دو دہائیوں بعد افغانستان میں ’’ افغان باقی کہسار باقی
الحکم اﷲ الملک اﷲ‘‘ کی فتح ثابت ہوئی اور جس نے امریکہ کو دم دبا کر
بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ یہ وہی طالبان ہیں جن کو امریکہ بہادر دہشت گرد
کہتا نہیں تھکتا تھا اور انہی کو سبق سکھانے کے لئے نام نہاد دہشت گردی کے
خاتمے کی جنگ چھیڑ تے ہوئے افغان سر زمین کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی
کسر نہیں چھوڑی گئی ۔ جدید ٹیکنا لوجی سے دور ان ملا ؤں کے آگے سپر پاور نے
گھٹنے ٹیک دئیے جس کی عسکری و فوجی قوت کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا ہے اور
جس نے اپنے طاقت کے گھمنڈ کے نشے اور غرور میں مسلمانوں کو مسلنے اور کچلنے
کے لئے تمام تر توانائیاں صرف کردی ۔ قطر کے دارلحکومت دو حہ میں افغان
طالبان اور امریکہ کے مابین چار صفحات پر مشتمل امن معاہدہ دراصل اسلام کی
فتح ہے جس نے روس کے بعد امریکہ جیسی سپر پاور کا تکبر بھی خاک میں ملا دیا
ہے ۔کاش ہم امریکہ کی غلامی میں طالبان کو اپنے سے دور نہ کرتے تو آج یہ
معاہدہ قطر کے بجائے پاکستان میں طے پاتا اور اس تاریخ ساز کامیابی کا ہم
بھی حصہ بنتے ۔ طالبان کی اس کامیابی کا سارا کریڈٹ جنرل حمید گل ؒکو جاتا
ہے جنہوں نے اس وقت کی بڑی قوت سوویت یونین کو ناکوں چنے چبوا دئیے تھے اور
انہوں نے فرمایا تھا کہ افغان جہاد کے ذریعے روس کو تباہ کیا گیا اور یہ
بھی پیش گوئی کی تھی کہ امریکہ خود امریکہ کے ذریعے توڑ دیا جائے گا آج
حالات نے ثابت کر دیا اور دنیا نے جذ بہ ء جہاد سے لبریز ان افغانیوں کی
جیت اور شکست خوردہ امریکہ کا حال بھی دیکھ لیا ۔ جن کے پاس لڑنے کو ہتھیار
نہیں تھے انہوں نے کس طرح عالمی طاقت کو اپنے سامنے سر نگوں کر دیا۔جنرل
حمید گلؒ فرمایاکرتے تھے کہ بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ امریکی فوجوں کو
افغانی سر زمین سے انخلاہو اور اس کے لیے وہ ہر جائز و ناجائزہتھگنڈے
استعمال کرے گا امریکہ کو روکنے کیلئے ۔کیونکہ اس کو یہ خوف لاحق ہے کہ
امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد اس جہاد کا رخ مقبوضہ کشمیر کی جانب
موڑ دیا جائے گا ۔اور پھر کشمیر کو آزاد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ جنرل
صاحب کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی ۔ آج بھارت میں کشمیر سمیت دہلی اور دیگر
علاقوں میں مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے یہ وہی ڈر اور خدشات ہیں جو
بھارت پر سوار ہیں اور افغان امن معاہدے کے طے پانے سے بو کھلا کر مودی
سرکار نے دہلی کے مسلمانوں کو خون میں نہلا دیا ، کشمیر میں بھی فوجی
محاصرے کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ کی
مسلمان آبادی کو قید کر رکھا ہے ان کے شہری ، سماجی ، سیاسی اور مذہبی حقوق
سلب کر رکھے ہیں ۔ کشمیر کی تمام مسجدوں کی تالہ بندی کر دی گئی ہے ، مسلسل
کئی جمعے گزر گئے ہیں اور کشمیری جمعے کی نماز کی ادائیگی سے محروم ہیں۔
دہلی میں ملاحظہ کیجیئے کس طرح مسجدوں کی بے حرمتی کی گئی ، ہندو شر پسندوں
