گذشتہ دنوں ایک قریبی عزیز کی تیمار داری کے دوران کچھ
ایسے مناظر نظر وں سے گذرے کہ جنہیں فراموش کرنا ممکن نہیں ۔ افسوس سے کہنا
پڑتا ہے کہ ہمارے شِفا خانے انسانی مذبحہ خانوں میں تبدیل ہوتے جارہے جہاں
نہ صرف مریضوں کو ذبحہ کیا جارہا ہے بلکہ انسانیت کو بھی قتل کیا جارہا ہے
۔ ہمارے عزیز جنہیں کچھ سانس پھولنے کی شکایت محسوس ہوئی تو شہیدِ ملت روڈ
پر واقع ایک نجی اسپتال میں معائنہ کی غرض سے گئے ، جہاں ڈاکٹر نے ان کا
معائنہ کرنے کے بعد فوری طور پر انہیں سی سی یو میں داخل کرلیا اور فوری
طور پر ایک لاکھ روپے جمع کرانے کا کہا تاکہ مریض کے دل کی انجواگرافی کی
جائے ، مطلوبہ رقم جمع کرانے کے بعد مریض کی ٹانگ میں سوراخ کرکے( ٹی پی
ایم ) عارضی پیس میکر لگادیا گیا اور ہمیں بتایا گیا کہ مریض کی ہارٹ بٹ
بہت کم ہے اب انجویگرافی ہونے کا بعد معلوم ہوگا کہ کیا مسائل درپیش ہیں ۔
انجو۔گرافی مکمل ہونے کے بعد بتایا گیا کہ مریض کے دل کی تین شریانیں بلاک
ہیں جن میں دو شریان 80 فیصد جبکہ تیسری قدرے کم بلاک ہے ۔ اب ہمیں بتایا
گیا کہ آپ کے پاس دو راستے ہیں ایک تو بائی پاس کرالیں دوسری صورت میں ہم
انجوکپلاسٹی کرکے شریان کو کھول دیں گے اور شریانوں میں انسٹنٹ ڈال دیں گے
جس سے خون کا بہاؤ بہتر ہوجائے گا اوردل کی رفتار عام انسان کی طرح ہوجائے
گی۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ہمیں بتایا گیا کہ آپ جوبیس گھنٹے میں فیصلہ
کرلیں کہ آپ کو بائی پاس کرانا ہے یا انسٹنٹ ڈلوانی ہے مریض کی عمر کم و
بیش 80 سال ہونے کی وجہ سے ہمیں بائی پاس کا فیصلہ کرنے میں دشواری ہورہی
تھی جس کی وجہ سے ہم نے دوسرے اسپتالوں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا اور طے
یہ ہوا کہ مریض کو کسی دوسرے اچھے اسپتال میں مزید علاج کی غرض سے منتقل
کیا جائے جب منتقلی کے فیصلے سے ہم نے اسپتال کی انتظامیہ کو آگاہ کیا تو
ہمیں بتایا گیا کہ ہم نے مریض کی ٹانگ میں جو ٹی پی ایم لگایا ہے اسے
نکالنا ہوگا جو انتہائی خطرناک ہوگا ۔ ہم نے اپنے مریض کو این آئی سی وی ڈی
لے جانا چاہا تو اسپتال انتظامیہ نے اس شرط پر حامی بھری کہ آپ کے ساتھ
ایمبولینس میں اسپتال کے عملے کا ایک فرد جائے گا جو دوسرے اسپتال میں
منتقل کرنے کے بعد ہمارا ٹی پی ایم مریض کی ٹانگ سے نکال لائے گا ۔ بات
معقول اور سمجھ میں آنے والی تھی سو ہم نے بھی اس پر اتفاق کیا ۔ لیکن یہاں
دشواری یہ آرہی تھی کہ کچھ عرصہ پہلے مریض کواسی قسم کی ایک تکلیف ہونے کے
باعث این آئی سی وی ڈی میں لے جایا گیا تھا جہاں انہیں تکلیف کی حالت میں
کئی گھنٹے تک ایک کرسی پر بٹھاکر علاج کیا گیا یہ وہ تکلیف دہ تجربہ تھا جس
بنا پر ہمارا مریض کسی صورت وہاں جانے کو تیار نہ تھا ۔
بہر حال اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے بحالت مجبوری یہ فیصلہ کیا کہ مزید
