عطا‘ سہ ماہی۔ ڈیرہ اسماعیل خان، سالنامہ
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
عطا‘ سہ ماہی۔ ڈیرہ اسماعیل خان، سالنامہ ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی علمی و ادبی جریدہ جاری کرنا مشکل اس لیے ہے کہ یہ ایک مسلسل عمل ہوتا ہے، خواہ سہ ماہی ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن جس نے ارادہ کر لیا وہ اپنے ارادے کو ہر صورت میں پورا کرتا ہے۔ پاکستان میں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ ادبی جریدہ شائع ہوا اور جاری کرنے والے نے اپنی پوری زندگی اس میں لگادی، مرتے دم تک جریدے کی آبیاری کرتا رہا۔میں نے صہبا لکھنؤی کو ’افکار‘ کی اشاعت میں فنا فل دیکھا، ان میں سے ایک عنایت اللہ خان گنڈہ پور بھی تھے جنہوں نے سہ ماہی ادبی جریدہ ”عطا“ جاری کیا۔ یہ جریدہ ڈیرہ اسماعیل خان کے قبیلہ گنڈہ پور سے تعلق رکھنے والے شاعر وا دیب جناب عطا ء اللہ خان عطاؔ کے نام سے انہیں خراج عقیدت ہے۔ مارچ 2018ء میں عنایت اللہ خان گنڈہ پور نے اس جہان فانی کو الوداع کہا۔ عنایت اللہ خان گنڈہ پور کے بعد انجنیئر ڈاکٹرذکا ء اللہ خان نے ”سہ ماہی عطا“ کی اشاعت اپنے کاندھوں پر لی اور 2018میں اس کا سالنامہ شائع کیا۔ مجھے یہ شمارہ بذریعہ ڈاک اکتوبر 2019ء میں ملا تھا، فیس بک پر اس کا مختصر تعارف اور شکریہ کے ساتھ اس کا ٹائیٹل شائع کردیا تھا، وقت گزرتا رہا اور میں اس پر نہ لکھ سکا۔ اس وقت یہ شمارہ میرے پیش نظر ہے۔ یہ جریدہ بیاد جناب عطاء اللہ خان عطا ء صاحب اور اب یہ عنایت اللہ خان گنڈہ پور کی بیاد بھی ہوگیا۔ اداریہ میں مدیر نے لکھا ”اداریہ لکھنے بیٹھا ہوں تو آنکھوں میں نمی سی ہے کہ یہ فرض سہ اہی عطا کے مدیر عنایت اللہ خان گنڈہ پور ہی نبھاتے رہے مگر، مارچ 2018ء کی آخری رات وہ خامشی اور صبر و شکر کے ساتھ اس جہان فانی سے رخصت ہوئے“۔ جریدہ کیونکہ سالنامہ ہے اس لیے اس کی ضخامت 240صفحات پر مشتمل ہے اس میں ادبی کی تمام ہی اصناف کا احاطہ کیا گیا ہے۔ حمد، نعت و سلام کے بعد گوشہ عطا ہے جس میں پرتو روہیلہ نے“کلام عطا کا مختصر جائزہ“ پیش کیا ہے۔ پرتو روہیلہ کے مطابق ”عطا صاحب کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کے قبیلہ گنڈہ پور سے اور آپ پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے۔ آپ نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور وہ بھی اس خلوص و دل سے کہ حق ادا کردیا۔ چنانچہ آپ کے ضخیم دیوان میں حمد و مناجات، نعت، منقبت، قصیدہ و مرثیہ شامل ہے۔ صنفِ شاعری کو اس خلوص سے برتا ہے کہ فارسی شاعری کی کلاسیکی اقدار دوبارہ زندہ ہوگئی ہیں بلکہ بعض اصنافِ سخن مثلاً مثنوی مین پرانی روایات کو نئے امکانات سے روشناس کیا ہے“۔ مصنف نے عطا صاحب کی اپنی قوم سے مایوسی ور بددلی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”یہ آپ کی بہت سے تخلیقات کا موضوع ہی نہیں بلکہ اکثر تخلیقات کی وجہ تخلیق بھی ہوا ہے۔ وہ اپنی قدر نا شناسی کو دیکھ کر جگہ جگہ اپنے اشعار میں اس کا اظہار بھی کیا کرتے۔ دیکھئے یہ اشعار۔ زود بیتی سوئے شیرازم در وطن شہرت مقدر عیستم از قدر ناشناسی اہل وطن برور بینی کہ رخت خویش بہ کابل کشیدہ ام عطا ء صاحب فارسی کے مستند شاعر تھے۔ پرتو روہیلہ نے لکھا ہے کہ عطا صاحب کی شاعری کی پزیرائی ایسے ملک ہی میں ہوسکتی ہے جہاں اکثر و بیشتر اس کو سمجھیں لہٰذ ا تہران کے علمی مجلے ’وحید‘ نے اپنے شمارہ رمضان 1386 میں جب ان کے بارے میں ’فارسی گویانِ ِپاکستان‘ کے عنوان کے تحت لکھا اینک شاعرِ بزرگ و برجستہ و جامع معاصر عطاء اللہ خان عطاؔ بہ دوستدارانِ فارسی معرفی گردو“۔ عطاء کا فارسی شعر صاحب دیوان شدم لیکن عطاؔ ہمسر دانا ئے خاور نیستم لافِ یگانگی زد مے لیک اے عطاؔ از ہول اہل جٖل نفس در کشیدہ اَم در پسِ اقبال نگہ فت اے عطا ؔ کس چو من در دست قرطاس و قلم مضامین کے تحت تین مضامین ہیں جن میں اسلامی ریاست میں سزاکے نفاذ کا جائزہ، اردو تحقیق کا بیانیہ اور عصری معنویت، علمی ادبی سرقہ اور معیار تعلیم کا فقدان۔ ڈاکٹر غلام قاسم مجاہد بلوچ کا یہ مضمون عہد حاضر کے اعتبار سے اور تحقیق و ادب میں سرقہ کی لعنت کی کھلم کھلا وضاحت کرتا ہے۔ مصنف نے اس میں ایچ ای سی کے حوالے سے سرقہ کرنے والوں کی تخلیقات اور ان کے نام بھی فراہم کردئے ہیں۔ سرقہ یعنی ادبی چوری کرنے واے لکھاری ہی ہوتے ہیں، ان کی گرفت عام گھروں میں چوری کرنے والوں سے بھی زیادہ ہونی چاہیے اس لیے کہ وہ ایم فل یا پی ایچ ڈی کی اعلیٰ تعلیم کے ذیور سے آراستہ ہونے جارہے ہوتے ہیں، انہیں سرقہ کرنے کی کڑی سزا ملنی چاہیے اور ملی بھی ہیں۔ فی زمانہ سرقہ کی گرفت انٹر نیٹ سافٹ ویئر Plagiarism Checkerکے توسط سے آسانی سے ہو جاتی ہے۔لکھنے والوں کو خاص طور پر محققین کو اس پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ شائع شدہ تحریر کو اپنی تحریر میں ضرور شامل کریں لیکن اس کا حوالہ ضرور دیں۔ حوالہ دینے سے آپ سرقہ سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ اس موضوع پر تفصیل جاننے کے لیے مجاہد بلوچ صاحب کا مضمون وسیع معلومات فراہم کرتا ہے۔ کتابیات و شخصیات کے تحت جو مضامین ہیں ان میں فسانہ آزاد کی ادب اہمیت،خواجہ فرید کی شاعری میں وحدت الوجودی، نظریات کا تجزیاتی مطالعہ، نائلہ بنت الفرافصہ، ابنِ عربی کے دو نایاب رسائل کا انگریزی ترجمہ، جانے والوں کی یاد آتی ہے، تھل کلچر کا نمائندہ شاعر محمد فیروز شاہ، اردو کا ایک فراموش کردہ طنز نگار مسٹر دہلوی شامل ہے۔ مسٹر دہلوی کا نام مشتاق احمد چاندنا تھا تخلص مسٹر کیا کرتے تھے۔ دیکھئے عریانی و فحاشی پر مسٹر دہلوی کا طنز ۔ چمٹی ہوئی ہے جسم سے صرف اس لیے قمیص نظریں ہوں کل خطوط و مثلت سے بہرہ ور وہ ادھ کھلے فراک میں سینے کا زیر وبم ہے خرمن قرار کے حق میں بس اک شرر ٍ افسانوی ادب کے عنوان سے سات افسانے ہیں جن میں جال، کسک، نوحہ گر، ساٹھ روپے، اُتر جاؤ، ٹکٹ چیکر اور روشنی۔ انجنیئر ڈاکٹر ذکا ء اللہ خان کی یادداشتیں، خود نوشت کے عنوان سے ہے۔ تحریر سے پتا چلا کہ ڈاکٹر ذکا ء اللہ خان سول انجیئر ہیں۔ وہ دسمبر 1988میں میانوالی میں کنسٹرکشن سب ڈویژن میں سب ڈویژنل آفیسر کا عہدہ سنبھالتے ہیں۔ خان صاحب کی تحریر سے میانوالی شہر کے بارے میں بھی آگہی ہوئی، اب یہ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کا شہر ہے۔ سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد تاریخی شہر میانوالی ایک بزرگ ہستی ”میاں علی“ کے نام سے منسوب ہے، جن کا مزار ونڈھی گھنڈوالی میں ہے۔ جہاں مقامی لوگ بڑے احترام و عقیدت سے حاضر ہوتے ہیں۔ تاریخ میں اس کے اور نام بھی ملتے ہیں جیسے دھنورام، ستنام اوعر رام نگر وغیرہ۔ میانوالی کو سال 1901ء میں ضلع کی حدود کا درجہ دیا گیا۔ خصوصی شمارہ سید انور مقصود زاہدی صاحب کا ہے جس میں ان کی سوانحی معلومات، تعارف اور انٹر ویو بھی شامل ہے۔ شاعری کے حصے میں بے شمار شعراء کا کلام ہے جیسے مرتضیٰ برلاس، آ صف ثاقب، کرامت بخاری، عزیز اعجاز، شاہین عباس، نوید سادق، طارق ہاشمی، احمدحسین مجاہد، شیخ اقبال، اکرم کنجاہی، ناصر رضوی، نشاط سرحدی، شہاب صفدر، طاہر شیرزی، خورشید ربانی شاہین زیدی، نیلم احمد بشیر، نجمہ شاہین کھوسہ، اشرف کمال، جماد حسین، رومانہ رومی، خالدہ انور، شبیر نازش، لبنیٰ صفدر، گل زیب عباسی، مشبر حسین سید، عارف بخاری زبیدہ ذوالفقار، سعد یہ بشیر، آسناتھ کنول، قندیل جعفری، ذیشان جامی، عبادت حسین، قیس رضا قاسم جلال، فرزند علی شوق، عطا ء الرحمٰن قاضی، فرخ یار، امان اللہ امان اور عارف فرہادشامل ہیں۔چند شعراء کی کے کلام سے ایک ایک شعر ۔ مرتضیٰ برلاس مزاج اُس نے جو پوچھا، جواب بن نہ پڑا نہ کام آئیں مرے نکتہ دانیاں اپنی کرامت بخاری زخم کھا کر جو دُعا کرتے تھے ایسے بھی لوگ ہوا کرتے تھے عزیز اعجاز اس کا اعجاز ؔ طنزیہ جملہ تیرے اخلاس کے جواب میں ہے شاہین عباس کیا شے تھی وہ ہر جگہ ہماری آنکھیں ہوں ملاحظہ ہماری اکرم کُجاہی زخم گہرے ہیں یہ سارے رگِ جاں تک میرے زندگی نوچے گی پر اور کہاں تک میرے شاہین زیدی آنکھوں میں سب عذاب اترتے چلے گئے جتنے تھے خواب سارے بکھرتے چلے گئے نجمہ شاہین کھوسہ جب وفاؤں کا دیا جل کر دھواں ہوجائے گا اپنا ہر نام و نشاں پھر بے نشاں ہوجائے گا رومانہ رومی خزاں نے ستایا نہ خاروں نے لوٹا گُلوں نے دیئے دکھ بہاروں نے لوٹا شبیر نازش ہوا تھا جو بھی بھول جا، جو ہوسکے تو لوٹ آ ترے بغیر جانیا! یہ دل بہل نہیں رہا قندیل جعفری میں قندیل اکثر سوچتی ہوں نہ خود کو یوں نانا چاہیے تھا سید قاسم جلالی اور بھی حالات ہوں جس سے خراب کام ایسا کوئی تخریبی نہ ہو آج ہر لب پر ہے، ذکرا انگلاب آئے تبدیلی، مگر منفی نہ ہو انور زاہدی ساز دل ہی ہم ساز سناتا بھولے کیا ہوئی نطرِ کرم آنکھ ہٹانا بھولے نقد و تبصرہ کے تحت تبصرے ہیں ان میں سید زبیر شاہ کے افسانے، احمد مشتقق کی غزل۔ اوراقِ خزانی تک، عروض اور تقطیع ایک مطالعہ، ڈاکٹر اعجاز حسن خان کی نعتیہ شاعری، اشولال کی شاعری کی تہذیبی بنیادیں، نعیم بیگ۔ فکشن میں امید کا استعارہ، شہزاد نیئر کے مجموعہ غزل پر ایک نظر، تحریر میں کیا رکھا ہے سیدمعراج جامی، دوسرا مصرع۔امین اللہ خان گنڈہ پور کے علاوہ آخر میں مکتوبات بھی شمارہ کا حصہ ہیں۔ مجموعی طور پر سہ ماہی ’عطا‘ کا یہ سالنامہ ترتیب و تنظیم اور معیاری مواد کے اعتبار سے پڑھنے والوں کے لیے دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ (7مارچ2020ء) |