شام اور ترکی میں سرحدی کشیدگی

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

ملک شام اسلامی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتاہے۔شام کے باسی ابتدائے اسلام میں ہی مسلمان ہو گئے تھے اور پھر مسلمان ہی رہے۔اس سرزمین سے متعدد نابغہ روزگارہستیوں نے بھی جنم لیااور تاریخ اسلام کے متعدد اہم ابواب کا آغاز یا انجام اسی سرزمین پر ہی عمل میں آیا۔حرمین س شریفین ے جغرافیائی قربت اور عربی زبان و ادب کے باعث سرزمین شام کی دینی ومذہبی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔سلطنت عثمانیہ کے دوران بھی یہ خطہ ارضی اسلامی خلافت کاایک اہم حصہ تصورکیاجاتارہا۔نوآبادیاتی سازشوں کے باعث جب خلاف اسلامیہ کاخون ہواتو شام کوبھی بندربانٹ کے نتیجے میں ایک الگ ریاست بنادیاگیا۔اس ملک کی شومئی قسمت کہ یہاں کے حکمرانوں نے اپنا نظریاتی نسب دین اسلام یاشریعت محمدی سے جوڑنے کی بجائے ایک طرف تو عرب قومیت کے ساتھ جوڑ دیاتو دوسری طرف سیکولرازم کواپنااوڑھنا بچھونا بنالیا۔چنانچہ سلطنت شام کا قومی نام’’الجمہوریہ العربیہ السوریہ‘‘رکھ دیاگیا۔اس نام میں مملکت شام کی پہچان جمہوریت اور عربیت ہے۔اسلام یاامت مسلمہ یا قرآن مجید سے نام کی حد تک بھی کوئی تعلق ظاہر نہ کیاگیا۔جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت یہاں مسلط ہے،باپ کی تاحیات ومطلق العنان حکمرانی کے بعد بیٹے کاحکمران بننایہاں کی معکوس جمہوری روایات ہیں۔مسلمان عوام اور سیکولرحکمرانوں کے درمیان اتنے طویل نظریاتی فاصلوں کے باعث شام کے حکمران گزشتہ کئی دہائیوں سے اسلام دشمنوں کے ہاتھوں اپنے مسلمان عوام کے قاتل بنتے چلے آرہے ہیں۔انسانی تاریخ کا عجیب و غریب باب سپردقلم ہورہاہے کہ حکمرانوں کی افواج اپنی ہی قلمرومیں شہروں کے شہرقتل و غارت گری سے ویران کرتی چلی جارہی ہیں،ہنستے بستے شہروں کے باسی مہاجرین بن کر دیارغیر میں سدھارجاتے ہیں اور عمارتیں کھنڈرات کا پتہ دینے لگتی ہیں۔یہ ہیں امت مسلمہ کی گردنوں پر مسلط بے شرم سیکولرحکمرانوں کے اسلام دشمن رویے۔

مملکت شام کی 570میل طویل ترین سرحد ترکی کے ساتھ مشترک ہے۔شام کے سیکولرحکمرانوں کے لیے ترکی کے اسلام پسند جمہوری حکمران کسی طوربرداشت نہیں ہیں۔بدترین پڑوسی کے مصداق جب سے ترکی میں سیکولرازم کاسورج غروب ہواہے شام کے حکمرانوں نے اسلام دشمن عالمی طاقتوں کو اپنی سرزمین پر لابٹھایاہے اور خاص ترکی کی سرحدوں پر انہیں فوجی اڈے فراہم کر دیے ہیں۔ بنی قریظہ کاکرداراداکرنے والے شامی حکمران امت مسلمہ کی آستین کے سانپ ہیں اور کبھی بھی کمر میں چھراگھونپنے کاموقع ضائع نہیں کرتے۔ترکی کی اسلامی قیادت نے اپنے ملک کو تاریکیوں سے روشنیوں میں لا کھڑاکیاہے۔یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ دین اسلام کا فیض رکتانہیں ہے،پس یہ کیسے ممکن ہے کہ طاغوت کی کھینچی ہو ئی خونی ،شیطانی اورمصنوعی لکیروں کے ایک طرف تو شریعت محمدیﷺ کے انوار جلوہ گرہوں تو دوسری طرف گھٹاٹوپ اندھیراچھایارہے۔شام کے حکمرانوں کو پڑوس میں بڑھتی ہوئی اسلامی قوت سے اپنے ظالم،فاسق اور فاجر اقتدارکو سخت خطرات محسوس ہوتے ہیں۔شام کا سیکولرحکمران شاید اسی خوف سے مراجارہاہے کہ ترکی کی قریب الاقامت خلافت اسلامیہ سے عالمی استبدادتو جب شکست خوردہ ہو گاتب ہوگا،سب سے پہلے تو شام کی حکومت کا بسترگول ہو جائے گا۔یہی وجہ ہے یہودیوں کے ہاتھوں بری طرح پٹنے والی شکست خوردہ شامی فوج اپنے حکمرانوں کے تحفظ کے لیے ترکی افواج سے برسرپیکار ہے جب کہ عالمی استعمارکا ہاتھ بعد از قیاس نہیں ہو سکتا۔