علاج اسی اسپتال میں ہی کرایا جائے ، اس فیصلے کے بعد مزید تین لاکھ روپے
جمع کرانے کا کہا گیا۔ اب ہم مجبور تھے سو یہ رقم بھی جمع کرادی گئی ۔اب
اگلی صبح انجیو پلاسٹی ہونی تھی شریانوں کے کھولنا تھا اور انسٹنٹس ڈلنی
تھی خدا خدا کرکے یہ اگلی صبح یہ مرحلہ مکمل ہوا اور ہمیں اطلاع دی گئی کہ
مریض کی شریانوں کو تو کھول دیا گیا ہے لیکن شریانیں اتنی پتلی ہوچکی ہیں
کہ اس میں انسٹنٹس نہیں ڈل سکیں کیوں کہ سائز میں سب سے چھوٹی انسٹنٹ سے
بھی چھوٹی شریان ہوچکی ہیں ہم اگر انسٹنٹ ڈالتے تو شریان برسٹ ہونے کا
اندیشہ تھا ۔ اب ہم مریض کو 48 گھنٹے نگہداشت میں رکھیں گے اور اس کے بعد
ٹی پی ایم کو معطل کرکے دیکھیں گے اگر ہارٹ بٹ نارمل رہی تو اسپتال سے فارغ
کردیا جائے گا ۔ ہمارے لیے ایک جانب تو یہ بات حیران کن تھی کہ جدید
ٹیکنالوجی ہوتے ہوئے انجیو گرافی کرنے کے بعد بھی ڈاکٹر وں کو یہ علم نہ
ہوا کہ شریانوں کا سائز کتنا ہے کیا ان میں انسٹنٹس ڈالی بھی جاسکیں گی کہ
نہیں دوسری طرف یہ بھی حیرت ہورہی تھی کہ اس دوران نہ جانے کتنے ٹیسٹ، کتنے
ایکسرے کرلیئے گئے یہاں تک کہ مریض نے کہا کہ مجھے پیٹ میں کچھ تکلیف محسوس
ہورہی ہے تو اس کا بھی الٹرا ساؤنڈ کرانے کا کہا گیا ۔ ہمیں کئی بار یوں
محسوس ہوا کہ یہاں علاج سے زیادہ تجربات کیے جارہے ہیں اور دانستہ اخراجات
بڑھائے جارہے ہیں ۔ خیر کسی طرح 48 گھنٹے گذرے تو ہمیں بتایا گیا کہ ہم نے
ٹی پی ایم ( عارضی بیٹری) معطل کر کے دیکھی ہے مریض کی ہارٹ بٹ نارمل نہیں
ہورہی ہے اب انہیں مستقل پیس میکر ( پی پی ایم ) لگنا ضروری ہے ۔اب پی پی
ایم لگوانا ہماری مجبوری تھی ۔ شعبہ بلنگ میں جاکر معلوم کیا کہ ہماری کتنی
رقم باقی ہے کیوں کہ اسٹنٹس تو ڈلی نہیں جس پر ہمیں بتایا گیا کہ انسٹنٹس
ڈلیں یا نہ ڈلیں یہ پیکج جارجز ہوتے ہیں جو دینے ہوتے ہیں مختصر یہ کہ نہ
صرف جمع کرائے گئے چار لاکھ روپے ختم ہوگے بلکہ مزید سولہ ہزار روپے ہمیں
اور جمع کرانے ہیں ۔یہ تمام باتیں انتہائی دل دکھانے والی تھیں ۔ اب ہم
مکمل پھنس چکے تھے بے بس تھے مجبور تھے اور مریض اسپتال کے رحم و کرم پر
تھا ۔
اس بے بسی اور مجبوری نے ہمیں یہ فیصلہ کرنے پر بھی مجبور کیا کہ ٹھیک ہے
آپ لگائیں پی پی ایم ۔ مستقل پیس میکر لگانے کے لیے مریض کے سینے کے اوپری
حصے میں بائیں جانب ایک چھوٹا سا کٹ کر کے جلد کے اندر یہ ڈیوائس لگادی
جاتی ہے جس کے تار رگوں سے گذرتے ہوئے دل کے چیمبر کو سپورٹ کرتے ہیں ۔
ہمیں بتایا گیا کہ مریض کو ایک چیمبر کا پیس میکر لگے گا ۔ ہم نے صبح گیارہ
بجے پیس میکر لگانے کی رضامندی ظاہر کی اور شام چار بجے تک سینکڑوں بار
پوچھتے رہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ پیس میکر ڈیوائس پیکیج کتنے کا ہے تاکہ
