہ جو مولوی صاحب
میرے پاس بیٹھے تھے یہ ایک گاﺅں جو یہاں سے تقریباً چالیس میل دور ہے وہاں
یہ مسجد میں امام ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی کر کے بچوں کا پیٹ
پالتے ہیں ، ان کو میں اچھی طرح سے ذاتی طور پر جانتا ہوں ، ان کا مکتی
باہنی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ،کچھ دنوں سے ان کا جوان بیٹا لاپتہ ہے لوگوں
کا کہنا ہے کہ وہ مکتی باہنی میں شامل ہو گیا ہے ، کسی کی مخبری پر فوجی ان
کے گھر پر گئے اور ان سے ان کے بیٹے کے متعلق پوچھا انہوں نے جب لاعلمی کا
اظہار کیا تو فوجیوں نے ان کو مارا پیٹا اور ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا
پھر ان کے اہل خانہ کے ساتھ بدتمیزی کی ان کی جوا ن بیٹی کو ان کے سامنے بے
عزت کیا ، یہ بار بار مجھ سے رو رو کر یہی کہہ رہا تھا کہ میرا کیا گناہ
تھا جو مجھے اتنا ذلیل کیا گیا کہ اب مجھے مرنے کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں
آتا ۔ اس کا بیٹا واقعی مکتی باہنی میں شامل ہوا ہے یا کسی مصیبت میں ہے اس
کا ابھی کوئی پتہ نہیں چل سکا، اب آپ ہی بتائیں لطیف بھائی جب رکھوالے ہی
ڈاکو بن جائیں تو خلق خدا کس کے آگے فریاد لے کر جائے ، بس اللہ سے دعا
کریں !! ویسے یہاں کے آثار کچھ اچھے دکھائی نہیں دے رہے۔میں نے بھی سن کر
افسوس کا اظہار کرنے کی کوشش کی مگر مجھے کوئی مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے
بس اتنا کہہ پایا اللہ پاک ہم کو ہدایت کی راہ دکھائے ۔ اور دل میں یہ سوچ
رہا تھا کہ دونوں طرف سے بے قاعدگیاں ہو رہی ہیں جن سے ملک بدنام بھی ہورہا
تھا اور دن بدن تباہی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ایک طرف عورتیں فوجی مرد وں کو
ورغلا کر لے جاتیں اور اپنے ساتھیوں سے مل کر ختم کر دیتیں اور دوسری طرف
ایسے واقعات بھی سننے کو ملتے جنہیں سن کر سر شرم سے جھُک جاتا۔ میرے غمزدہ
دل میں اور ان کے پاس بیٹھنے کا حوصلہ نہیں تھا، دکھی دل سے اجازت لے کر
ہوٹل کے کمرے میں آکر لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ ہم یہاں کیسے ٹک پائیں گے
جبکہ یہ حصہ ہم سے اتنا دور ہے کہ ایک دوسرے کے حالات کی کوئی خبر نہیں ا
ور بیچ میں ہندوستان ہے جس کا پروپیگنڈا دونوں طرف کامیاب ہے یہاں کے لوگوں
کے دلوں میں مغربی پاکستان کے لیے اتنی نفرت بھر دی ہے جو ہم لاکھ کوشش
کرنے پر بھی دور نہیں کر سکتے اس پر ایسے نادان لوگوں کی حرکتیں زخموں پر
نمک کا کام کر رہی ہیں ، کرتا ایک ہے بدنام پوری فوج ہوتی ہے۔(یہاں پر میں
قارئین کو یہ بھی آگاہی دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ بنگلہ دیش بننے کے بعد جن
اعداد و شمار کا اعلان کیا گیا اُس میں دو لاکھ خواتین جن کی آبرو برباد کی
گئی اور تیس لاکھ لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، یہ سب کچھ نو ماہ کے
عرصے میں ہوا جو سرا سر جھوٹ کا پلندا اور پاکستان کو مزید بدنام کرنے کی
بھارتی شازش تھی۔جو نوے ہزار فوج کی ہتھیار ڈالنے کی بات تھی تو اس میں بھی
مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا کیونکہ وہاں پر تقریباً پینتالیس ہزار باقاعدہ
فوج تھی جو مجھے ایک فوجی آفیسر سے معلوم ہوا باقی لوگ پولیس ، ایس۔ایف اور
سولین تھے۔)
شام سات بجے کے قریب مہمان جو تعداد میں آٹھ تھے تشریف لائے ، باقی لوگوں
سے بھی تعارف ہوا زلفی صاحب نے اپنی خوش مزاجی سے میرے دل میں جو افسردگی
تھی اُسے بہت حد تک کم کر دیا، کھانے کی سب نے تعریف کی تو میں نے دوسرے دن
پھر آنے کو کہا جس پر ایک زوردار قہقہہ لگا اُن میں ایک محمود صاحب بھی تھے
