میڈم شاہین رضا مخصوص نشست پر حکومتی رکن پنجاب اسمبلی
ہیں پچھلے دنوں انہوں نے ایک ایسا قابل تعریف کام کیا ہے جو بہت سے ارکان
اسمبلی کو برسوں اسمبلیوں کے رکن رہنے کے باجود نصیب نہیں ہوتا ، خاتون نے
ثابت کیا کہ خواتین اہلیت قابلیت اور جرات میں کسی بھی طرح مردوں سے کمتر
نہیں ہیں بلکہ انہوں نے حکومتی رکن ہونے کے باوجود ایک ایسے معاملے سے پردہ
اٹھایا ہے جسکا شاید ان حالات میں انکی پارٹی کے بعض ’’کھڑپینچ ‘‘ قسم کے
راہنما بھی یا دیگر لوگ سوچتے بھی نہیں اور یہ ہمیشہ راز ہی رہ جاتا ، جس
دن میڈم شاہین رضا نے پنجاب اسمبلی میں تحریک التوائے کار پیش کرتے ہوئے
مؤقف اختیار کیا کہ گوجرانوالہ پولیس کے اعلیٰ افسر پولیس ویلفیئر کے نام
پرایک ہاؤسنگ اسکیم چلا ر ہے ہیں جو کسی بھی لحاظ سے قانونی تقاضے پورے
نہیں کرتی تو اگلے دن کے اخبارات میں پی ٹی راہنماؤں اور بعض کاروباری
شخصیات کی جانب سے خاتون کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انکی
اپنی پارٹی کے راہنماؤں کا ایک پورا جتھہ تو آر پی او کے خلاف پنجاب اسمبلی
کا فورم استعمال کرنے پر جیسے آگ بگولہ ہی ہو گیا تھا، خبر ہے کہ بعدازاں
خاتون کی تحریک التوائے کار کے بعد جب پنجاب اسمبلی میں انکوائری کمیٹی
قائم کی گئی تو اسکے روبرو بیان میں آر پی او گوجرانوالہ نے برملا اعتراف
کر لیا کہ انہوں ڈسکہ کے قریب خریدی گئی زمین پر ہاؤسنگ سکیم کے لئے کوئی
سرکاری منظوری نہیں لی ہے ،معاملے کی پنجاب اسمبلی کی سطح پر انکوائری ابھی
جاری ہے اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ خاتون کو اپنا مؤقف بدلنے کے لئے سخت
دباؤ کا سامنا ہے کچھ بعید نہیں کہ وہ اپنی تحریک واپس لے لیں ،اگر کھڑی
رہیں تو اور بھی قابل تعریف بات ہو گی ، غالب امکان ہے کہ معاملے کو گول
مول کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہوں گیافسوسناک بات یہ ہے کہ بعض لوگوں
نے بلاتصدیق ہی خاتون کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا کیونکہ دوسری
جانب پولیس کے اعلیٰ افسر کا معاملہ تھا، ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ لوگ
حاضر سروس افسران کی جی حضوری کرنا مناسب سمجھتے ہیں ، اگر پولیس افسر ہو
تو پھر خوشامد ہزار گنا بڑھ جاتی ہے، پولیس افسران کو انکی اچھی کارکردگی
پر سراہنا کوئی بری بات نہیں اور پولیس افسران اور جوانوں کی ملک وقوم کے
لئے قربانیوں کا اعتراف بھی ضروری ہے لیکن تعریف اور خوشامد میں فرق ملحوظ
خاطر رکھا جانا چاہئے، تحریک انصاف کے تو بعض راہنما پولیس اور دیگر افسران
کے ساتھ تعلقات میں’’ بدنامی‘‘ کی حد تک مشہور ہو چکے ہیں ، انکی عوامی
نمائندگی اور ساری سیاست ان افسران کے در سے شروع ہوتی اور وہیں پر ختم ہو
جاتی ہے