ہم رقم کا انتظام کریں اور مزید کسی بھی قسم کی تاخیر سے بچ سکیں لیکن
افسوس کسی کو بھی رحم نہ آیا بلنگ میں بیٹھا ایک باریش شخص بھی مسلسل جھوٹ
بولتا رہا کہ ہمارا پیس میکر سپلائی کرنے والی کمپنی سے رابطہ نہیں ہورہا ۔
یہ کس طرح کی کمپنی تھی اور کس طرح کی اسپتال انتظامیہ جس کا دن کی روشنی
اور دفتری اوقات میں کمپنی سے رابطہ نہیں ہورہا تھا ۔ سب سے خراناک اور
افسوس ناک بات یہ تھی کہ دل کے مرض کا اسپتال ہونے کے باوجود اس کے پاس یہ
اہم ڈیوائس موجود نہیں تھی جہاں روزآنہ نہ جانے کتنے مریضوں کو اس کو لگانے
کی ضرورت پیش آتی ہوگی ۔ جب کافی بحث مباحثہ کے بعد ہم نے ان سے کہا کہ آپ
کسی دوسرے اسپتال سے پیس میکر منگالیں تو بتایا گیا کہ ہمارا کنٹریکٹ لیاقت
نیشنل اسپتال سے ہے اور وہاں بھی ڈیوائس موجود نہیں ۔ باقی این آئی سی وی
ڈی سمیت کسی بھی اسپتال سے ہمارا کنٹریکٹ نہیں ہے ۔
اب تک ہونے والی صورتحال ہمیں صبر کا دامن چھوڑنے پر مجبور کر رہی تھی ایک
جانب ہم لوگ پریشان تھے تو دوسری جانب مریض کی حالت بگڑ رہی تھی کیوں کہ اب
چار روز ہوچکے تھے ایک مریض کو ٹانگ میں ڈیوائس لگا کر ، یورین بیگ لگا کر
سیدھا لٹایا ہوا کروٹ تک لینے کی اجازت نہیں ۔ آخر صبر کا دامن چھوٹ ہی گیا
اور اب ہمیں اپنا لہجہ قدرِ سخت کرنا پڑا اور اسپتال انتظامیہ پر دباؤ
ڈالنا پڑا تاکہ حقیقت سامنے آئے کہ ہو کیا رہا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ
ہمیں بتایا گیا کہ کمپنی کو ای میل کیا گیا تھا نہ کہ فون ، وہ صاحب مسلسل
جھوٹ بول رہے تھے کہ ہم پیس میکر سپلائی کرنے والی کمپنی سے فون پر رابطہ
کررہے ہیں جو ہو نہیں رہا ۔ اب ہمیں حقتکہ بتائی گئی کہ کمپنی نے انہیں
بتایا ہے کہ پیس میکر امریکہ سے آتے ہیں جہاں کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن
ہوگیا ہے اور کمپنی کے پاس اسٹاک موجود نہیں اس لیے ڈیوائس آنے میں ایک
ہفتہ سے بھی زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے ۔ اب ہمیں یقین ہوچکا کہ یہاں علاج
نہیں صرف بزنس کیا جارہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جاسکے۔ جس کا
اندازہ ہمیں رقم کی ادائیگی کے وقت بھی پے آرڈر بنواتے بھی ہوا کہ ہمیں
انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا کہ پے آرڈر اسپتال کے نام سے نہیں بلکہ کسی
شخص کے نام سے جو یقیناًً اسپتال کے مالک ہوں گے بنوایا جائے۔
اب ہمیں ہر صورت میں یہاں سے مریض کو نکالنا تھا اب یہاں مزید ٹھہرنا جانی
اور مالی نقصان اٹھانے کے مترادف تھا ۔ ہم مریض کے اب تک ہونے والے علاج کی
ہسٹری بنواہی چکے تھے جس میں یہ بھی درج تھا کہ انہیں کون سی ڈیوائس لگنی
ہے ۔ ہم نے فوری طور پر وہ ہسٹری رپورٹ کی ایک کاپی اسپتال میں موجود اپنے
بھانجے کو دی کہ وہ فوری طور پر تبہ اسپتال جاکر پتا کرے دوسری کاپی اپنے
