جوانی میں انسان اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ وہ چھوٹی موٹی
بیماری کو خاطر میں نہیں لاتا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا بلڈپریشر نے
سلیمان کے سارے جسمانی اعضا کو دیمک زدہ کردیا پھر ایک شام جب وہ گھر پہنچا
تو بخار میں تپ رہا تھااس کے ہاتھ اور پاؤں بے حس ہوچکے تھے ‘ فوری طور پر
اسے شالیمار ہسپتال لے جایا گیا ‘ڈاکٹروں نے کچھ لیبارٹریز ٹیسٹ ایڈوائز کر
دیئے ‘ اگلے دن جب ٹیسٹوں کی رپورٹ آئی تو پتہ چلا کہ ہائی بلڈپریشر کی
زیادتی نے دونوں گردوں کو ناکارہ کردیا ہے ۔معالجین کی اس تشخیص نے پورے
ماحول کوسوگوار کردیا ۔ سلیمان کویکے بعد دیگرے کئی ہسپتالوں میں لے جایا
گیا - "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی " والی بات سچ َثابت ہوئی ۔بات گردوں
کے ڈیلسز پر ِآ پہنچی ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ ڈیلسز پرایک وقت میں چار
ہزار روپے خرچ بھی ہوتے ہیں اور ڈیلسز کے شروع سے اختتام تک نہایت تکلیف دہ
مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ جسم میں پھیلی ہوئی نسوں میں سے کسی بھی ایک جگہ
پر ڈریپ لگا کر خون تبدیل کرنے کا کام مکمل کیاجاتا ہے جس سے جسم میں رہی
سہی طاقت بھی ختم ہوجاتی ہے ۔ مضبوط جسم کے حامل اس نوجوان نے صحت یابی کی
خاطر سب اذیتیں برداشت کیں ۔ پھر ماہر ڈاکٹروں کی یہ ایڈوائس ملی کہ ڈیلسز
کے تکلیف دہ عمل سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ کم ازکم ایک گردہ تبدیل
کروالیا جائے ۔چنانچہ محکمہ صحت کے ادارے" ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی"
کی اجازت کے بعد ہی گردہ تبدیلی کا عمل شروع ہوسکتا تھا ‘ چچی نے سلیمان کی
صحت یابی کے لیے اپنا ایک گردہ دینا قبول کرلیا ۔ شہباز شریف کے دورحکومت
میں موذی بیماریوں میں مبتلاہزاروں افراد کے علاج اور آپریشن کے اخراجات
حکومت پنجاب برداشت کرتی تھی ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک الگ ادارہ قائم
کررکھا تھا ‘ اس ادارے کی جانب سے اخراجات پر سلیمان کے گردہ تبدیلی کا
آپریشن‘ شیخ زید ہسپتال میں 13نومبر 2017ء کو کامیابی سے ہو گیا ۔ہسپتال سے
ڈسچارج کرتے وقت ڈاکٹروں نے جو ادویات تبدیل شدہ گردے کو صحیح حالت میں کام
کرنے کے لیے تجویز کیں اس کی ماہانہ مالیت 45ہزار روپے بنتی تھی جو پنجاب
حکومت کی جانب سے شیخ زید ہسپتال کے ذریعے یہ ادویات فراہم کی جاتی رہیں ۔‘جبکہ
آپریشن کے بعد مریض کو ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق چھ ماہ تک ایک الگ کمرے
تک محدود بھی کردیا گیا جہاں گھر کے افراد سمیت کوئی بھی جا نہیں سکتا تھا
اور نہ ہی سلیمان کسی سے مصافحہ کرسکتا تھا چنانچہ چھ ماہ تک قید تنہائی
میں رہنے کے بعد سلیمان کو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہنے کی اجازت مل
گئی۔زندگی پھر معمول پر آگئی لیکن 18 اگست 2018ء کو مرکز اور پنجاب میں
حکومتیں تبدیل ہوگئیں ۔نئے پاکستان کے دعوی داروں نے سب سے پہلا کام ان
موذی امراض( گردوں ‘ کینسر‘ دل ‘ ہیپاٹائٹس ‘ جگروغیرہ) میں مبتلا افراد کو
مفت ملنے والی ادویات بندکردیں۔ معالجین کی ہدایت کے مطابق تبدیل شدہ گردے
کو ورکنگ پوزیشن میں رکھنے کے لیے یہ ادویات تاحیات کھانی تھی ۔ ادویات بند
ہوتے ہی سلیمان کی طبیعت ایک بار پھر خراب رہنے لگی ‘ اسے پاکستان کڈنی
اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ اینڈ ریسرچ ہسپتال بیدیاں روڈ لاہور کینٹ لے جایاگیا
۔چیک اپ کے بعد معالجین نے علاج کے لیے مزید 13لاکھ روپے طلب کیے اور دوسری
صورت میں حکومت پنجاب کی جانب سے فری ٹریٹمنٹ کا لیٹر مانگا ۔ اتنی بڑی رقم
کاانتظام کرنا ناممکن تھا چنانچہ وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کے دفتر
رابطہ کیاگیا کہ وہاں سے فری ٹریٹمنٹ کالیٹر حاصل کرکے سلیمان کی جان بچائی
جائے ‘ وہاں کے ذمہ داران نے یہ کہتے ہوئے فری ٹریٹمنٹ کالیٹر دینے سے
انکار کردیا کہ نئے پاکستان میں کسی کو مفت علاج کی سہولت فراہم نہیں کی
جاسکتی ۔ مایوسی اورناامیدی کے عالم میں سلیمان کی اہلیہ جو بیچاری اپنے
شوہر کی زندگی بچانے کے لیے ہر دروازے پر دستک دے رہی تھی وہ دھاڑیں مارتی
ہوئی گھر واپس آگئی ۔ اب سلیمان کی زندگی کو بچانا تقریبا ناممکن ہوچکا تھا‘
سلیمان کی صحت دن بدن خراب سے خراب ہوتی جارہی تھی ۔دل کا دورہ پڑنے کے
ساتھ ساتھ اسے فالج کامرض بھی لاحق ہوگیا ۔ 18 فروری 2020ء کو سلیمان ایک
بار پھر شیخ زید ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل کروادیاجہاں پانچ دن بے ہوش
رہنے کے بعد 23فروری 2020ء کی صبح ساڑھے پانچ بجے محمد سلیمان صدیق اس بے
رحم دنیا سے روٹھ کر ایک ایسی دنیا میں جا پہنچا جہاں سے کوئی واپس نہیں
آتا ۔سلیمان کا والد تو پہلے ہی فوت ہوچکا ہے‘ اب بوڑھی ماں ‘ بیوی اور تین
بچوں کی کفالت کون کرے گا اور کون ان معصوم بچوں کے سرپر دست شفقت رکھے گا
‘ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ غربت اور بے وسائلی سب سے بڑی
بیماری ہے جو انسانوں چپ چاپ نگل جاتی ہے ‘ مرنے والے تو قبروں میں اتر
جاتے ہیں لیکن جو لواحقین زندہ رہتے ہیں ان کی زندگی ‘ موت سے بدتر ہوجاتی
ہے ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ نیا پاکستان اس خاندان پر قیامت بن
کر گرا اور خاندان کی خوشیوں کو مالی پریشانیوں اور اداسیوں میں بدل کر
چلتا بنا ۔ |