ایک ہندی فلم کا ڈائیلاگ ہے کہ کوئی دھنداچھوٹا یا بڑا
نہیں ہوتا اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا ، بالکل اسی طرح سے پچھلے
کچھ سالوں سے ملک کے حالات بھی ہوچکے ہیں، لیکن یہ حالات فلمی نہیں بلکہ
حقیقی حالات ہیں ، ملک کے سیاسی حالات پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کااحساس
ہوگا کہ یہاں سیاست اصولوں کی نہیں کررہاہے بلکہ سیاست اپنے مفادات کی
کررہاہے ، جن لوگوں کو سیکولر سمجھ کر الیکشن میں جتوایا جاتاہے وہ اچانک
کمیونل ہوجاتے ہیں اور فسطائی طاقتوں سے ہاتھ ملا بیٹھتے ہیں تو کچھ ایسے
لوگ ہیں جو زندگی بھر آر یس یس کی چڈی پہنے ہوئے رہتے ہیں لیکن جب ضرورت
پڑھتی ہے تو اپنے آپ کو سیکولر بنالیتے ہیں ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو
کوئی لیڈر سیکولر یا کمیونل نہیں ہوتا بلکہ مفاد پرست اور موقع پر ست ہوتا
ہے ۔ کرناٹک ، گوا کے بعد اب مدھیہ پردیش میں جس طرح سے کانگریس کے اراکین
اسمبلی نے اپنے آپ کو سیاسی کوٹھوں پر بیچا ہے وہ ملک کی تاریخ میں سیاہ
داغ ہیں ، جن لوگوں نے کانگریس اور دوسری سیکولر سیاسی جماعتوں کو بھارتیہ
جنتا پارٹی جیسی فرقہ پرست پارٹی سے دور رکھنے کے لئے ووٹ دے کر کامیاب
بنایا تھا وہی لوگ اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے راتوں رات فرقہ پرست
پارٹیوں سے ہاتھ ملا بیٹھے اور انکا ہاتھ ملانا صرف اور صرف عہدے ، دولت
اور اقتدار کے لئے رہاہے ۔ وہیں مہاراشٹر میں دیکھا جائے تو شیوسینا جیسی
ہندوتوا وادی پارٹی جو کبھی کانگریس کے منہ نہیں لگتی تھی اور ملک کے زوال
کی وجہ کانگریس کو مانتے ہوئے کانگریس کا صفایا کرنے کے لئے ہمیشہ بی جے پی
کے ساتھ ہاتھ ملائی رہتی تھی وہی پارٹی اب بی جے پی کو اقتدار سے دوررکھنے
کا دعویٰ کرتے ہوئے کانگریس کے ساتھ ہاتھ ملاکر حکومت بنانے میں کامیاب
ہوچکی ہے ۔ دراصل اس لیوادیوی اور سودے بازی کے لئے جہاں ایک حد تک یہ مفاد
پرست سیاستدان ہیں وہیں عام لوگ بھی ہیں جو محض خود ساختہ طورپر اعلان کردہ
سیکولر سیاسی جماعتوں کے چنگل میں آجاتے ہیں ، سیکولرز م دراصل دھوکہ ہے ،
خاص طورپر مسلمانوں کے لئے یہ سیکولر پارٹیاں سوائے دھوکے کے اور کچھ نہیں
ہیں ۔ دہلی سے لے کر کیرل تک اور بنگال سےلے کر گجرات تک کا جائزہ لیں تو
ہر سیاسی پارٹی مسلمانوں کو سوائے ووٹ بینک کے کبھی انکا حق دینے کے لئے
تیار ہی نہیں ہوتی ، حق دینے کی بات تو دور انہیں تحفظ دینا بھی انکے لئے
قبول نہیں ہے ۔ دہلی میں پچھلے دنوں ہونے والے مسلم کش فسادات میں طاہر
حسین نامی عام آدمی پارٹی کے لیڈر کو جان بوجھ کر دہلی پولیس نے نشانہ
بنایا اور اسے فسادات کا ملزم بتاکر جیل بھیج دیا ، جس موقع پر کیجریوال
اور عام آدمی پارٹی کو طاہر حسین کی دفاع میں آگے آنا چاہئے تھا اس موقع
پر کیجریوال اور عام آدمی پارٹی نے طاہر حسین کا ساتھ دینے سے صاف انکار