جن سے صبح ناشتے پر ملاقات نہیں ہوئی تھی ان کا تعلق بھی لاہور ہی سے تھے
انہوں نے ایک ایسی بات کہی جس کی تائید میں سبھی کا اصرار بڑھ گیا ، کہ
ہمیں جو آپ ہوٹل بلا رہے ہیں جبکہ ہم تو آپ کو اپنے ساتھ رہنے کا مشورہ دیں
گے کہ ایسے خطرناک حالات میں آپ کا ہوٹل میں رہنا ٹھیک نہیں آپ ہمارے ساتھ
چل کر رہیں ،مریں گے تو اکٹھے بچیں گے تو ایک ساتھ واپس جا ئیں گے۔ اس بات
کو لے کر زلفی صاحب تو قابو سے باہر ہو گئے ، اسی وقت ساتھ جانے کی ضد کرنے
لگے، میرے یہ کہنے پر کہ آج نہیں کل تک کی مہلت دے دو ، تو انہوں نے میرا
اٹیچی کیس اٹھایا اور یہ کہتے ہوئے کہ میں سامان لے جا رہا ہوں آپ کل آ
جانا اور تیز تیز قدموں سے یہ جا ،وہ جا۔ جبکہ باقی ساتھیوں نے بھی ان کی
تقلید کی اور یہ کہہ کر رخصت چاہی کہ اب تو آپ کو آنا ہی پڑے گا۔رات کو
سوتے وقت میں سوچ رہا تھا کہ اللہ پاک کی کیسی رحمت ہے کہ ایک رائے صاحب کے
جانے سے جو خلاء سا پیدا ہو گیا تھا اِن لوگوں کے ملنے سے سب اُداسی دور ہو
گئی ، اور یہ سب میری ماں کی دعاﺅں کا پھل تھا جو اُس وقت حیات تھیں اور
مصلے پر بیٹھی ربِ کریم سے میرے خیریت سے واپس آنے کی دعائیں مانگتی رہتی
تھیں۔(قارئین سے التماس ہے کہ جن کے والدین دنیا میں نہیں رہے، ہو سکے تو
اُن کی مغفرت کے لیے دعا کریں اور جن خوش نصیبوں کے والدین حیات ہے اُن کی
خدمت کر کے اپنی مغفرت کا سامان کر لیں) ۔ آمین۔
دوسرے دن صبح صبح زلفی صاحب نے آکر جگایا تو مجھے ایسے لگا جیسے اس دیس میں
میری فکر کرنے والا بھی کوئی ہے، باقی کا سامان سمیٹا اور کاﺅنٹر پر جا کر
حساب کر کے بل چکایا تو منیجر صاحب نے اپنے بہاری لہجے میں پوچھا ،واپس
جارہے ہیں کا۔۔، تو زلفی نے اپنے بھی انہیں کے انداز میں جواب دیا، لاہور
جا رہے ہیں بھائی ۔ اور ہم لو گ ہنستے مسکراتے ٹیلگراف آفس کے گیٹ پر پہنچ
گئے جو زیادہ دور نہیں تھا۔ سیکور ٹی گا رڈ نے سلوٹ کے انداز میں سلام کیا
اور سامان زلفی کے ہاتھوں سے لینا چاہا جو انہوں نے منع کر دیا کہ ہم لوگ
اوپر جا رہے ہیں گیٹ کے اندر داخل ہوئے تو بائیں ہاتھ پر ایک پہاڑی جس کے
اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زلفی نے
بتایا کہ یہ ایک سو ایک سیڑھی جو ہمیں روزانہ پانچ چھ دفعہ چڑھنا پڑتی ہے ،
آپ کو بھی کچھ دن تو پریشان کر یں گی پھر آپ بھی ہماری طرح اس کے عادی ہو
جائیں گے،واقعی سیڑھیاں بڑی بڑی اور عام سیڑھیوں سے اونچی تھیں اوپر جاتے
جاتے میری سانس پھول گئی تو زلفی نے جو میرے آگے آگے اچھل اچھل کر چڑھ رہا
تھا ہنس کر پنجابی میں مذاقاً کہا۔”ساڈے نال رہووگے تے انج ای عیش کرو
گے“(ہمارے ساتھ رہو گے تو ایسے ہی عیش کرو گے) میں نے بھی ہانپتے ہوئے جواب
پنجابی میں ہی دیا۔” سولی ہس ہس کے چڑھ جائیے جے سجناں دا ساتھ ملے“(مطلب
ہنس کے سولی پر بھی چڑھ جائیں اگر پیارے ساتھ ہوں) جس پر زلفی صاحب نے ایک
قہقہہ لگاتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کر اوپر اُٹھانا چاہا مگر میں منع کر دیا
کہ مجھے خود ہی اُٹھنے دو تاکہ پریکٹس آج ہی سے شروع ہو جائے۔
باقی سب دوستوں نے بھی میرا خوشی خوشی استقبال کیا اور روٹین کے مطابق کر
تیار ہو کر ناشتہ کیا ، تھوڑی دیر بعد جو چار ساتھی نائٹ ڈیوٹی پر تھے وہ
آگئے اور اُن کی جگہ دوسرے چار ساتھی دن کی ڈیوٹی کرنے چلے گئے، سب نے مل
کر ایک سسٹم بنا رکھا تھا جس کے مطابق باری باری سب لوگ سالن پکاتے نان
روٹیاں نیچے رائل ہوٹل سے آ جاتیں ناشتہ کبھی ہوٹل اور کبھی وہیں ہو جاتا
ہر ہفتے فنڈ اکٹھا کیا جاتا ، میں نے جب فنڈ میں حصہ ڈالنا چاہا تو مجھے یہ
کہہ کر منع کر دیا گیا کہ آپ تو مہمان ہیں۔
(جاری ہے) |