مودی کی انتہا۔۔کیا جناح اب بھی جیت رہا ہے؟

ھمارے کئی بین الاقوامی ادارے آنکھوں میں دھول جھونکنے،یا سادگی و پرکاری کے اتنے ماہر ہیں کہ یہ نہیں پتہ لگتا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں ھمارے ہاں تو شاید سخت لوگ اس کو منافقت کہتے ہیں لیکن اس میں پہلے حق اور باطل کا فرق واضح ھونا ضروری ھے۔مغربی ممالک نے اس رویے کو ڈپلومیسی کا نام دے دیا ھے اور جس طرح معیشت کی کہانی کاغذ کے ٹکڑے ڈالر کی غلام ھے اسی طرح اس پرکاری،خوش آمد،دکھلاوے کو ڈپلومیسی کا نام دیا گیا ہے۔یہ بات مجھے اس وقت اس لئے یاد آئی کہ خبر ھے کہ اقوام متحدہ نے بھارتی متنازعہ شہریت بل کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔اقوام متحدہ کا وجود محکوم اور مظلوم انسانوں کو حقوق دینے کے لیے عمل میں آیا تھا۔لیکن آج یہ ادارہ خود کاروائی کرنے کے لیے اسی عطار کے لونڈے کے پاس پہنچ گیا جس کی وجہ سے یہ بیماری لگی ہوئی ہے۔سپریم کورٹ وہ بھی بھارت کی ،کیا جواب دے سکتی ھے,,؟ اس کے لیے عالمی عدالت انصاف کیوں نہیں؟ بھارت میں فاشسٹ حکمران مودی نے ماضی اور حال دونوں میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔یہی وہی مودی ھے جس پر پابندی تھی کہ وہ امریکہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔اب دونوں جھپا گیر ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ دنیا انسانی حقوق کی تعریف میں مسلمانوں کو انسان نہیں سمجھتی اور مسلمان کفار کو انسانی دائرہ کار میں گھس پیٹھے سمجھتے ہیں۔اقوام متحدہ عملاً اپنی طاقت کھو چکی ہے اور کوئی بھی مودی جو اس زمانے کا شداد ھے کو روک نہیں سکتا۔گجرات کی وزارت اعلیٰ کے دوران مودی نے مسلمانوں کی لاشوں کے انبار لگائے اور اب نہ صرف ھندوستان بلکہ مقبوضہ کشمیر میں دو سو سے زائد دن ھو گئے کشمیری قلعہ نما جگہ پر محصور ھیں نہ بولنے کی آزادی،نہ دنیا سے رابطہ اور نہ دیگر سہولیات دستیاب ہیں۔مگر عالم ھے کہ خاموش! اور آج اقوام متحدہ یہ اشک شوئی کس لئے کر رہا ہے۔اس کے پاس طاقت اور قانون ھے۔کشمیر کی قراردادیں موجود ہیں عمل کروائے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا بی جے پی۔اپنے قیام اور نظریہ سے ھندو نسل پرستی کی سوچ رکھتی ہے 1925ء میں آر ایس ایس کا وجود اسی بنیاد پر عمل میں آیا تھا۔زبردستی مسلمانوں سے ھندو بنانے کی تحریک سنگھٹن بھی ھوتی تھی اب دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی مگر ھندواتا کا سفاکانہ نسلی برتری کا نظریہ اب بھی موجود ہے۔ بی جے پی آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ھے اٹل بہاری واجپائی چونکہ شاعر مزاج اور دانشور بھی تھے اس لیے زیادہ سے زیادہ بندوق اٹھا کر ھوا میں فائرنگ کرتے اور اپنے نظریاتی کارکنوں کو خوش کر دیتے تھے۔البتہ اٹل بہاری واجپائی کے پیچھے اڈوانی قدرے انتہا پسند تھے اور آگرہ میں کشمیر پر ھونے والے کامیاب مذاکرات کو ایڈوانی جی کی انتہا نے ناکام کر دیا۔