سیر المصنّفین: ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ اور پروفیسر معین الدین عقیل


سیر المصنّفین: ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ اور پروفیسر معین الدین عقیل

(جلد اوّل، جلد دوم طبع اول1924ء طبع دوم1948ء، جدید ایڈیشن 2025: مرتبہ: پروفیسر ڈاکٹرمعین الدین عقیل)
تحریر: ڈاکٹر افضل رضوی: آسٹریلیا
سیر المصنّفین اردو ادب کی سوانحی روایت میں بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ دو جلدوں پر مشتمل ایک ایسی منفرد تالیف ہے جس میں برصغیر کے ادبا، علما، مصنفین اور محققین کی خدمات کو نہایت منظم ترتیب اور تحقیقی اسلوب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ دو جلدوں پر مشتمل ہے جسے21 ستمبر 1924ء کو پہلی بار شائع کیا گیا—یعنی قیامِ پاکستان سے تئیس سال قبل، جبکہ دوسری بار 19 ستمبر 1948ء کو—پاکستان بننے کے صرف ایک سال بعد—طبع ہوئی۔ دونوں جلدوں کے دیباچے معروف ادیب مولوی محمد یحیٰ تنہا نے تحریر کیے، جبکہ جدید حواشی، تصحیح، اور نظرِ ثانی پروفیسرڈاکٹر معین الدین عقیل نے کی، جنہوں نے اس علمی ذخیرے کو معاصر تحقیق کے تقاضوں کے مطابق مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب مجلسِ ترقیِ اردو لاہور سے 1925ء میں شائع ہوئی ہیاور اردو علمی روایت کا ایک مستند حوالہ بن گئی ہے۔
اردو تحقیق و تذکرہ نگاری کی تاریخ میں سیرہ المصنّفین کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ کتاب نہ صرف اپنے عہد کی علمی فضا کی نمائندہ ہے بلکہ اردو زبان میں علمی دستاویز بندی (Documentation) کی ابتدائی اور مضبوط کوششوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس تالیف کی اہمیت کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ یہ ایسے دور میں مرتب ہوئی جب اردو زبان اپنی تاریخی، تہذیبی اور فکری تعمیر میں ایک اہم مرحلے سے گزر رہی تھی۔اس کتاب کی دو جلدیں — قیام پاکستان سے تقریباً دو دہائیاں قبل اور دوسری بار پاکستان کے ابتدائی سال میں —چھپ کر سامنے آئی، جو اس کے تاریخی اور تہذیبی پس منظر کو مزید معنی خیز بناتی ہے۔
مصنّف و مرتبین کا علمی تعارف
محمد یحیٰ تنہا (1882–1952):محمد یحیٰ تنہا اردو زبان و ادب کے ممتاز محقق، نثر نگار اور ادبی مبصر تھے۔ انہوں نے اردو کے علمی و ادبی ذخیرے کی حفاظت اور فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔انہیں سوانح نگاری میں مہارت حاصل تھی انہوں نے متعدد ادبی اور علمی سوانح لکھیں اور ادبی شخصیات کی خدمات کو مستند انداز میں محفوظ کیا۔جہاں تک تحقیقی اصولوں کی پاسداری کا تعلق ہے تو مصنف نے دونوں دیباچوں میں واضح اصول و معیار کے ساتھ مصنّفین کے انتخاب کی بنیاد رکھی۔یہ تالیف نہ صرف تحقیقی اصولوں پر ترتیب دی گئی بلکہ اس میں مولف کی ادبی بصیرت بھی واضح نظر آتی ہے انہوں نے اردو علمی روایت کے ارتقاء اور فکری رجحانات پر گہری نظر رکھی اور انہوں نے بنیادوں اصولوں سے انحراف نہیں کیا۔ان کی یہ کاوش یقیناً برصغیر کے ادبی و علمی ماحول کا مستند ریکارڈ ہی نہیں بلکہ اسلوب کے حوالے سے اس بات کا اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ سوانحی ادب میں شفاف اسلوب کا پرتو ہے اور ان کا اسلوب آسان، واضح اور تحقیقی معیار کے مطابق تھا۔مولوی محمد یحیٰ تنہا کی یہ خصوصیات سیر المصنّفین کی دیباچوں اور بنیادی ساخت میں نمایاں ہیں، جو کتاب کی علمی حیثیت کو مستحکم کرتی ہیں۔

پروفیسر معین الدین عقیل — ایک علمی و تحقیقی شخصیت