کردیا ، اتر پردیش میں اعظم خان کی بات کریں تو وہاں پرسماج وادی پارٹی کے
لئے اعظم خان کیا کچھ نہیں کیا ، لیکن جب ان پر جھوٹے مقدمے لگ رہے تھے اس
وقت ملائم سنگھ اینڈ کمپنی نے اعظم خان کا ساتھ دینے کے بجائے انکے جیل
جانے تک انتظار کرتے رہے اور آخر میں جیل میں ملاقات کے لئے پہنچ گئے ۔
دراصل عام لوگوں کی یہی غلطی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور ان سیاسی جماعتوں
کے کچھ خریدے گئے لیڈروں کی باتوں میں آکر اپنے ووٹ کو قربان کردیتے ہیں
اور یہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہم نے سیکولر پارٹی کو ووٹ دے دیا ہے اور یہی
سیکولر پارٹی ہماری محافظ رہیگی جبکہ یہ یہ سیکولر پارٹیاں کبھی بھی اپنا
پینتر ا بد ل سکتے ہیں ۔ کرناٹک میں جے ڈی یس کے نام پر قائم شدہ خود ساختہ
سیکولر سیاسی جماعت ہے اور اسی پارٹی کو زمانہ یاد رکھے گا کہ کرناٹک
میںپہلی دفعہ بی جے پی حکومت کو اقتدار پر قابض کروانے کے لئے راہیں ہموار
کی تھی، اگر جے ڈی یس نے کرناٹک میں بی جے پی کے اشتراک سے حکومت کرنے کا
موقع نہ دیا ہوتا تو شایدآج کرناٹک میں بی جے پی کبھی اقتدار پر قابض ہوتی
۔اب ملک بھر میں ین پی آر اور سی اے اے کی مخالفت میں مسلسل احتجاجات
ہورہے ہیں ان میں سے اکثر احتجاجات سے نام نہاد سیکولر پارٹیاں غائب ہوچکی
ہیں اور دور دور تک انکا وجود ہی نہیں ہے جبکہ پورے ملک میں اگر قیادت
ہورہی ہے تو وہ خود مسلمانوں کی قیادت ہورہی ہے اس میں سے بھی خاص طورپر
عام لوگوں کی سوچ حکومتوں کو پریشان کررکھی ہے ۔ ین پی آر اور ین آر سی
جیسے مدعے یقیناََ قابل مخالفت ہیں ہی ساتھ میں اگر مسلمان متبادل قیادت کے
تعلق سے بھی سوچتے ہیں اور کسی ایسے سیاسی پلاٹ فارم کو تیار کرتے ہیں جس
سے مسلمانوں کے مسائل فوری طورپر نہ صحیح مستقبل میں تو حل ہونے کے امکانات
نظر آئیں تو یقیناََملک میں ایک نئی تبدیلی آئیگی ۔ آج سب کانگریس کوبھی
کوس رہے ہیں ، جے ڈی یس سے بھی دور ہیں ، یس پی و بی یس پی سے بھی نالاں
ہوچکے ہیں تو یہ بہتر وقت ہے کہ مسلمان ایک سیاسی پلاٹ فارم کو ترتیب دیں
اور آنے والے وقت میں ان خود ساختہ سیکولرسیاسی جماعتوں کو ہٹاکر اپنی
سیاسی طاقت بنائیں ۔ بھلے اس میں وقت لگے لیکن کامیابی ضرور ملے گی ۔ جس
وقت آر یس یس کی بنیاد پڑی تھی اس دوران آریس یس کے لیڈروں نے شاید ہی
سوچا ہوگا کہ وہ کبھی بھارت پر حکومت کرینگے لیکن انکی مستقل مزاجی اور
کوششوں نے انہیں آج ملک پر حکومت کرنے کا موقع دیا ہے جبکہ مسلمان قوم ان
سے کہیں زیاد ہ طاقتور ، چالاک اور ہمت والی ہے ، لیکن دوسروں پر اعتماد
کرنے کا جو لیول ہے وہ کچھ زیادہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے اپنے آپ پر وہ
بھروسہ نہیں کرپا رہے ہیں اگر وہ اپنے بازوئوں پر یقین کرنے لگیں گے تو
یقیناََ انکی کامیابی ہوگی ۔ |