بھارت میں ہمیشہ سے ہی اقلیتوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک
کیا جاتا رہا مگر اس ظلم میں تیزی تب آئی جب بھارت کا وزیر اعظم نریندر
مودی بنا تب سے اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے خلاف بھارت میں ایک مخصوص فضا
قائم کی جا رہی ہے۔ بھارتی حکومت مذہبی جنونیت کو ہوا دینے کیلئے کبھی دہلی
فسادات کرارہی ہے تو کبھی متنازعہ شہریت قانون میں ترمیم کے ذریعے مسلمانوں
کی نسل کشی کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے تو کبھی جنت نظیروادی جموں و کشمیر کی
خصوصی حیثیت کو ختم کرکے کشمیریوں کی نسل کشی کا کھلا اعلان کررہی ہے۔اگر
دیکھا جائے تو بھارتی حکومت کا ہر منصوبہ مسلمانوں کے خلاف ہی ہوتا ہے اور
ہر منصوبہ پچھلے منصوبے سے اور بھی ذیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔بھارت کی ہمیشہ
سے یہی روایت رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو ختم کیا جائے اور بھارت
کو ایک ہندوتوا ریاست میں تبدیل کیا جائے ۔نریندر مودی جب گجرات کا
وزیراعلیٰ تھا تواس نے وہاں ہزاروں مسلمانوں کو ہندو دہشت گردوں کے ہاتھوں
شہید کرایا جسے پوری دنیا نے دیکھا تھا اورجب نریندر مودی وزیراعظم کے منصب
پر فائض ہوا تو سب میں یہ خیال پایا جارہا تھا کہ شاید اتنے بڑے منصب کے
تقاضوں کو دیکھتے ہوئے اس میں وہ پہلے والی بات نہ رہی ہو،شاید ان کی انتہا
پسندی کم ہو گئی ہو یا ان میں کوئی شرم کوئی حیا پیدا ہو گئی ہو،لیکن ایسا
نہیں ہوا بلکہ نریندر مودی کی انتہا پسندی پہلے سے ہزار گنا زیادہ ہوئی اور
جتنا ظلم نریندر مودی کی حکومت میں مسلمانوں پر کیا گیا شاید اتنا تاریخ
میں کبھی کیا گیا ہو۔مودی کے وزیراعظم بنتے ہی بھارت کی تمام ریاستوں میں
گائے کا گوشت بیچنے، اسے پکانے یا گائے کو حلال کرنے پر پابندی لگا دی گئی
اور جو ایسا کرتا بھی تو اُسے ہندو توا غنڈے سرعام موت کی گھاٹ اتار دیتے
اور اتاررہے ہیں ۔ مودی کے دور حکومت میں سینکڑوں مسلمانوں کو اس وجہ سے
قتل کر دیا گیا کہ وہ گائے کا گوشت بیچ رہے تھے،یا ان کے پاس سے گائے کا
گوشت برآمد ہوا تھا۔ اس دوران ہجوم کی جانب سے تشدد کے واقعات میں اضافہ
ہوا اور مسلمانوں کو صرف ان کے حلئے یا شناختی کارڈ پر نام کی بناء پر ہندو
انتہا پسندوں نے قتل کر دیا۔اگر دیکھا جائے تو مسلمان گزشتہ 1ہزار سال سے
برصغیر میں اپنی ایک علیحدہ شناخت بنائے ہوئے ہیں اور مسلمانوں نے برصغیر
پر ایک ہزار سال تک حکومت کی ۔مگر اس کا قلق آج تک انتہا پسند ہندوؤں کے
ذہنوں سے محو نہیں ہو سکا۔اس لئے ہندوؤں نے کئی با رشدھی اور شنگٹن جیسی
تحریکیں بھی چلائیں تاکہ مسلمان دوبارہ ہندو بن جائے مگر مسلمانوں نے ان
تحریکوں کا ڈٹ کر سامنا کیا مگر مودی نے اس بار جو کیا ہے وہ ایک
دہشتگردانہ اقدام ہے مودی نے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون میں خصوصاً
مسلمانوں کو ہی کیوں ٹارگٹ کیا؟ یہ ایک سوچنے والی بات ہے ۔مودی جو گجرات
کی وزات اعلیٰ سے مسلمان دشمنی کا عزم لے کر وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچا
تھا ۔اس نے ملک کو ہندو شناخت دینے کا فیصلہ کیا تا کہ مسلمانوں کے خلاف ان
کے ذہن میں جو بغض پایا جاتا ہے، اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔ مودی نے
ہمیشہ سے ہی اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھا اور اب تک اپنے اس خواب کو پورا