میرے پیار کی عمر ہو اتنی صنم
تیرے نام سے شروع تیرے نام پہ ختم
انہی سطور میں پہلے بھی عرض کیا تھا کہ پولیس کی موجودہ قیادت نے
گوجرانوالہ پولیس کو عملی طورخیراتی ادارے میں بدل دیا ہے حالانکہ ادارے کے
پاس اپنے فنڈز کی کمی نہیں ، اور نہ صرف فنڈز ہی نہیں بلکہ کرنے کے لئے کام
کی اور چیلنجز کی بھی کمی نہیں ہے ، کرائم ریٹ میں مسلسل اضافہ اور
اشتہاریوں کی گرفتاریوں میں ناکامی گوجرانوالہ پولیس کے لئے بہت بڑا چیلنج
بنی ہوئی ہے ،یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال کے اختتام پر گوجرانوالہ پولیس جرائم
کی شرح کو باوجود استفسار کے سامنے لانے سے کتراتی رہی ہے، اور2020میں
پولیس جرائم کی شرح میں کمی کی بجائے ان پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دے
رہی ہے ، حالانکہ ایس ایچ اوز ایس ڈی پی اوز اور اعلیٰ افسران کی جانب سے
پریس ریلیزز کا طوفان برپا کیا جا رہا ہے جن میں انکی شاندارکارکردگی کی
داستانیں رقم ہو تی ہیں مگر لوگوں میں عدم تحفظ کم نہیں ہو رہا ، ہمارے ایک
کالم نگار بھائی شاہ جی ڈی ایس پی ریٹائر ہوئے ہیں مگر انکی تحریروں سے یوں
لگتا ہے کہ پولیس نے’’ انہیں عمر قید ‘‘کی سزا سنا رکھی ہے،ریٹائرمنٹ کے
بعد بھی آزادی جیسی نعمت سے محروم ہیں چنانچہ جس کام کا پولیس سے دور تک
بھی واسطہ نہ ہو وہ اسے بھی پولیس ہی کا کارنامہ قرار دیتے ہیں ،مجھے خدشہ
ہے کہ اس سال اگر کپاس کی فصل اچھی ہو گئی تو شاہ جی اس کو بھی پولیس کے
کھاتے میں ڈال کے ہی دم لیں گے ، لقمان عرف ہلاکو کی بیرون ملک سے گرفتاری
نے پولیس کا مورال یقینی طور پر بلند کیا ہوگا اور انہی سطور میں پولیس کی
حوصلہ افزائی بھی کی گئی تھی لیکن دوسری جانب جرائم کی وارداتیں کم ہونے کی
بجائے بڑھ رہی ہیں تھانوں میں رشوت کے ریٹ کئی گنا بڑھ گئے ہیں، صاف شفاف
تفتیش آج بھی ناممکنات میں سے ہے تفتیشی افسران سے سے اس قابل ہی نہیں ہیں
کہ کسی کیس کی تہہ تک جا سکیں ، شہر میں لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ
گوجرانوالہ میں ایک مدت کے بعد دیکھا گیا ہے کہ عوام نے پولیس کو خاطر میں
لائے بغیر بسنت کا فیسٹیول منایا اور پولیس والے سر عام قانون کی دھجیاں
اڑانے والوں کو روکنے میں بے بس رہی، قتل ڈکیتی چوری اورراہزنی کون سا ایسا
جرم ہے جوقابو میں ہے اور اس میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکی ہے ، موٹر
سائیکل چوری کی تو آدھی سے زائد ایف آئی آرز ہی درج نہیں کی جارہیں، ان
حالات میں پولیس اپنے اصل کام کو ڈھنگ سے کرنے اور اپنی کارکردگی بڑھانے پر
توجہ دینے کی بجائے مختلف قسم کی تقریبات کے انعقاد میں مصروف نظر آتی ہے ،
آدھے سے زائد افسران کو دانشور بننے اور لیکچر بازی کا جبکہ باقی کو لیڈری