واجپائی تو ایک لاھور سمجھوتے اور دوسری مرتبہ آگرہ مذاکرات میں میز پر آئے۔مگر نریندرا مودی کا ماضی اور حال گواہ ہے کہ وہ خود براہ راست آر ایس ایس کے کارکن ھیں اس انتہا پر کھڑے ہیں کہ کچھ بھی ھو سکتا ھے۔ میں پاکستان میں موجود اس اٹیلجنشا اور سیکولر بھارت کے گیت گانے والوں سے سوال کرنا چا ہتا ہوں کہ کیا جناح کی سوچ کو داد نہیں دینی چاہیے کہ بغیر فوج کہ ایک الگ ملک حاصل کر لیا اور مسلمانوں نے تعلیم ،سائنس اور قائدانہ کردار میں ،کاروبار میں اور دیگر شعبوں میں جو ترقی کی کیا وہ مودی یا ھندو سوچ کے ھوتے کر سکتے تھے؟۔یہ الگ بات کہ ھمارے ھاں غلطیاں بے شمار کی گئیں مگر جناح تو بقول ششی تھرو اب بھی جیت رہا ہے۔اور جس تیزی سے مودی کی انتہا پسندی آگے بڑھ رہی ہے مسلمان الگ ریاست کا نعرہ لگا سکتے ہیں دہلی میں حالیہ تشدد جلاؤ گھیراؤ ،ھلا کتیں مساجد کو جلانا مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگا نا وہ بھی پولیس کی موجودگی میں نئی تحریک کی بنیاد بن رہی ہے بلکہ سکھ،اور تامل بھی ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ھوں گے یا نئی ریاست میں پسی ھوئی ذاتیں،دلت اور دیگر بھی شامل ھونے کے لئے دوڑیں گے۔ مشہور انڈین اداکار نصیرالدین شاہ رو رہے تھے کہ اب بھارت میں مسلمان ھونا گناہ بن چکا ہے جاوید اختر جیسا معتدل مزاج بھی گرم ھو کر برس پڑا ،ماضی میں مشہور صحافی کلدیپ نائر جیسے لوگ بھی کہہ چکے گانگریس بھی مودی کو پاگل کتا تک کہہ چکی ہے۔ کشمیر پر نظر دوڑائیں تو پرانے چوکوں چوراہوں کے نام ھندواتا کے نام پر تبدیل کیے جا رہے ہیں جموں،گارگل اور وادی کو الگ کر کے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کیا گیا اس کے پیچھے نظریہ ایک ھی ھے اور وہ نسل پرستی،برتری اور آر ایس ایس کا نظریہ ہے جس کو سیاسی اور عالمی سطح پر سب سے پہلے عمران خان نے اٹھایا آج مودی کو دنیا بھر کا میڈیا اور تھینک ٹینکس ھٹلر اور فاشسٹ کے نام سے لکھتے اور پکارتے ہیں۔بد قسمتی سے ھندوؤں کی کثرت سے مودی کی سپورٹ الیکشن میں کامیابی اور دنیا کے کمرشل مفادات نے کھیل کو جس کی لاٹھی اس کی بھینس میں تبدیل کر رکھا ہے مگر فطری طور پر تعصب کی عمر بہت کم ھوتی ھے اور وہ اپنے ساتھ بہت کچھ بہا لے جا سکتا ہے بھارتی مسلمانوں کے پاس قیادت کی کمی ہے اور کشمیریوں کے اندر تقسیم کے اندیشے زیادہ ہیں ورنہ مودی اور اور آر ایس ایس کی شدت سے نئی ریاست کا سیلاب امڈ سکتا ہے۔نوجوان تیار اور جناح کا نعرہ لگا چکے ہیں بس اشارے یا کسی جناح کا پاسنگ بھی مل جائے تو مودی کی شدت نئی ریاست کی وحدت بن سکتی ھے۔ ھمارے نوجوان کے لیے سوال ھے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں مسلمان محفوظ ھیں یا بھارت میں انہیں غور کرنا!!

 

Prof Khursheed Akhtar
About the Author: Prof Khursheed Akhtar Read More Articles by Prof Khursheed Akhtar: 89 Articles with 68524 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.