کرنے میں لگا ہوا ہے ۔جس کیلئے اُس نے سب سے پہلے تو آسام اور بنگال کے
اضلاع میں ہندو شہریت ثابت کرنے کے لئے ایک قانون پاس کیا کہ جس کے پاس باپ
دادا کی پیدائش کا ثبوت نہ ہوا،وہ بھارتی شہریت کا اہل نہیں ہو سکتا۔ اس
مقصد کے لئے این آر سی کا متناعہ قانون لایا گیا۔ جب آسام میں 19 لاکھ لوگ
اس کی زد میں آئے اور ان میں سے 13 لاکھ ہندو بھی نکلے تو انہوں نے سوچا یہ
قانون تو اُلٹا ہمارے ہی گلے پڑ گیا ہے، ہندو ووٹر ہمارے خلاف ہو جائے
گا۔مودی اور اس کے حواری پھر مل کر بیٹھے اور اس قانون کا توڑ لانے کا
فیصلہ کیا گیا تا کہ ہندوؤں کو مطمئن کیا جا سکے کہ مودی حکومت صرف
مسلمانوں کے خلاف ہے، ہندوؤں کے نہیں۔ اس کے بعد سٹیزن ایکٹ کے نام سے ایک
نیا قانون لایا گیا، جس میں صرف ہندو، سکھ،جین،پارسی اور عیسائیوں کو شہریت
دینے کی بات کی گئی،مسلمانوں کو شہریت دینے سے انکار کیا گیا۔ جب اس قانون
کے خلاف بھارت بھر کے ہوش مند طبقوں اور مسلمانوں نے احتجاج شروع کیا تو
کئی ریاستوں نے اس متنازع قانون کو منظور کرنے سے انکار کر دیا۔دہلی میں
مسلمان خواتین نے دھرنے دیے اور طلبہ نے اس قانون کے خلاف ریلیاں نکالیں تو
انتہا پسند ہندوؤں نے دہلی میں مسلمانوں کے محلوں پر دھاوا بول دیا اور
درجنوں مسلمانوں کو صرف مسلمان ہونے کی بنا پر نشانہ بنایا گیا،ان کے مال و
اسباب کو یا تو جلا دیا گیا یا پھر لوٹ لیا گیامگر یہاں پر افسوس کن بات یہ
ہے کہ یہ سب پوری دنیا نے دیکھا مگر دنیا صرف دیکھتی رہ گئی کوئی ایکشن
نہیں لیا گیا۔اس کے علاوہ مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم
گزشتہ 7ماہ سے ختم کی ہوئی ہے اور وہاں بھی تقریباً گزشتہ 7ماہ سے کرفیو
نافذ ہے۔اس دوران سینکڑوں کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتار ا گیا۔وادی میں
گزشتہ 2023روز سے کرفیو نافذ ہے اور انٹرنیٹ ، موبائل سروس اور لینڈ لائن
سروس پر مکمل پابندی عائد ہے اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ پر بھی پابندی عائد ہے
۔ سکول ،دفاتر ،یونیورسٹیز او رکالجز وغیر ہ بند ہیں ۔ہسپتالیں بھی بند ہیں
۔جہاں پر نہتے اور معصوم کشمیری خوراک نہ ہونے کے باعث موت کی وادی میں آئے
روز جارہے ہیں اور وہ زخمی کشمیری جو بھارتی افواج کے تشدد اور فائرنگ کی
وجہ سے زخمی ہوئے اُنہیں اودیات نہیں مل رہی جس کی وجہ سے وہ مررہے ہیں ۔
اب اگر دیکھا جائے تو مودی نے اکھنڈ بھارت کا جو خواب دیکھا تو وہ ہمیشہ
کیلئے ادھورا ہی رہے گا وہ کبھی پورا نہیں ہوگا۔مشہور ہے کہ جب گیڈر کی موت
آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کر لیتا ہے۔اس وقت مودی حکومت کے خلاف جس طرح کشمیر
میں آئے روز کرفیو کے باوجود مظاہرے ہو رہے ہیں اورکشمیری اپنی جانوں کا
نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ کشمیر اس وقت ایک آتش
فشاں بن چکا ہے،جس روز بھارتی حکومت نے کشمیر سے کرفیوکو ہٹایا، یہ آتش
فشاں ایسا پھٹے گا کہ پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔بھارت میں اس وقت
علیحدگی کی درجنوں تحریکیں چل رہی ہیں اور ان سب میں بڑی تحریک کشمیر کی
ہے،کشمیر کے علاوہ بھی اور کئی تحریکیں ہیں مثلا ً خالصتان اور تامل ناڈو
کی تحریک وغیرہ ، اس کے علاوہ بھارت میں اس وقت مسلمان بھی بھارت کے مسلم
دشمن اقدامات کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ بہت جلد بھارت میں
ایک نیا پاکستان بن جائے۔ |