ویسے تو آپ سبھوں کو معلوم ہے کہ ہم کسی سے ڈرتے ورتے
نہیں ہیں آپ کو یقین تو نہیں آئے گا مگر ہم بالکل سچ کہہ رہے ہیں کہ 3 مارچ
سے پہلے تک ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ماروی سرمد مسلمان ہے نام کی ہی سہی ۔
ہم تب تک یہی سمجھتے تھے کہ ایک ہندو عورت نے مسلمان مرد سے شادی کرنے کے
لیے کلمہ تو پڑھ لیا ہے مگر وہ بدستور اپنے مذہب پر قائم ہے ۔ اکثر ہی
تصویروں میں اسے ساڑھی اور بندیا لگائے دیکھا ۔ ہاتھ میں سگریٹ اور شراب کی
بوتل تو ایک تصویر میں اسے مندر میں مورتیوں کے سامنے بیٹھی پوجا میں مشغول
دیکھا ۔ اور اس کی آئے دن کسی نا کسی کے ساتھ جھڑپ اور منہ ماری سے متعلق
پوسٹیں بھی گاہے بگاہے نظر سے گذرتی رہی تھیں ۔ مگر اس سے زیادہ جاننے کی
اور اس کے بارے میں تحقیق کرنے کی ہمارے پاس بھی فرصت نہیں تھی ۔
اس کے خلیل الرحمٰن قمر سے سے جھگڑے کے بعد فیس بک پر جو پہلی پوسٹ ہماری
نظر سے گذری اس پر ہم نے کمنٹ لکھا کہ خلیل الرحمٰن قمر کو ضرورت کیا تھی
ایک ہندو عورت کے منہ لگنے کی؟ چند ہی لمحوں بعد اس پر ایک حیرت بھرا
ریپلائی آ گیا کہ ماروی سرمد ہندو ہے کیا؟ جب پوچھنے والے کا پروفائل چیک
کیا تو وہ خود ایک اچھا خاصا بڑا پیج تھا ۔ تب ہم نے اپنے قیمتی وقت میں سے
کچھ لمحے نکال کر ماروی سرمد کو گوگل کرنے کا شرف بخشا تو معلوم پڑا کہ اس
کا اصلی نام شازیہ انور ہے اور وہ 1960 کو انڈیا میں پیدا ہوئی تھی ۔ یعنی
اس وقت وہ ساٹھ سال کی ہے ، ہمارے ہاں کی اکثر فیمیل سیلیبریٹیز ساٹھ سال
کی عمر میں شدت صدمہ سے اپنے حواس کھو بیٹھتی ہیں یعنی سٹھیا جاتی ہیں اور
اپنی عمر رسیدگی کے غم کو کم کرنے کے لیے زیادہ تر اپنے کپڑے کم کر دیتی
ہیں مگر کچھ اس سے بہت پہلے اپنے چالیسویں کے بعد ہی جوان نظر آنے کی کوشش
میں ہلکان ہوئی رہتی ہیں ۔ ماروی سرمد کا تعلق شو بز سے نہیں ہے اس لیے وہ
مذہب سیاست فوج سماج اور انسانی حقوق وغیرہ وغیرہ سے متعلق امور پر اپنی
زبان کا بےدریغ استعمال کرتی ہے اور سامنے والے کو اتنا طیش دلا دیتی ہے کہ
اچھا خاصا معقول آدمی نا معقولیت اور بد زبانی پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
حافظ حمداللہ والا قصہ کس کو یاد نہیں؟ اور پھر ہر کوئی علی محمد خان یا
اوریا مقبول جان نہیں ہوتا ۔ اس بار پالا پڑا خلیل الرحمٰن قمر سے جن کے
بعض رشحات قلم سے خود ہمیں بھی اختلاف ہے اور انہوں نے جو شدید قسم کی گالم
گلوچ کی اس کی تائید نہیں کریں گے مگر انہیں قابل گردن زدنی بھی نہیں
ٹھیرائیں گے ۔ یہ بندہ جو بھی ہے جیسا بھی ہے اس نے اپنے سامنے والی کے
مؤقف کو بالکل خاموشی سے اور بِنا قطع کلامی کے سنا اور اپنی باری پر بات
بہت ادب و احترام کے ساتھ شروع کی ۔ مگر ماروی سرمد مسلسل دخل اندازی کرتی
رہی اور نا زیبا فقرے اچھالتی رہی پھر قمر کا رد عمل بالکل فطری تھا اس نے
بھی ٹیپیکل دیسی مردوں کی طرح مغلظات کی برسات کر دی اتنی نوبت کیوں آئی
سوال یہ ہے کہ قمر کی باری میں ماروی نے اپنی چونچ بند کیوں نہیں رکھی؟ مگر
یہ چونچ بہت چونچال ہے اور ٹوئیٹر پر بھی بھونچال برپا کیے رکھتی ہے اور
پاکستان سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی وہاں کی عورت کے نام نہاد حقوق کے
حصول کے لیے انہیں سڑکوں پر نکلنے لیے اکسانے میں پیش پیش رہتی ہے ۔ خوشحال
اور مغرب زدہ طبقے کی فیشن ایبل اکثریت مطلقہ عورتیں اپنے گھر کے مسئلے
اپنے گھر میں ہی حل کرنے کی بجائے خود اپنے مردوں کو 8 مارچ والے دن للکار
رہی ہوتی ہیں ۔ اِن کے خصم اِن کی مرضی وہ بیچارے انہیں کیا پیر کی جوتی
بنائیں گے خود اِنہوں نے اُنہیں اپنے جوتے کی نوک پر رکھا ہوتا ہے ورنہ
مجال ہے کہ یوں ڈنگروں کی طرح سڑکوں پر دندنائیں ۔ ایسی ایسی بدمعاش عورتیں
ہیں جو خود اپنے گھر میں کام کرنے والی غریب مصیبت زدہ مجبور ملازماؤں کو
اپنے کُتے کے برابر بھی نہیں سمجھتیں یہ کس منہ سے انسانی حقوق کی بات کرتی
ہیں؟ ایک عام پاکستانی عورت کے حقیقی مسائل و مصائب سے انہیں کوئی سروکار
ہے نا علاقہ ۔ ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے صرف فحاشی اور بےحیائی کو پروموٹ
کرنے کا ، ایک سرپھرے نے اپنے کسی نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر ان ہرزہ
سرائیوں کا منہ توڑ جواب دیا ۔ اوپر ٹائیٹل میں ہم نے اسے نہیں خود اپنے آپ
کو للکارا ہے کہ چل اٹھ لکھ ڈال حق سچ پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے؟ |