ملک بھر میں دہشت گردی کے خاتمے و شدت پسندوں کی پناہ
گاہوں کے خاتمے کے لئے ریاست کی جانب سے موثر آپریشن کئے گئے ۔ سوویت ،
افغان جنگ کے بعد ایک بڑی تعداد نے پاکستان میں ایسی پناہ گاہیں قائم کرلیں
تھی ، جو جنگ کے خاتمے کے بعد بھی موجود رہیں اور بتدریج امریکا ، افغان
جنگ کے بعد پاکستان کے خلاف بھی شدت پسندوں میں مخصوص مفادات کے لئے دہشت
گردی کی کاروائیوں میں اضافہ کردیا ۔ قبائلی علاقوں سمیت ملاکنڈ ڈویژن ،
سوات ، بونیر ، شانگلا دیر بالا ، دیر زیریں ، مہمند ایجنسی ، خیبر ، شمالی
و جنوبی وزیر ستان سمیت بلوچستان و ملک کے دیگر حصوں میں حکومتی رٹ کو
چیلنج کئے جانے لگا ، بالخصوص شمال ، مغربی علاقات میں شدت پسندوں کی
کاروائیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔ سوات ، بونیر اور وزیر ستان جیسے علاقوں
میں شدت پسندوں میں خو د ساختہ ریاستیں قائم کرلیں ، ریاست نے دہشت گردی کے
خاتمے اور شدت پسندوں کہ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لئے ، آپریشن راہ نجات ،
آپریشن راہ راست ، آپریشن خیبر ون ، ٹو ، آپریشن راجگال اور آپریشن ضرب عضب
شروع کئے اور شدت پسندوں کی کمی توڑ دی ، تاہم ان آپریشنوں کی وجہ سے دہشت
گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی بڑی تعداد ملک بھر اور پڑوسی ممالک میں
روپوش ہوگئے اور مملکت کے خلاف دہشت گرد کاروائیوں کو جاری رکھا ، تاہم
دہشت گردی کے بڑے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی اور90فیصد بڑے سانحات ختم
ہوئے ۔ لیکن ضرورت اس اَمر کی رہی کہ شدت پسند و دہشت گردوں کا پیچھا کیا
جاتا رہے تاکہ مستقبل میں انہیں دوبارہ وطن عزیز میں ملک دشمن عناصر کے
ساتھ سازشوں کا موقع نہ مل سکے ۔ اس کے لئے 22فروری2017کو ریاست کی جانب سے
آپریشن رد الفساد شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور سیاسی جماعتوں سمیت اہم
اداروں و اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لے کر ٹارگٹڈ آپریشن کا سلسلہ شروع کردیا
گیا ۔
عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ دس ماہ کے دوران آپریشن ردالفساد کے تحت
ملک بھر میں 69 بڑے آپریشن اور 18 ہزار سے زیادہ انٹلیجنس معلومات پر مشتمل
کارروائیاں کی گئی ہیں جس میں 20 ہزار چھوٹے بڑے ہتھیار برآمد کے گئے۔ جب
کہ ملک بھر میں آپریشن ردالفساد کے تحت ایک لاکھ 49 ہزار سے زائد انٹیلی
جینس آپریشنز کیے گئے ۔انسداد دہشتگردی کی جنگ میں 2001 سے 2020 تک صرف
کراچی میں 350 سے زائد بڑے اور 850 سے زائد معمول کے آپریشنز ہوئے۔اعداد و
شمار کے مطابق شہر قائد کراچی کی روشنیاں بحال ہوئیں اور جرائم کی عالمی
درجہ بندی میں شہر چھ سے 91 ویں نمبر پر آگیا۔آپریشن ردالفساد کے تحت 22
فروری 2017 سے 2020 تک کل تین ہزار 800 سے زائد خطرات کے انتباہ جاری ہوئے۔
گزرے سالوں میں سیکیورٹی فورسز اور انٹیلی جینس اداروں نے دہشتگردوں کے 400
سے زائد مذموم منصوبے ناکام بنائے جب کہ فوجی عدالتوں نے 344 دہشتگردوں کو
سزائے موت دی، 301 کو مختلف دورانیے کی سزائیں سنائیں جب کہ پانچ کو بری
کیا۔اسی آپریشن کے دوران پاک، افغان سرحد پر 2611 کلومیٹر میں سے 1450
کلومیٹر پر باڑ کی تنصیب مکمل کر لی گئی ہے جب کہ سرحدی باڑ کے ساتھ 843
حفاظتی قلعوں میں سے 343 مکمل ہوچکی ہیں اور 161 زیر تعمیر ہیں۔ آپریشن رد
الفساد کی کامیابیوں کی وجہ سے ملک بھر ثقافتی و راویتی سرگرمیوں کا پُرامن
آغاز شروع ہوا ۔ پاکستان سپر لیگ کا پورا سیزن اس وقت پاکستان میں منعقد
ہورہا ہے ، برطانیہ، امریکا سمیت کئی ممالک نے پاکستان کے لئے اپنی سفری
انتباہ میں تبدیلی کی اور پاکستان کو اپنے شہریوں کے لئے محفوظ ملک قرار
دیا ، برٹش ایئرویز نے دس برسوں بعد پاکستان سے اپنی بین الاقوامی پروازوں