پروفیسر معین الدین عقیل (پیدائش 25جون 1946) اردو تحقیق، تنقید اور سوانح نگاری کے صفِ اوّل کے سکالرز میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے 1969 میں ایم اے اردو، 1975 میں پی ایچ ڈی اور بعد میں D.Litt ڈگری حاصل کی۔ ان کا تحقیقی مزاج ابتدا ہی سے تنقیدی شعور، تاریخی آگاہی اور ثقافتی فہم سے مزین رہا ہے۔انہوں نے طویل عرصہ جامعہ کراچی میں اردو کے استاد اور شعبہ کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے بین الاقوامی اداروں میں بھی اردو اور مسلم تہذیب کی تعلیم دی:
Tokyo University of Foreign Studies (جاپان)
Daito Bunka University (Saitama)
University of Naples (اٹلی)
International Islamic University (اسلام آباد) اس طرح وہ اردو زبان کے بین الاقوامی سفیر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ پروفیسر معین الدین عقیل اردو تحقیق، تنقید اور سوانح نگاری میں ایک مکمل دبستان کی حیثیت رکھتے ہیں:تقریباً 100 کتب، 600 سے زائد تحقیقی و تنقیدی مقالات، تراجم، تدوین، تاریخی مطالعے، اور ثقافتی تجزیات شامل ہیں۔ان کا موضوعی دائرہ اردو ادبیات سے لے کر برصغیر کی مسلم تاریخ، تہذیب، اور فکری روایت تک پھیلا ہوا ہے۔2013 میں انہیں جاپان کے شہنشاہ نے Order of the Rising Sun کا اعلیٰ سول اعزاز عطا کیا، جو اردو زبان و ثقافت کی عالمی سطح پر نمایاں خدمات کا اعتراف ہے۔سیرالمصنّفین اپنی نوعیت اور وسعت کے اعتبار سے ایسے مرتب کی متقاضی تھی جس میں:تحقیقی مہارت، ادبی شعور، تاریخی بصیرت، اور سوانحی روایت سے گہری وابستگی ایک ساتھ موجود ہوں۔
معین الدین عقیل کایہی وسیع علمی پس منظر سیرالمصنّفین کو ایک ایسی فکری بلندی عطا کی ہے جس سے یہ کتاب محض تذکروں سے آگے بڑھ کر ایک تحقیقی مرجع بن گئی ہے۔ان کی منظم تحقیق، مستند حوالہ نگاری، اور شخصیات کے مطالعے کا ہمہ گیر انداز اس کتاب کی داخلی قوت کو دوچند کر دیاہے۔ یوں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ معین الدین عقیل نے سوانحِ مصنّفین کو صرف مرتب نہیں کیا، بلکہ انہیں ادبی تاریخ کا حصہ بنا دیا ہے۔ 21 ستمبر 1924ء میں دونوں جلدوں کی اشاعت عالمی سطح پر سیاسی و تہذیبی تغیرات کے عین وسط میں ہوئی۔ اس زمانے میں اردو زبان علمی و تعلیمی میدان میں مضبوط ہو رہی تھی، سوانح و تذکرہ نگاری کے رجحان نے نئی سمت اختیار کی، علمی ورثے کی حفاظت ایک سنجیدہ ضرورت بنتی جا رہی تھی۔
طباعت ِ اول میں دونوں جلدوں میں شامل سوانحی خاکے تحقیقی اسناد کے ساتھ ترتیب دیے گئے، اور مصنفین کی علمی کاوشوں کو تاریخی پس منظر کے ساتھ پیش کیا گیا، جب کہ باردوم(19 ستمبر 1948ء)قیامِ پاکستان کے صرف ایک سال بعد زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئیں، جب نئی ریاست میں؛ علمی اداروں کی تشکیل، زبان و شناخت کے مباحث، اردو کو قومی زبان کے طور پر مستحکم کرنے کا عمل جاری تھا _ افسوس کے اس پر آج تک عمل نہیں ہو سکا۔ یاد رکھیں وہ قومیں ترقی نہیں کر سکتی جو اپنی قومی زبان پر تفاخر نہیں کرتیں۔ میں یہاں بیان کرتا چلوں کہ آسٹریلیا میں زبان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آسٹریلوی حکومت مہاجرین کی زبانوں اور ان کے وراثتی کلچر کو زندہ رکھنے کے لیے اپنے قومی بجٹ میں ایک کثیر رقم مختص کرتی ہے جو ان اداروں کو مہیا کی جاتی ہے جو زبان وثقافت کی ترویج واشاعت کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ہماری اپنی قومی زبان اردو کی ہے جو یہاں مروج ہے اور پاکستان۔