کا مرض لاحق ہے ، سیاستدانوں کی طرح بڑی بڑی ہورڈنگز لگوانا پولیس والوں کو
جچتا نہیں ہے لیکن یہاں ہر وہ کام ہو رہا ہے جو پولیس کا کام نہیں ہے ،
پولیس مخیر حضرات سے فنڈریزنگ میں اتنی آگے نکل گئی ہے کہ بات اب غیر
قانونی ہاؤسنگ سکیم جیسے بہت بڑے سکینڈل تک جا پہنچی ہے ، اس بات کی بھی
تحقیقات کی جانی چاہئیں کہ مذکورہ پولیس آفیسر کوحکومت میں بیٹھے کس سیاسی
گروپ یا شخصیات کی حمایت حاصل ہے کیونکہ بغیر اہم حکومتی شخصیات کی سپورٹ
کے اتنا بڑا کام انجام دینا آسان نہیں،کہا جاتا ہے کہ زمیندار سے زمین سستی
لی گئی ہے ، زمیندار کو اسکے بدلے کیا فوائد حاصل ہوئے اور کن شرائط پر اس
نے زمین کو سستے داموں فراہم کیا اسکا جواب بھی ڈھونڈنا ہوگا ، اس بات کی
بھی تحقیق کی جانی چاہئے کہ کیا واقعی ماتحت افسران جن میں ڈی ایس پیز ،ایس
ایچ اوز وغیرہ شامل ہیں کو اعلی ٰ افسران کے دفاتر سے فون کر کے مذکورہ
سکیم کے پلاٹس خریدنے پر مجبور کیا جاتا رہا اور سینکڑوں پلاٹس فروخت بھی
ہو چکے ہیں،ہاؤسنگ سکیم سکینڈل مکمل اور اعلیٰ سطحی تحقیقات کا متقاضی ہے
کیونکہ پولیس قانون کی حد سے آگے بڑھ گئی تو اس کا لامحدود کردار معاشرے
میں سدھارکی بجائے بگاڑ کا سبب بن جائے گا ، قانون نافذ کرنے والے ادارے
فلاح اور سماجی خدمت کے نام پرخود غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو گئے
توعوام کو تحفظ کون دے گا ،افسران کو پولیس ملازمین کی فلاح مقصود ہے تو
اسکے لئے قانونی طریق کار اپنا یا جانا چاہئے ، یہ طے شدہ بات ہے کہ منظم
جرائم پولیس کی مرضی کی بغیر ممکن نہیں ہوتے ، پولیس کے لوگ جرائم کی
سرپرستی کریں اور معاشرے کے بدنام اور قانون شکن عناصر کے ساتھ ذاتی تعلق
بنا لیں تو پھر ان بدمعاشی کرنے والوں کو کون ہاتھ ڈالے گا جو پولیس کے
ساتھ وابستگی کو بطور ڈھال استعمال کرتے ہیں؟گوجرانوالہ پولیس کے بارے میں
مصدقہ اطلاعات ہیں کہ یہ ایک ڈسپلن فورس کی بجائے پولیس افسران کے مختلف
گروہوں میں بٹی ہوئی ہے ، چند ایس ایچ اوز نے تواپنے پسندیدہ محرر رکھے
ہوئے ہیں ،جہاں بھی جاتے ہیں ساتھ لے جاتے ہیں، جس کامقصد سمجھنا مشکل نہیں
ہے ، قانون نافذ کرنے والے ادارے زمینوں کے کاروبار کرنے لگ جائیں اور
افسران پراپرٹی ڈیلر بن جائیں تو قتل،ڈکیتی ،چوری ،راہزنی اوردیگر جرائم پر
کون دھیان دے گا ۔۔۔ یہ ہے وہ سوال جو آپ سب کے لئے چھوڑ رہا ہوں، علاوہ
ازیں گزشتہ روزتھانہ باغبانپورہ کے ایس ایچ عارف خان ایک حملے میں زخمی
ہوئے ہیں ، انکے لئے دعاؤں اورنیک تمناؤں کے ساتھ مشورہ بھی ہے کہ بغیر
حفاظتی تدابیر یعنی بلٹ پروف جیکٹ وغیرہ کے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف
کارروائیاں نہیں کرنی چاہئیں،ہماری پولیس تربیت اور صلاحیت کے اعتبار سے
بھی کافی پیچھے ہے۔
|