امریکی سیاست کی یہ روایت رہی ہے کہ جب ڈیموکریٹس اقتدار
میں آتے ہیں تو ہندوستان سے تعلقات بہتر ہوجاتے ہیں اور ریپلکن پارٹی کا
صدر پاکستان کا ہمنوا ہوجاتا ہے۔ اس معاملے میں صدر براک اوبامہ کچھ زیادہ
ہی تیز نکلے ۔ انہوں نے ہندوستان کی دوستی کے ذریعہ نہ صرف چین کو گھیرنے
کی کوشش کی بلکہ ہند وپاک کے کشیدہ تعلقات کی آڑ میں افغانستان کی کٹھ
پتلی حکومت کے ساتھ منموہن سنگھ کے گہرے تعلقات استوار کردیئے۔ افغانستان
کے سابق صدر حامد کرزئی نے چونکہ ہندوستان کے اندر تعلیم حاصل کی تھی اس
لیے ان کے زمانے میں دونوں ممالک درمیان بے مثال مفاہمت ہوگئی۔ سنگھ اور
حامد کرزئی کی اسٹریٹیجیک ڈیل میں تجارت، حفاظت اور ثقافت کے رابطوں کو
بہتر خطوط پر استوار کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس کی تکمیل کے لیے افغانستان جیسے
مختصر آبادی والے ملک میں ہندوستان کے ایک درجن قونصل خانے کھولے گئے۔
منموہن سنگھ نےتویقین دہانی کرا دی تھی کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے
بعد افغان عوام کے شانہ بشانہ ہندوستان کھڑا ہو گا تا کہ وہ اپنی ذمہ
داریوں کا بوجھ احسن انداز میں اٹھا سکیں۔
افغانستان میںہندوستان سڑکوں اور دیگر تعمیرات مثلاًپارلیمنٹ کی نئی عمارت
پر تقریباًدو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا تھا۔ یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ
نئے ایوان پارلیمان کے افتتا ح سے قبل کرزئی اور منموہن اقتدار سے محروم
ہوگئے ۔ اشرف غنی کے دورِ صدارت میں نریندر مودی نے افتتاحی تقریب میں شرکت
کی ۔ اس موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے مولانا رومی کا۸۰۰ سال قبل بلخ
شعر سنایا جس کا مفہوم تھا ’’اپنی آواز کو نہیں بلکہ اپنے الفاظ کو
بلندکرو کیونکہ بجلی کی گرج سے نہیں بلکہبارش کی پھوار سے پھول کھلتے ہیں۔
یہ اس سرزمین پر بسنے والی عظیم قوم کی حکمت ہے‘‘۔ مودی جی کی تقریر کا
اگلا حصہ کہ ’’اس صدی میں ، عظیم افغان عوام نے بندوق اور تشدد سے نہیں ،
ووٹ اور بحث سے اپنے مستقبل کی تشکیل کے لئے ہمت اور عزم کی ایک عظیم
جدوجہد کی ہے‘‘ کچھ اٹ پٹا سا لگتا ہے ۔ بات دراصل یہ ہے کہ امریکہ بہادر
کی عقل بولی سے نہیں گولی سے ہی ٹھکانےآتی ہے۔
مودی جی کے خطاب میں ان گنت ، گمنام افغانوں کو خراج تحسین پیش کرنا جنہوں
نے اپنی جانیں نچھاور کرکے اپنے مستقبل کی قربانی دی، کسی صورت اس محفل میں
موجود اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی پر صادق نہیں آتا بلکہ اس
خراج عقیدت کے مستحق تو صرف اور صرف طالبان ہیں ۔ مودی کی تقریر لکھنے والے
نے نہ جانے کیا سوچ کر لکھا تھا کہ یہ ایک ایسی سرزمین جہاں شاعری اور
وجاہت ، بہادری اور عزت ، فخر اور سخاوت ، دوستی و گرمجوشی اور حریت و
مزاحمت کی عبقری شخصیات پیدا ہوتی ہیں ۔ امن معاہدے کے بعد طالبان کی بے
مثال کامیابی پر یہ الفاظ حرف بہ حرف صادق آتے ہیں ۔مودی جی کو چاہیے کہ
وہ اپنا ٹویٹر اکاونٹ بند کرنے سے قبل یہ تراشہ طالبان کے رہنما وں کی خدمت
میں روانہ کردیں ۔ اس سے مستقبل میں تعلق کی استواری سہل ہوجائے گی۔
امن معاہدے سے ایک ہفتہ قبل نریندر مودی کی طرح اشرف غنی بھی 923592 ووٹ لے
کر فاتح قرار پائے جبکہ ان کے حریف امیدوار عبداللہ عبداللہ کو 720841 ووٹ
ملے۔اپنی شکست کو تسلیم کرکے مودی کو مبارکباد دینے والے راہل کی پیروی
کرنے کے بجائے عبداللہ عبداللہ نے لگ بھگ دو لاکھ ووٹوں کے فرق سے ناکام
ہونے کے باوجود انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا ۔ انہوں نے ان نتائج کو 'انتخابی
ڈاکہ اور لوگوں کے ساتھ دھوکہ‘ قرار دے کر اپنے اتحادیوں کے ساتھ الگ حکومت
قائم کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ اس طرح مودی جی کے الفاظ غلط ثابت ہوگئے کہجس