نے مسجدوں کے میناروں پر چڑھ کر ہنومان کے جھنڈے لگائے ۔ مودی کی انتہا
پسند حکومت نے بھارتی سیکولر ازم کے تابوت میں آخر ی کہی ٹھونک دی ہے اور
اب کشمیر کی طرح پورے بھارت کو مسلمانوں کے لئے ایک عقوبت خانے میں تبدیل
کر دیا گیا ہے ۔امن معاہدے میں یہ شق بھی شامل ہے کہ طالبان مستقبل میں
افغانستان کو القاعدہ اور اس جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کی آماجگاہ نہیں
بننے دیں گے۔ڈیل کے مطابق افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی شروع ہو جائے
گی، جو طالبان کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ یہ واپسی چودہ ماہ میں مکمل ہو گی۔
امریکا افغانستان میں تعینات اپنے بارہ ہزار فوجیوں میں سے آٹھ ہزار چھ سو
فوجی واپس بلائے گا۔امریکا اور طالبان دونوں ہی نے اس معاہدے کو سنگ میل
قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنگ زدہ ملک میں قیام امن کی جانب ایک اہم قدم
ہے۔امن معاہدے کے لیے مذاکرات شروع کرتے وقت امریکا نے افغانستان میں مکمل
سیز فائر کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم مریکا طالبان سے افغانستان میں تشدد کے
مستقل خاتمے کی یقین دہانی حاصل نہیں کر پایا تھا۔صدر ٹرمپ نے اپنے بیان
میں کہا تھا کہ اگر طالبان اور افغان حکومت اپنے وعدوں پر قائم رہے تو
افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امریکی فوجوں کی واپسی کی راہ ہموار ہو
جائے گی کیونکہ مذکورہ امن معاہدے سے صدر ٹرمپ کو دوسری مدت کے لیے صدارتی
انتخابات جیتنے میں مدد ملے گی۔واضح رہے کہ انیس سال کی خونریزی، تباہی،
ہزاروں افغانوں کی قربانی، لاکھوں کے دربدر ہونے، ارب ہا ڈالروں کے خرچے،
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے لاکھوں بموں کے استعمال کے بعد اس ڈیل
سے بخوبی دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں بری طرح شکست ہوئی اور
اب وہ اس ملک سے بھاگنے کی کوشش کررہا ہے اور اس کے پاس اس کے علاوہ اور
کوئی راستہ بھی نہیں بچاہے۔امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کا برملا شکریہ
ادا کیا کہ اس نے طالبان کو معاہدے پر رضامند کرنے میں کلیدی کردار ادا
کیا۔پاکستان مگر اب بھی FATFکی گرے لسٹ میں موجود ہے۔اس تنظیم نے ہمیں اس
لسٹ سے نکالنے کے لئے مزید چار ماہ کی مہلت دے رکھی ہے۔ کیا اب جون 2020ء
میں ہمیں گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا۔طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی
کوشش کرتے ہوئے ہمارے سفارت کاروں کو کم از کم امریکہ سے اتنا فائدہ توحاصل
کر لینا چاپہیے تھا۔ ہماری حکومت اس کامیابی پر پھولے نہیں سما رہی ۔
حالانکہ وزیر اعظم ، وزیر خارجہ اور ہمارے سفارت کاروں اور حکومتی جینئس
ٹیم کو اس پر امریکہ سے بات کرنا چاہیئے تھی ۔ گرے لسٹ کے ساتھ ساتھ اس
امریکی جنگ میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا ہرجانہ ہی وصول کر لیا جاتا
۔ جبکہ دوسری جانب حسب معمول وزیر اعظم کا بیان ٹوئیٹر سے ہی آگے نہ بڑھ
سکا ۔
|