کو بحال کیا ، اس کے لئے ایک نئی ائیر لائن بھی پاکستان میں آپریشنل ہوئی ،
اقوام متحدہ ن اسلام آباد کو فیملی اسٹیشن قرار دے کر وفاقی دارالحکومت کو
سب سے پرامن شہر تسلیم کیا ہے۔ اقوام متحدہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوئترس نے
بھی برملا پاکستان کی امن کاوش کی تعریف کی ،امریکی سینیٹر جان مکین اور
لنزے گراہم بھی پاکستانی کاوش کے معترف رہے ہیں۔ سابق برطانوی چیف آف جنرل
اسٹاف جنرل نکولس کارٹر اور سفارتکاروں نے اس پاکستانی کردار کو سراہا ہے
جو وہ قیام امن میں ادا کررہا ہے۔آپریشن رد الفساد میں ففتھ جنریشن وار کے
خلاف بھی موثر حکمت عملی اختیار کی گئی اور نئی نسل کو گمراہ کن پروپیگنڈے
سے بچانے کے لئے ملک گیر سطح پر کام کیا گیا ۔ اس وقت پاکستان میں امن کے
اس ماحول کے پیش نظر ، عالمی سرمایہ کاروں کی توجہ دوبارہ پاکستان کی جانب
مبذول ہو رہی ہے ۔
آپریشن ردالفساد صرف پاک فوج کے جانباز ہی نہیں کررہے تھے بلکہ ملک ہے ہر
شہری کو آپریشن رد الفساد کا حصہ قرار دیا ۔ عوام نے ریاست کی جانب سے کئے
جانے والے تمام آپریشنز کو کامیاب بنانے کے لئے اہم کردار و قربانیاں دی ،
انہیں جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑے ، اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ، لیکن
ملک میں امن کو مستحکم کرنے کے لئے تمام تکالیف کو خنداں پیشانی سے برداشت
کیا ۔ ملک دشمن عناصر کے منفی پروپیگنڈوں کو ناکام بنایا ۔ کئی عشروں سے
بدا منی کا شکار کراچی ، جو کہ ملک کی معاشی شہ رگ ہے ، روشنیوں کے شہر کے
رونقوں کو بحال کردیا گیا ۔ خوف و بدامنی کو دفن کردیا ۔ بھتہ خوری ، ٹارگٹ
کلنگ سمیت اغوا برائے تاون جیسے وارداتوں کو قلع قمع کیا ۔ یہ ریاست کی سب
سے بڑی کامیابی ہے کہ وزیر ستان و کراچی میں دہشت گردی کے اہم ٹھکانوں کو
ختم کیا اور عوام کو پُر امن ماحول فراہم کیا ، نام نہاد قوم پرستوں اور
لسانی تنظیموں نے امن کی فضا کو تباہ برباد کردیا تھا ، شہریوں میں عدم
تحفظ کا احساس بڑھتا جارہا تھا ، تاہم آپریشن رد الفساد کے بعد کراچی تیزی
سے امن کی راہ پر گامزن ہوا ۔ جس ثمرات سے پوری دنیا میں پاکستا ن کا مثبت
تاثر ابھر رہا ہے ۔ آپریشن رد الفساد کے تحت ملک بھر میں کاروائیاں کیں
گئیں ، آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن رد الفساد کے تحت بلوچستان کے مختلف
علاقوں میں بھی خفیہ معلومات کی بنیاد پر دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں کی
گئی ہیں۔بلوچستان کے علاقے ٹوبہ نوخانی، ڈیرہ مراد جمالی، اچ، سنجسیلا اور
چبدار سمیت کئی اضلاع میں کارروائی کے دوران بارودی سرنگیں، مواصلاتی آلات
سمیت ڈیٹو نیٹرز اور بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا جا
چکا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے پاکستان کو دفاعی و معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لئے
ریاستی اداروں و عوام کی قربانیوں کا اعتراف کیا جائے ، شہدا کو خراج عقیدت
و قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ساتھ دینے والوں کو خراج تحسین پیش کیا
جائے ۔ ملک کی سلامتی و بقا کے لئے ریاستی اداروں کی اسٹریجی عوام کی فلاح
و بہبود کے لئے ہوتے ہیں ، ملک دشمن عناصر سوچی سمجھی سازش کے تحت اداروں
سے عوام کا اعتماد کم کرنے کے لئے منفی پروپیگنڈوں کے لئے شتر بے مہار سوشل
میڈیا کا سہارا لیتے ہیں اور نئی نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،
واضح رہے کہ پاکستان امن کی راہ پر گامزن ہے ، ملک دشمن عناصر کو وطن عزیز
میں امن قبول نہیں ہے اس لئے سازشیں کرنے سے باز نہیں آتے ، پاکستان کی
عوام کو رد الفساد کا سپاہی بن کر وطن عزیز کو ملک دشمن عناصر کے مذموم
منصوبوں کو ناکام بنانا ہوگا کیونکہ یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔
|