میں انہوں نے کہا تھا ’’ جرگے کی روایت پر مستقل یقین رکھنے والے افراد نے
جمہوریت کا راستہ منتخب کیا ہے‘‘۔ دنیا بھر میں ملاوں کی چپقلش پر بہت
تنقید ہوتی لیکن ان کوٹ پتلوں والے روشن خیال دانشوروں کو سر پھٹول کوبڑی
چالاکی سے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
افغانستان میں سن 2014 کے صدارتی انتخابات کے بعد بھی اسی طرح اشرف غنی اور
عبداللہ عبداللہ نے اپنی اپنی کامیابی کے دعویٰ کردیا تھا۔ اس وقتامریکی
صدر براک اوباما نےثالث بن کردونوں رہنما وں کو شراکت اقتدار پر راضی کرلیا
تھا۔ اس کے تحت اشرف غنی سربراہ مملکت اور عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکیٹو
کے عہدے پر پانچ سال کام کرتے رہے ۔ویسےعبداللہ عبداللہ کا دعویٰ بالکل غلط
بھی نہیں ہے کیونکہ افغانستان کی کل آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے جبکہ ملک میں
رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 96 لاکھ ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق ان میں سے صرف 27
لاکھ ووٹ ڈالے گئے۔ اس میں ایک تہائی ووٹ مسترد ہوگئے اور جملہ 18لاکھ
ووٹوں کی گنتی کی بنیاد پر نتائج کا اعلان کردیا گیا۔ اب اگر کوئی اعتراض
کرے تووہ بنیاد بھی نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے نتائج کے اعلان میں تاخیر
کرکے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ کردیا۔ فی الحال یہ فرق بھی واقع ہوچکا
ہے ٹرمپ کے نزدیک طالبان اقتدار کے سچےمستحق ہیں اور وہ ان دونوں کے درمیان
مفاہمت کرانے کے بجائے ان کی چھٹی کردینا چاہتے ہیں ۔
وقت کے ساتھ اوبامہ کی جگہ ٹرمپ آگئے اور اشرف غنی کے بعد طالبان آرہے
ہیں ۔ طالبان کے ساتھ بی جے پی کا پہلا سابقہ اٹل جی کے زمانے میں پڑا تھا
جب ہندوستانی طیارہ کونیپال سے اغواء کرکے کابل لے جایا گیا اور وزیر خارجہ
جسونت سنگھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مولانا اظہر مسعود کو وہاں چھوڑ آئے ۔
اس تلخ سانحہ کو سنگھ پریوار ہمیشہ کے لیے بھلا دینا چاہتا ہے لیکن اس سے
مفر نہیں ہے۔ مودی جی ۶ سالوں سے ہر بین الاقوامی فورم میں دہشت گردی کے
خلاف جنگ کرنے کا راگ الاپتے رہے اور یہ سوئی نادانستہ طالبان کی جانب گھوم
جاتی تھی لیکن دوحہ کی تقریب میں شرکت دعوت چونکہ امریکہ سے آئی تھی اس
لیے اس کا انکار کرنے کی جرأت مودی جی نہیں کرسکے ۔ وزارت خارجہ نے دوحہ
میں مقیم بھارتی سفیر کوامن معاہدے کی تقریب میں شریک ہونے کی ہدایت کردی ۔
اس طرح اب امریکہ کی طرح ہندوستان کے لیے بھی طالبان دہشت گرد نہیں رہے۔
افغانستان کی بدلتی سیاسی صورت حال نے حکومت ہند کو حقیقت پسند بنا دیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرکے روابط
استوار کرنے پر رضامند ہے۔ بہت ممکن ہے کہ دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے
درمیان ہونے والے امن معاہدے کی تقریب میں ہندوستان کی شرکت ممکنہ سفارتی
روابط کے قیام میں پہلا قدم ثابت ہو۔افغانستان کے ساتھ سن 1996 سے 2001 کے
درمیان طالبان کی حکومت سے قطع تعلق کرنے والی کمل چھاپ زعفرانی سرکار نے
لگتا ہے طالبان کی آئندہ حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے کا من بنا لیا
ہےگویا مودی سرکار کا من پریورتن ہوچکا ہے۔ افغانستان میں کی جانے والی
سرمایہ کاری کوبچانے کے لیے اب یہ ایک طرح کی مجبوری بھی ہے۔ سچ تو یہ ہے
کہ سیاست عالمی سطح کی ہو یا بلدیاتی، ہر مقام پر مفاہمت و مصالحت کے بغیر
بات نہیں بنتی اگر ایسا نہ ہوتا تو اڈوانی قائد اعظم کے مزار پر تعریف
وتوصیف نہیں کرتے اورمودی جی کابل سے لوٹتے ہوئے بن بلائے نواز شریف کے
ساتھ بریانی نہیں کھاتے۔ سیاسی عمل اسی ناو نوش کا دوسرا نام ہے۔
|