بنگلہ دیشی عوام کا احتجاج رنگ لے آیا۔ گجرات اور دہلی کے
قاتل ہٹلر مودی نے بنگلہ دیش کا دورہ منسوخ کرنے میں عافیت جانی۔ انتہا
پسند مودی کو بنگلہ دیش کے سابق وزیراعظم مجیب الرحمان کی صد سالہ تقریب
میں سترہ مارچ کو حصہ لینا تھا
مظاہرین کا کہناہے کہ بنگلا دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے نریندر مودی
کا 17 مارچ کو ہونے والا دورہ منسوخ نہ کیا تو جس ائیرپورٹ پر بھارتی
وزیراعظم کا طیارہ اترے گا اسے گھیر لیا جائے گا۔
بھارتی وزیراعظم کے دورہ بنگلا دیش سے قبل پورے ملک میں مودی کے خلاف بڑے
پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ گزشتہ ماہ 27 فروری کو بھارتی
دارالحکومت نئی دہلی میں سیکڑوں ہندو انتہا پسند بلوائیوں نے مسلم آبادی
والے علاقے پر دھاوا بول کر مسلمانوں کے گھروں کو نذرآتش کیا تھا اور
خواتین اور بچوں سمیت 45 کے قریب افراد کو بے دردی سے قتل کر دیا
تھا۔امریکا، برطانیہ اور کینیڈا سمیت کئی یورپی ممالک میں ہندو انتہاپسندوں
کی غنڈہ گردی کے خلاف مظاہرے کیے گئے تھے جب کہ برطانوی رکن پارلیمنٹ نے
اسے مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کی منظم سازش قرار دیا تھا۔
بنگلا دیش میں بھی بھارت میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے خلاف بڑے پیمانے
پر مظاہرے ہوئے اور اب چونکہ بھارتی وزیراعظم نے بنگلا دیش کا دورہ کرنا ہے
تو ان مظاہروں میں شدت آ گئی ہے اور مظاہروں کا دائرہ کار پورے ملک میں
پھیل گیا ہے۔
ان مظاہروں کو روکنے کے لیے پولیس کی جانب سے لاٹھی جارچ اور آنسو گیس کا
استعمال بھی کیا گیا جس میں کئی مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔ جب سے مودی سرکار
نے بھارت کی بھاگ دوڑ سنبھالی ہے، بھارت اندرونی بیرونی مشکلات کا شکار ہے،
لیکن مودی اپنی ہٹ دھرمی پر ڈھٹائی سے قائم ہیں۔ قبل ازیں بھارت میں مسیحی
برادری پر بھی حملہ ہوا، بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتیں بھی تشدد کا
نشانہ بن رہی ہیں۔
اسی طرح ہندوستان میں نچلی ذاتوں اور اقلیتوں پر بڑے پیمانے پر جبر موجود
ہے اور تمام قوانین، کوٹہ سسٹم اور نام نہاد سیکولر ازم کے باوجود اس میں
کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ کوٹہ سسٹم کے ذریعے نچلی ذاتوں کی محرومی ختم
ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے اور اس ایشو پر سیاست کرنے والی پارٹیوں نے
بھی لوٹ مار کے سوا کچھ عملاً کچھ نہیں کر رہیں۔
مودی کی فسطائی قیادت سے واضح ہو چکا ہے کہمتنازعہ شہریت بل اور دیگر ایسے
ظالمانہ اقدامات کے ذریعے نچلی ذاتوں، اپنے ہی شہریوں کو ختم نہیں کیا جا
سکتا بلکہ خود ساختہ نظام نہ صرف اس جبر کو قائم رکھتا ہے بلکہ اس میں
اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔بھارتی فسطائی قیادت درحقیقت اس تضاد کو مذہبی
تضادات کی طر ح عوام کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے اور محنت کش
طبقے کی جڑت کو توڑنے کے لیے ان تضادات کو وقتاً فوقتاً جان بوجھ کر
بھڑکایا جاتا ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جا سکے۔
مودی کی پالیسوں سے ریاست کی حدود میں رہتے ہوئے کسی بھی آئین اور قانون کے
ذریعے ان تضادات کو حل نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان تضادات کو اب زیادہ شدت سے
بھڑکایا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے مودی کی کشمیر میں برترین لاک ڈاون، متنازعہ
