منڈی بہاؤالدین کے ایک سینئر پارلیمنٹیرین نے چند برس قبل
مجھے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی نرسری تیار ہونا ختم
ہوگئی ہے۔ اب سٹوڈنٹس اور جوانوں کو رحجان سیاست کی طرف نہیں رہا۔ میں نے
وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ سیاسی قیادت نے نوجوانوں کو اگنور کیا ہے جس کی
وجہ سے بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ اب گراس روٹ لیول پر پولیٹیکل ورکر پیدا
ہونا بند ہوگئے ہیں۔
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم محمد علی
جناح اور بعد میں ذوالفقار علی بھٹو نے سٹوڈنٹس کو اپنی طرف مائل کیا۔ مسلم
سٹوڈنٹس فیڈریشن MSF نے تحریک پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی کی کامیابی میں بھی سٹوڈنٹس کا بڑا
ہاتھ تھا۔ حکومت مخالف تحریکوں میں بھی پاکستانی طلبہ و طالبات پیش پیش رہے۔
سٹوڈنٹ پالیٹکس سے طلبہ پاکستان کی مین سٹریم پالیٹکس میں آتے تھے۔ ایم کیو
ایم تو پیدا ہی سٹوڈنٹ پالیٹکس کے بطن سے ہوئی۔ ہر سیاسی جماعت جیسے مسلم
لیگ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، اے این پی اور عوامی لیگ سٹوڈنٹس کی
کونسلنگ کرتی تھیں، سٹڈی سرکلز کا انعقاد کیا جاتا تھا اور لٹریچر کی نشر و
اشاعت کا اہتمام ہوتا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس نے
اپنے ورکر کو سب سے زیادہ اوبلائج کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو بہت وڑنری آدمی تھے۔ انھیں پتہ تھا کہ جب تک ورکر کو
معاشی فائدہ نہیں دیا جائیگا اس وقت تک ورکر دل جان سے ساتھ نہیں دیگا،
ذوالفقار علی بھٹو نے ایک نئی جماعت بنائی تھی اس کے لئے تن من دھن قربان
کرنے والے جانثار ورکروں کی اشد ضرورت تھی، اس صورتحال کے پیش نظر ذوالفقار
علی بھٹو نے ساٹھ کی دہائی میں ملک بھر میں اپنے ورکرز کو سائیکلز گفٹ کیں۔
اس دور کا سائیکل آج کی لینڈ کروزر کے مترادف تھا کیونکہ کسی فرد کے پاس
ذاتی سواری نہیں ہوتی تھی۔ پھر ذوالفقارعلی بھٹو ملک بھر میں اپنے غریب
ورکرز کو پانچ مرلہ زمین الاٹ کی۔ اس وقت پانچ مرلہ کی وہی قیمت تھی جو آج
ہے۔ آپ خود سوچیں کہ گھر بیٹھے بٹھائے آپ کو ڈی ایچ اے، بحریہ یا سٹی
ہاؤسنگ میں پانچ مرلہ پلاٹ گفٹ کردیا جائے تو آپ کی خوشی کی کیا کیفیت ہوگی؟
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ورکرز کو مضبوط کرنے اور ہر شخص کو پیپلز
پارٹی کی طرف مائل کرنے کیلئے سرکاری نوکریاں دیں۔ ضلع منڈی بہاؤالدین کی
بہت بڑی مثال آپ کے سامنے ہے، چوہدری غلام رسول تارڑ سابق ایم این اے آف
جوکالیاں کے بیٹے اور ظفراللّہ تارڑ سابق ایم این اے کے بھائی افتخار تارڑ
کو ڈائریکٹ ایس پی بھرتی کروایا تھا۔
نئی جماعت تھی اس کی جڑیں اور مضبوط کرنے کیلئے ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز
پارٹی کے شہداء کی فیملیز کو بھی بہت نوازا۔ لیاقت باغ راولپنڈی فائرنگ کے
نتیجے میں شہید ہونے والے عباس گوندل کے کزن چوہدری محمد اسلم آف لکھنے
والا کو پاکستان کی پہلی سینیٹ کا ممبر بنایا۔ موضع بکن کے گورنمنٹ ہائی
سکول کا نام عباس کے نام پر رکھا گیا اور اس کے علاوہ ان گنت مراعات۔۔
مفت سائیکل، مفت زمین اور مفت نوکریاں تقسیم کرنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو
نے پیپلز پارٹی کو ایسی نرسری مہیا کردی جو ہر سال تناور درخت پیدا کرتے
کرتے ایک گھنے جنگل کا روپ دھار چکی ہے۔ آج بھی ملک میں سب سے زیادہ
نوکریاں پیپلز پارٹی اپنے ورکرز کو دیتی ہے۔
1990 کے بعد سیاسی جماعتوں نے ورکرز کی بجائے سرمایہ داروں اور نودولتیوں
کو اہمیت دینی شروع کی اور ورکرز کو اگنور کیا جانے لگا، چلتے چلتے اب وہ
مقام آگیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس ورکر کلاس ختم ہوگئی ہے۔ صورتحال یہ
ہے کہ ملک کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پاس ایک دن کے
دھرنے کیلئے بھی ورکرز دستیاب نہیں۔ مذہبی جماعتیں تو پھر بھی گزارا کرتی
ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں کو اپنے جلسوں کیلئے پیڈ paid لوگ لانا پڑتے ہیں۔
