تاریخِ عالم کا ایک ایسا صفحہ جس پہ ایک ایسے زبردست اور
نابغہ روزگار حاکم کی داستان رقم ہے جس کا کوئی ثانی اب تک پیدا نہ ہو سکا-
یہ حکمران بیک وقت حاکم عادل ، مومن کامل، عارف خدا ،سردار سپاہ، عابد
حقیقی، زاہد واقعی، مرد غازی اور ایسا لاجواب عالم ہے کہ جو کھلم کھلا یہ
کہتا نظر آتا ہے کہ " سلونی سلونی قبل ان تفقدونی : پوچھ لو مجھ سے قبل اس
کے کہ مجھ سے محروم ہوجاو". بھلا آج کہیں ہمیں ایسا حکمران نظر آتا یے ؟
●◇ جو حاکم بھی ہو اور عادل بھی. ؟
●◇ عابد بھی ہو اور مجاھد بھی.
●◇ امیری بھی رکھتا ہو اور فقر بھی .
●◇ میدان جنگ کی سخت طبیعت بھی رکھتا ہو اور لطیف فن کی نزاکت بھی.
●◇ کاشتکار و مزدور بھی ہو اور ماہر شعر و ادب بھی.
●◇ حاکم ہونے کے باوجود یتیم و محتاجوں کا خادم بھی ہو
●◇ کماتا ہو لیکن بھوکا رہ کر اپنا حصہ فاقہ کشوں کی نذر کرتا ہو....
ہے کوئی آپ کی نظر میں ایسا حاکم؟
یقیناً اگر ایسی کوئی ذات ہے تو فقط وہی ہے جو خانہ خدا (کعبہ) میں پیدا
ہوئی اور تقریباً ساٹھ سال گزار کر خانہ خدا(مسجد ) میں ہی وہ ذات رخصت
ہوئی. اس کے بعد یہ زمین بانجھ ہوگئی کہ اب تک ایسا انسان پیدا نہ کر
پائی... تاریخ انسانیت اس شخصیت کو علی ابن ابی طالب ع کے نام سے جانتی ہے.
جس نے فقط چار سال اور کچھ ماہ سر زمین عرب پر ایسی لاجواب حکومت کی کہ
حکومت و حکمران کا اصلی روپ لوگوں کو دکھایا اور عملی و ٹھوس اقدامات کے
ذریعے یہ بتایا کہ حقیقی حاکم، امیرانہ شان و شوکت اور شاہی ٹھاٹھ باٹ کو
چھوڑ کر قوم و ملت کا نوکر بن کر ان کی ضرورتوں کو کس طرح پورا کرتا ہے.
چنانچہ ایک دفعہ ان کے ساتھ یوں ہوا کہ لوگوں کے درمیان یہ دیکھنے گئے کہ
کیا سبھی لوگ اپنی ضروریات کو پوری کرپارہے ہیں یا نہیں تو انہیں ایک جگہ
ایک ایسا گھر ملا جس میں ایک عورت اور کچھ بچے تھے، گھر میں کھانا نہ ہونے
کی وجہ سے وہ عورت بہت پریشان تھی. ماجرا سناتے ہوئے کہتی ہے کہ " بچے بھوک
کے مارے سو بھی نہیں پاتے اب میں نے یوں ہی کچھ پتھر دیگ میں رکھ کر چولہے
پہ چڑھائے ہیں تاکہ بچوں کا دل اتنی دیر بہل جائے اور وہ اسی انتظار میں سو
جائیں" جب یہ جگر سوز باتیں سنیں تو حضرت علی المرتضی نے فرمایا کہ میں کچھ
انتظام کرتا ہوں، نکل پڑے اور کسی کے ہاں مزدوری کرکے بدلے میں آٹا لے کر
عورت کے گھر واپس آئے اور فرمایا "یہ لو روٹی پکا لو میں تب تک بچوں کو
بہلاتا ہوں" اور جب تک سب نے اچھے سے کھانا نہیں کھایا وہاں سے گئے نہیں.
اس عورت کو یہ تک معلوم نہ ہونے دیا کہ وہ شخص حاکم وقت ہے اور کتنی ہمدردی
سے اس کی حاجت پوری کی-ایسے ہی اور ان سے بھی بڑھ کر بے شمار واقعات آپ کی
زندگی میں ملتے ہیں جس سے ان کی شخصیت اور طرز حکومت کا پتہ چلتا ہے- ان کا
تعلق ساتویں صدی عیسوی سے ہے جس وقت نہ تو علم و ہنر کی اتنی بھرمار تھی جو
کہ آج ہے، نہ ہی انسان سازی ،سماج و ملت سازی کی اتنی سہولیات فراہم تھیں
کہ جو ہمیں میسر ہیں- پھر بھی ہم سے اتنے آگے اور پیشرفتہ تر تھے کہ آج
اتنی سہولیات کے باوجود، دنیا ایسی شخصیت اور ایسی طرز حکومت کی نظیر پیدا
کرنے سے معذور ہے- ایسی شخصیت اور ایسے حکمران کو ہر زندہ ضمیر انسان آج
بھی تلاش کر رہا ہے-
لمحہ فکریہ :
ہمارے حکمران اگر ان صفات میں سے فقط ایک صفت جیسےکہ "عدل" کا ہی مظاہرہ
کرتے تو بھی بڑے کمال کی بات ہوتی... موجودہ حکمران تو کبھی اس راستہ پہ
چلیں گے نہیں، کیونکہ انہیں عدل و انصاف سے نہیں اپنے نام، عزت و شہرت سے
کام ہے- یاد رہے کہ حاکم کو عموماً لوگ ہی چنتے ہیں لہذا یہ لوگوں کی ہی
ذمہ داری ہے کہ انصاف پسند حاکم کو منتخب کریں وگرنہ حکماء کے ساتھ ساتھ
منتخب کرنے والی رعایا بھی ظلم و زیادتی میں برابر کی شریک ہے- **** |