شہریت بل، جنگی جنون کے خلاف بھارت کے اندر اور دوسرے ممالک میں مظاہروں،
احتجاج میں شدت آتی جا رہی ہے، تو نظر ثانی کے بجائے مودی کا جبر بڑھنے کے
ساتھ ہی، مذہب اور ذات پات کے نام پر دنگے اور فساد بڑھتے جا رہے ہیں۔
مودی کے دور میں جہاں ظلم و بربریت کی کھلی چھوٹ دی گئی اورتمام قوانین کو
بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں انسانیت دشمن کاروائیوں کی اجازت دی گئی وہاں
طبقاتی لڑائی کا رخ موڑنے کے لیے مذہبی فسادات، ذات پات کے نام پر قتل و
غارت اور بیرونی دشمن اور جنگ کے حربوں کو بھی پورے زور و شور سے استعمال
کیا جا رہا ہے۔ بیرونی دشمن کا خوف ابھار کر عوامی تحریکوں کو کچلنے کا
مودی سرکار کا ایک پرانا طریقہ کار ہے۔
آج بھی ہندوستان میں یہ طریقہ کار بھرپور انداز میں استعمال کیا جارہا ہے،
انتخابات سے قبل اور اب بھی بھارتی عوام کی ڈوبتی معیشت، ناکامیوں سے توجہ
ہٹانے کے لیے پاکستان کی حدود میں ایل او سی پر نہتے عوام، سول آبادی پر
فائزنگ کی جاتی ہے۔اور پھر وادی کشمیر میں صحافی حضرات پر تشدد، چشم کشا
حقائق سے آنکھیں چرانا، حقائق تسلیم نہ کرنا، حقوق سلب کرنا مودی سرکار کا
طرہ امیتاز بن چکا۔
لیکن ان تمام حربوں سے وقتی طور پر تو تحریک آزادی کشمیر، اپنے شہریوں کو
پسپا کیا جا سکتا ہے لیکن عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا
اس لیے وہ مسلسل ابھرتے رہیں گے اورمودی کے مسلط کردہ تعصبات کو چیرتے ہوئے
عوام عالمی سطح پر لے کر آئیں گے۔ کیونکہ
آج بھارت کو معیشت سمیت متعدد محازوں پر بدترین شکست کا سامنا ہے،جومودی کی
پالیسیوں کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مودی کی فسطائی قیادت کو اپنانے، غلط طریقہ کار نے خود بھارت کو ناقابل
تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ریاست کو جبر کے مزید مواقع فراہم کیے جا رہے
ہیں۔ہندوستان مضبوط جمہوری رویوں کے بجائے تباہی کا راستہ اختیار کیا ہے۔
جو کہ انتہائی پسماندگی کی کھائی میں گرنے کے ساتھ ساتھ متعدد دفعہ موقع
پرستی کا شکار بھی ہورہی ہیں۔ اس تمام تر غلط طریقہ کار کی بنیادمودی کا
نظریہ ہے جو پوری دنیا میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس سے باہر نکلنے کا واحد رستہ
آزادی رائے، جمہوری طریقہ کار ہے۔
اگر بھارت کی فسطائی قیادت کے فیصلے یوں ہی بے لگام رہے تو وہ وادی کشمیر،
اپنے ہی شہریوں، اقلیتوں پر زیادہ بد ترین حملوں کے ساتھ ہی ظلم و بر بریت
میں کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ایسے میں مذہبی بنیاد پرستی، جنگی
جنون، اقلیتوں اور مظلوم قومیتوں پر جبر میں اضافہ ہوگا۔ لیکن اس کے خلاف
مزاحمت اور تحریکوں میں بھی اضافہ ہوگا اور عوام اپنے حقوق کو چھیننے کے
لیے بار بار باہر نکلیں گے۔ یوں ہی مظاہرے پھوٹیں گے، اور شرمندگی کے
ہاتھوں دورے منسوخ ہوتے رہیں گے۔
عوام دشمن قوتوں کیخلاف بڑے پیمانے پر تحریکیں بھی نظر آئیں گی۔ انہی
تحریکوں میں ظلم و بر بریت کے نظام کے خاتمے کے نظریات کے پھیلاؤ میں اضافہ
ہوگا اورتحریک آزاد ی کشمیر کو کامیابی کے وسیع مواقع ملیں گے۔یہی قوتیں اس
خطے سمیت پوری دنیا سے خود ساختہ قوانین، فسطائی نظام کے خاتمے میں فیصلہ
کن کردار ادا کریں گی۔
مودی کی آر ایس ایس سوچ کو ختم کرنے، مقبوضہ کشمیر میں بدترین انسانی مظالم
کو فوری طور پر اٹھانے کے لیے عالمی برادری کو جاندار کردار ادا کرنا ہو
گا، تاکہ خطہ میں امن، مضبوط معیشت کا قیام، اقلیتوں کو تحفظ ممکن ہو
سکے،اور یہاں عوام کو حقیقی خوشی اور ترقی مل سکے۔
|