ایک لمبے عرصے بعد پاکستان تحریک انصاف کو پاکستان کے طلبہ اور نوجوانوں نے
جوائن کیا۔ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے بھٹو کے وڑن کو کاپی کیا۔ 2018 کے
انتخابات کے وقت پاکستان کی مجموعی آبادی کا ساٹھ فیصد چالیس سال سے کم
افراد پر مشتمل تھی جن کی اکثریت ووٹر کی عمر اٹھارہ سال ہونے کے باعث اپنا
پہلا یا دوسرا ووٹ کاسٹ کررہی تھی۔ جنھوں نے اپنی زندگی میں صرف عمران خان
کو اپوزیشن کرتے اور مخالفین کو چور چور کہتے سنا تھا نے عمران کو نجات
دہندہ سمجھ لیا۔ ایسے میں انھیں ایک کروڑ نوکری اور پچاس لاکھ گھر دینے کا
مڑدہ جانفزا سنایا گیا کیونکہ پی ٹی آئی میں موجود اسد عمر جیسے نابغے یہ
سمجھتے تھے کہ نوجوان اور سٹوڈنٹ کا ووٹ لینے کیلئے اسے سرکاری نوکری اور
مفت مکان کا ہی جھانسہ دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ نوجوانوں کیلئے اس سے پرکشش
اور کوئی پیکیج نہیں ہو سکتا۔ خیر اس اعلان کا بعد میں کیا حشر ہوا وہ آپ
سب احباب کے علم میں ہی ہے۔ پی ٹی آئی کا ورکر بھی مسلم لیگ ن کے ورکر کی
طرح بد دل ہو چکا ہے۔
عصر حاضر میں پیپلز پارٹی خوش قسمت جماعت ہے جس کے پاس اب بھی تازہ دم
نرسری موجود ہے۔ ضلع منڈی بہاؤالدین میں عمار طاہر گجر اور ارسلان مختار
گوندل جیسے نوجوان پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن PSF کے پلیٹ فارم سے بہت ایکٹو
رول پلے کررہے ہیں۔ نیشنل لیول کا کوئی ایونٹ ہو یا کوئی قومی تہوار پی ایس
ایف کے نوجوان اسے جوش و جذبے سے مناتے نظر آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی سٹی منڈی
بہاؤالدین کے صدر چوہدری محمد ارشد ﷲ ، ڈویژنل صدر دیوان شمیم اختر اور
صوبائی صدر قمر زمان کائرہ بہت خوش قسمت ہیں کہ ان کی صفوں میں ایسے نوجوان
لیڈر موجود ہیں جو نئے شامل ہونے والوں کو قیادت سے ملوا کر انکی عزت
افزائی کا اہتمام کررہے ہیں کل کو یہی نوجوان اپنے اپنے اضلاع میں پیپلز
پارٹی کی باگ دوڑ سنبھالیں گے۔
صدر پی ایس ایف ضلع منڈی بہاؤالدین عمار طاہر گجر اور سیکرٹری جنرل پی ایس
ایف گوجرانوالہ ڈویژن ارسلان مختار گوندل نے پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق
امیدوار قومی اسمبلی کے بیٹے حسنین علی شاہ کو پیپلز پارٹی میں شامل کروایا
ہے۔ دیکھنے کو تو یہ ایک چھوٹی سی شمولیت لگتی ہے لیکن میں اسے پاکستان کی
سب سے بڑی شمولیت سمجھتا ہوں کیونکہ عمار طاہر گجر اور ارسلان مختار گوندل
نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سے ملاقات میں علی حسنین شاہ
کی شمولیت کروائی جوکہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ مسلم لیگ ن یا پی ٹی آئی
کا کوئی عہدیدار رائے ونڈ اور بنی گالا کی دیوار کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتا
لیڈر سے ملنا تو بہت دور کی بات ہے، ایسے میں بلاول بھٹو کا اپنی جماعت کے
سب سے چھوٹے یونٹ بلکہ ننھے منے ونگ کے بچوں کو ٹائم دینا اور ایک نوجوان
کی شمولیت کرنا ملکی سیاسی تاریخ کا ایک انوکھا اور قابل تقلید واقعہ ہے۔
نوجوان بلاول میں اپنے نانا کے اوصاف موجود ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ 90 کی
دہائی سے پنجاب کے ورکر کو اگنور کرنے سے پیپلز پارٹی کا پنجاب سے جو صفایا
ہوا ہے اسے نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ شمولیت سے ہی دوبارہ Cover کیا
جاسکتا ہے۔ بلاول بھٹو نے ایک نوجوان کی شمولیت کیلئے ملاقات کا ٹائم دیکر
عمار گجر اور ارسلان گوندل کا بھی مان بڑھایا ہے اور یہ میسیج دیا ہے کہ
پیپلز پارٹی کی قیادت تک ہر ضلع کے سٹوڈنٹس کی بھی پہنچ ہے۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو کی ٹیم اعلٰی ظرف لوگوں پر مشتمل ہے جو
فراخدلی سے ورکرز کو قیادت سے ملوانے کا اہتمام کرتے ہیں جبکہ دوسری
پارٹیوں کی قیادت کے گرد ایسے لوگوں کا حصار ہوتا ہے جو کسی ورکر کو انکے
پاس نہیں پھٹکنے دیتے اور ورکرز کی عزت کرنے کی بجائے انکی تضحیک اور غیبت
کرتے ہیں بلآخر ان کا انجام یہ ہوتا ہے کہ پورے ملک میں ان کیلئے احتجاج
کرنے والا ایک ورکر بھی نہیں ہوتا۔
|