آسٹریلیا لٹریری فورم (پالف) کے زیر انتظام چلنے والیپالف آسٹریلیا اردو اسکول میں جماعت اول سے بارہویں جماعت تک کے طلبہ کو bilingualطریق پر پڑھائی اور سکھائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ریاستی سطح پر جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں چار مختلف اسکولوں میں اردو بولنے والے طلبہ کے لیے دستیاب ہے _طباعت دوم اس نئے عہد کی فکری ضرورتوں کا بھی جواب تھی، کیونکہ اس میں ان مصنّفین اور ادبا کے کارناموں کا سراغ دیا گیا جنہوں نے برصغیر کی علمی دنیا میں قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔دونوں جلدوں کے دیباچیمولوی محمد یحیٰ تنہا نے تحریر کیے، جو اپنے عہد کے معروف ادیب، محقق اور نثر نگار تھے۔ ان کے دیباچے:اس کتاب کی فکری بنیاد، مصنفین کے انتخاب کے معیار، سوانح نگاری کے تحقیقی اصول، اور اردو کے علمی رجحانات کو واضح کرتے ہیں۔
دیباچوں میں موجود اسلوب نہایت رواں، سنجیدہ اور تاریخی بصیرت سے آراستہ ہے۔ یحیٰ تنہا نے مصنّفین کی علمی خدمات کے ساتھ ساتھ اردو تہذیبی ورثے کی اہمیت کو بھی اُجاگر کیا۔لیکن یہ بات نہایت افسوس ناک تھی کہ اتنی اعلیٰ پائے کی حوالہ جاتی تصنیف پردہ ئ سکرین سے غائب رہی۔سیر المصنّفین کی جدید ترتیب، نظرِ ثانی، اور حواشی پروفیسر معین الدین عقیل نے انجام دیے ہیں۔ ان کی علمی و تحقیقی مہارت نے اس پرانی اور قیمتی تالیف میں نئی جان ڈال دی۔ معین الدین عقیل کے کام کی خصوصیات میں حواشی و تعلیقات کا اضافہ سر فہرست ہے۔انہوں نے قدیم بیانات کی تصحیح کی، ماخذات کی نشان دہی کی، اور جہاں ضروری تھا وہاں تحقیقی حوالہ جات فراہم کیے ہیں۔نیز پرانی اشاعتوں میں موجود اغلاط، تاریخی ابہامات اور نامکمل حوالوں کی اصلاح کی گئی ہے۔مزید یہ کہ انہوں نے اس کتاب کو جدید تحقیق کے تقاضوں کے مطابق مرتب کیا ہے، جس سے یہ تالیف اوربھی معتبر ہو گئی ہے۔یہی نہیں اس سوانحی ورثے کو نئی نسل تک منتقل کرنے اور اسے معاصر علمی فہم سے جوڑنے کا فریضہ بھی انہوں نے بخوبی ادا کیا ہے۔
سیر المصنّفین کی اہمیت درج ذیل حوالوں سے مسلم ہے:اولاًیہ اردو سوانح نگاری کا بنیادی ماخذ ہے اورثانیاًدو ادوار (قبلِ پاکستان 1924 — بعدِ پاکستان 1948) کی علمی فضا اس کتاب میں محفوظ ہے۔ثالثاً، شخصیات کا تحقیقی و تاریخی ریکارڈ ہے جسے مستند انداز میں پیش کیا گیا ہے۔رابعاًًاردو علمی تاریخ کی تشکیل میں کلیدی کردارکی حامل ہے کیونکہ اس کتاب میں اردو کے علمی ورثے کی دستاویز بندی کی ابتدائی ترین اور قابلِ اعتماد کوشش ہے۔خامساً معین الدین عقیل کی تحقیق سے افزودگی نے اسے صرف تاریخی تالیف نہیں بلکہ ایک زندہ تحقیقی دستاویز بنا دیا ہے۔
سیر المصنّفین نہ صرف اردو ادب اور تحقیق کی تاریخ میں ایک سنگِ میل ہے، بلکہ یہ برصغیر کی فکری تاریخ کا بھی معتبر حوالہ ہے۔اس کی دو جلدوں کی اشاعت دو مختلف مگر اہم تہذیبی و سیاسی ادوار کی نمائندگی کرتی ہیں۔مولوی محمد یحیٰ تنہا کے دیباچے اور معین الدین عقیل کی جدید ترتیب نے اسے ایک ایسی کتاب بنا دیا ہے جو:محققین، اساتذہ، تاریخِ ادب کے طلبہ، اور علمی اداروں سب کے لیے بنیادی ماخذ کی حیثیت
رکھتی ہے۔یہ کتاب اردو تحقیق کی بنیادوں میں ایک مضبوط ستون کی طرح قائم رہے گی۔اس اعلیٰ پائے کے کام پر پروفیسر معین الدین عقیل صد بار مبارک باد کے مستحق ہیں۔دعا ہے ان کا قلم تیشہئ فرہاد بن کر یونہی جوئے شیر نکالتا رہے جس سے عاشقانِ علم و ادب سیراب ہوتے رہیں۔
Dr Afzal Razvi
About the Author: Dr Afzal Razvi Read More Articles by Dr Afzal Razvi: 138 Articles with 231328 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allamah
.. View More