فروری2020ء کے آخری ہفتے میں شامی افواج نے بغیر کسی وجہ کے ترکی کی سرحدی افواج پر ہوائی حملہ کیا اور ترک فوج کے تیتیس(33) فوجیوں کو شہید کردیا۔اس کے نتیجے میں ترکی نے شام کے سرحدی علاقوں میں اپنی کاروائیاں تیز کر دی ہیں۔ترکی افواج کی ان کاروائیوں میں شامی افواج کا بہت نقصان ہوا ہے۔تازہ حملوں میں شام کے انیس(19)فوجی ہلاک ہوئے ہیں،ایک فوجی اڈا تباہ ہو گیاہے اورفوجیوں کا ایک کمک بردار کانوائے بھی ترکی حملوں کا نشانہ بناہے۔اس سے قبل ترکی نے شام کے دو جنگی ہوائی جہاز بھی مار گرائے تھے جن کے پائلٹ پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگا کر بچ گئے۔ترکی نے شامی فوج کے متعدد ٹینک اور دفاعی نظام کو بھی نشانہ بناکر انہیں نقصان پہنچایاہے۔ترک وزیر دفاع نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ شام کے آٹھ ہیلی کاپٹر،ایک ڈرون طیارہ،ایک سوتین ٹینک اور وسیع تعدادمیں راکٹ لانچرتباہ کیے ہیں۔انہوں نے مزید کہا 2212شامی فوجیوں کو گرفتاریا زخمی یا ہلاک کردیاگیاہے۔جنگی محاذپر ترک فوج کی یہ بہت بڑی کامیابیاں ہیں۔صاف ظاہر ہے کہ یہ جنگ شام کے بس کی نہیں ہے۔شہری علاقوں میں عیاشی کرنے والی افواج اور حکومت کے نشوں میں چور جرنیل صرف اپنی عوام پر ہی گولیاں چلا سکتے ہیں ،کسی دوسری فوج سے جیتنا تو دور کی بات ہے ان سے لڑنا بھی ان کے بس کی بات نہیں۔پھر یہ ایک عالمی تاریخی حقیقت ہے کہ فوج فوج سے لڑ سکتی ہے لیکن فوج عوام سے نہیں لڑ سکتی۔بدقسمتی سے اسلامی ملکوں کی افواج کو اپنی عوام کی حمایت کبھی بھی حاصل نہیں رہی۔اس کی سادہ سی وجہ ہے کہ مسلمان ملکوں کی عوام اسلام پسند ہے اور حکمران یاافواج سامراج اور استعمار پسند ہیں۔جس دن افواج نے بھی اسلام پسندی اختیار کرلی اسی دن کا سورج امت کے مدمقابل ان سیکولرحکمرانوں کوپس دیوار دنیادھکیلنے کا گواہ بن جائے گا۔