کزن کو روانہ کی کہ وہ این آئی سی وی ڈی اور این ایم سی سے پتا کرے جب کہ
ہم وہ رپورٹ لے کر لیاقت نیشل اور آغا خان اسپتال سے رابطہ کرتے رہے ۔ کافی
بھاگ دوڑ کے بعد این ایم سی سے ہمیں اطمینان بخش جواب ملا ۔ خدا کا شکر کہ
ایک اچھے قابل اور نفیس شخصیت کے مالک ڈاکٹر نے کہا کہ فوری طور پر آپ لے
آئیں ہم نے مریض کی ہسٹری دیکھ لی ہے ہمارے پاس ڈیوائس دستیاب ہے اور میں
خود آپریشن بھی کروں گا ۔ جانی بچی تو لاکھوں پایا ۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا
کرتے ہوئے اس اسپتال سے فوری طور پر تمام اخراجات چکتا کرنے کے بعد اپنے
مریض کو رخصت کرایا ایمبولنس بلائی اسپتال کے عملے کے ایک فرد کو ساتھ لیا
تاکہ وہ اسپتال پہنچنے کے بعد مریض کی ٹانگ سے اپنا ٹی پی ایم نکال لائے ۔
صبح سے پریشان ترین دن گذارنے کے بعد رات نو بجے کے قریب ہم اپنے مریض کو
این ایم سی لے آئے ۔ یہاں آنے کے بعد ہمیں وہی روایتی بات سننے کو ملی کہ
دو لاکھ پچاس ہزار روپے جمع کرائیں تاکہ علاج شروع کیا جاسکے ۔ اسپتالوں کے
اس رویہ سے ہم سب بخوبی آگاہ تھے اس واسطے زہنی طور پر تیار تھے ۔ رقوم جمع
کرادی گئی تیس منٹ کا آپریشن تھا پیس میکر لگادیا گیا اور دوسرے دن مریض کو
گھر جانے کی اجازت دے دی گئی ۔
اکثر قارئین کرام نے وطن عزیز میں ٹانگ پر بم باندھ کر لوٹنے کا ایک واقعہ
ضرور پڑھا ہوگا لیکن شاید ٹانگ پر ڈیوائس باندھ کر لوٹنے کا واقع ان کی
بصارتوں سے اس سے پہلے نہ گذرا ہو۔ان اسپتال میں گذرے ہوئے تمام دنوں میں
بہت کچھ دیکھا جس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ۔ ہم کس سمت جارہے ہیں
کس قدر بے حس ہوچکے ہیں ۔ شکر الحمداللہ یہ تو صاحبِ حیثیت تھے پریشانیاں
اور تکالیف تو ہوئیں لیکن علاج ہوگیا۔ بیماری امیری یا غریبی نہیں دیکھتی ،
غریبی تو ویسے بھی بہت دکھ دیتی ہے اسی میں اگر بیماری بھی تکلیف دینے لگے
تو غریب کہاں جائے ۔ کہاں سے لائے علاج و معالجہ کے اخراجات ، افسوس ٹرسٹ
کے ناموں پر بنے یہ اسپتال ٹرسٹ ہونے کی وجہ سے کروڑوں روپے کا ٹیکس تو
بچاتے ہیں لیکن کسی غریب کے علاج پر اسے خرچ کرنا گوارا نہیں کرتے ۔
یہاں حکومت کی بھی کوتاہی ہے کہ وہ ایسے اداروں کو کیوں نہیں چیک کرتی جو
ایک مرض کے علاج کے لیے مخصوص ہوتے ہیں مگر اس علاج سے وابستہ ضروری آلات
ہی ان کے پاس نہیں ہوتے ۔ ایسے ادارے ٹرسٹ کے نام پر حکومت سے سہولت تو
لیتے ہیں مگر عوام کو سہولت نہیں دیتے ۔ یہاں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ
ایسے تمام اداروں کے بارے میں تفصیلات اکھٹی کی جائیں اور انہیں پابند کیا
جائے کہ اگر وہ حکومت سے سہولت لیتے ہیں تو انہیں اس کے بدلے عوام کو سہولت
دینا ہوگی ورنہ انسانی زندگیوں سے کھیل کر کاروبار کرنے والوں کے خلاف
بھرپور کارروائی کی جائے ۔
|