شام یہ جنگ خود نہیں لڑ رہااور نہ ہی یہ اس کے بس کی بات ہے۔عالمی سامراجی طاقتیں بڑھتی ہوئی اسلامی طاقت سے بری طرح خائف ہیں اور شام کے ناعاقبت اندیش و مخمورسیکولرحکمرانوں کوامت کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔متعدد عالمی خبررساں اداروں نے بتایاہے کہ روسی طیارے براہ راست ترکی کی اسلامی افواج پر حملوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔اگرچہ روسی حکومت نے اس خبر کی تصدیق نہیں لیکن اس کی خاموشی سے کوئی بھی اس قبیل کااندازہ لگانا مشکل نہیں۔ترکی بار بار کہ رہا ہے کہ وہ روس سے اپنے تعلقات کشیدہ نہیں کرنا چاہتاشایداسی لیے آئیندہ ہفتے ،مارچ 2020ء کے دوسرے ہفتے میں ترکی روس سربراہ ملاقات بھی متوقع ہے۔جب کہ 28فروری2020ء کو روسی صدر اور ترکی ہم منصب نے فون پر رابطہ کر کے کشیدگی کم کرنے کی تجاویزپرگفتگوکی ہے۔دوسری طرف یورپی یونین بھی امت مسلمہ کے خلاف اس مہم جوئی میں شامل ہونے کے لیے اپنے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجتماع منعقد کرنے لیے تیار ہے۔اس سارے امت دشمن کھیل میں امریکہ بہادر کیسے پیچھے رہ سکتاتھا؟؟؟ابھی انہی دنوں امریکی صدر نے ترکی کو دھمکی دی ہے کہ اگرشامی کردوں پرحملہ کیاتو ترکی کی معیشیت تباہ کردیں گے۔انقرہ نے جرات ایمانی سے یہ امریکی دھمکی پاؤں کی ٹھوکرپرررکھی ہے اورترک صدارتی ترجمان’’ابراہیم قالن‘‘نے جواب میں کہاہے کہ شام کے خلاف ہرصورت جنگ جاری رہے گی۔اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایادیاہے ’’الکفرملۃ واحدہ‘‘کہ تمام عالم کفر ایک ہی امت ہے۔ترکی اور شام کی تازہ جھڑپوں پرنیٹوکی بیٹھک بھی ہو چکی ہے۔ان تمام اطلاعات کو یکجاکیاجائے تو عین ممکن ہے عالمی سیٹی مار ایک اوربڑی جنگ کاالاؤ بھڑکادے۔اس جنگ کاعلاقہ امت مسلمہ کی سرزمین ہو گا،اس جنگ کے فریقین امت مسلمہ کے ممالک ہوں گے،اس جنگ کے وسائل امت مسلمہ کاسرمایاہوگا، اس جنگ کے بداثرات امت مسلمہ کی قسمت میں آئیں گے اور فوائد،ثمرات،اسلحہ و بارود بیچنے کا منافع اورپھرجنگی آلودگی ختم کرنے لیے اپنے گماشتوں کی تعیناتی ،ان کے ذریعے جاسوسیاں کرانے ،غداروں کی پرورش کرنے اور پھراگلی جنگ کی تیاری امت دشمنوں کے حصے میں آئے گی۔اور ان سب کا ذمہ دار شام کا سیکولرحکمران ہو گا ۔

ترکی کے صدرطیب ارزگان نے اعلان کیاہے 2022ء میں ترکی صدسالہ یورپی معاہدے سے آزادہورہاہے۔اس کے بعد ترکی اپنی سرحدوں کا ازسرنوتعین کرے گا جس کے لیے ترکی جدیدترین اسلحے کی تیاری کاارادہ بھی رکھتاہے۔فی الوقت ترکی کی سرحدوں پر مقیم لاکھوں شامی مہاجرین ترکی کے لیے ایک بہت بڑاانسانی مسئلہ ہے۔ترکی کامنصوبہ ہے کہ شام ترکی سرحد کا وسیع علاقہ کرددہشت گردوں سے خالی کراکر وہاں شامی پناہ گزینوں کوآبادکر دیاجائے۔بعض اطلاعات کے مطابق ترکی نے اس علاقے کی تعمیروترقی کے لیے الگ سے رقومات بھی مختص کررکھی ہیں۔ترکی کے اس انسان دوست منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ شام کا سیکولر حکمران ہے،کیونکہ سیکولرازم یقینی طورپر انسان دشمن نظریہ ہے۔کیونکہ ترکی کی اسلام پسند حکومت کے زیرانتظام اس طرح کی کسی بستی کاقیام شام سمیت پوری عرب دنیامیں اسلامی نشاۃ ثانیہ کامقدمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ترکی کاکہنا ہے کہ اس طرح کی بستی کے قیام سے جہاں مہاجرین کا فوری مسئلہ حل ہو جائے گا وہاں کردوں کا دیرینہ مسئلہ بھی ہمیشہ کے لیے دم توڑ سکتاہے۔اوراگرکردخاموش ہو گئے تو عالمی مداخلت بھی وہاں سے رفوچکرہوجائے گی اور پھر آخری نشانہ اسرائیل ہو گاجس کے دن بھی گنے جاچکے ہیں۔تب مشرق وسطی کا نقشہ ایک بار پھر عالمی اسلامی خلافت عثمانیہ کے زمانے کے پرامن خطہ کی تصویر بن جائے گا۔ترکی کے اس منصوبے کی شام ترکی جنگ میں ترکی کی فتح سے متبرک شروعات کاآغاز ہو جائے گا۔افغانستان میں امریکی شکست کے بعدمشرق وسطی میں امریکی پسپائی سے اس منصوبے کی کامیابی بآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔اب وہ دن دور نہیں جب آسمانی صحیفوں میں لکھے گئے انسانیت کی آسودگی کے دن بہت قریب آلگے ہیں۔خلافت اسلامیہ کی تاسیس امت کے سیکولر حکمرانوں کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی اورانسانیت خطبہ حجۃ الوداع کی ٹھنڈی چھاؤں میں آسودہ راحت ہوگی،ان شااﷲ تعالی۔

Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 522105 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.