قوم کو گھبرانا نہیں

عصر حاضر کے امیر المومینین ایک دن کچھ کرنے کے موڈ میں تھے۔انہوں نے اپنے مشیران خاص میں سے ایک کو طلب کیا اور اسے کہا کہ وہ عوام کے مسائل کے حوالے سے پریشان ہیں اور اب کچھ ایسا کرنا چاہتے ہوں کہ عوام مجھے مدتوں یاد رکھیں۔ مشیر خاص نے ان کی طرف غور سے دیکھا اور ہاتھ جوڑ کر عرض کی کہ جناب خاص کی بات چھوڑیں اب تک عوام کے ساتھآپ نے جو کچھ عام کیا ہے اس سے بھی لوگ آپ کو ہر دم یاد کر رہے ہیں اور مجھے یقین ہے مدتوں یاد رکھیں گے۔ اب کچھ مزید اور وہ بھی خاص کا بوجھ شاید ان سے برداشت نہ ہو۔امیر المومنین نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ موجودہ حالات سے بہت پریشان ہیں۔ انہیں عوام کے مسائل کا احساس ہے اور وہ ان مسائل کا ٹھوس حل ڈھونڈھ رہے ہیں۔ان کے خیال میں مدینے کی ریاست میں حضرت عمر ؓ لوگوں کے حالات کا جائزہ لینے اور لوگوں کی مشکلات حل کرنے کے لئے رات بھر مدینے میں گشت کیا کرتے تھے۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ ایسا ہی کام کریں اورحلیہ بدل کر کسی شہر میں نکلیں اور دیکھیں لوگوں کو میری حکومت میں لوگوں کو کیا مشکلات ہیں اور ہم ان کو کس طرح آسودگی دے سکتے ہیں۔پھر انہوں نے فیصلہ سنا دیا کہ کل ہم دونوں فلاں علاقے میں چلیں گے اور رات بھر لوگوں کے حالات کا جائزہ لیں گے۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہماری حکومت نہیں اور سنا ہے وہاں کے لوگ بہت پریشان ہیں اور ہمیں تولوگوں نے منتخب ہی اس لئے کیا ہے کہ ہمیں ہر حال میں اپنے وسائل کے مطابق ان کی پریشانیاں دور کرنی ہیں۔

مشیر خاص نے امیر المومنین کی گفتگو سننے کے بعد کہا کہ حضور جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ آپ کا یہ فیصلہ کچھ زیادہ ہی خطرناک ہے، رسک نہ لیں۔جس علاقے میں آپ پہلے جانا چاہتے ہیں وہاں آپ کی حکمرانی نہیں۔اس علاقے کی صورت حال تو ویسے ہی خراب ہے ، وہاں کے حکمرانوں نے ہر شہر میں کتوں کو آزاد چھوڑ دیا ہے۔ ان کتوں نے کاٹ کاٹ کر ہسپتال بھر دیئے ہیں ، رات کوتو کتے مزید کتے ہو جاتے ہیں اس لئے کہ اس وقت ان کا مکمل راج ہوتا ہے اور اس وقت خطرہ بھی پورے عروج پر ہوتا ہے۔آپ جانا بھی رات کو چاہتے ہیں۔ یہ بھول جائیں کہ وہاں کے کتے وزیر اعظم جان کر رات بھر آپ کا احترام کریں گے ، جانور تو جانور ہوتا ہے اس سے خود کو بچانا پڑتا ہے۔ باقی رہ گئے ہمارے اپنے علاقے ، تو یاد رکھیں کتا تو شاید غلطی کر جائے یا نظر انداز کر دے اور آپ کو کچھ نہ کہے مگرہمارے علاقوں کی پولیس کے بارے کیا کہوں۔ رات بھر ناکہ لگا کر بیٹھے رہتے ہیں بس کوئی نظر آئے آوارہ گردی میں دھر لیتے ہیں۔ بندہ پیسے دے یاسیدھا حوالات میں۔ آپ قابو آ گئے تو پیسے تو آپ نکالیں گے نہیں اور اپنی جان بچانے کو ا گر آپ نے اپنا تعارف کرایا تووہ مانیں گے نہیں، ایک تو مذاق اڑائیں گے دوسرا حوالات میں بند کرنے سے پہلے معمول کی عزت افزا ئی کرنے سے باز بھی آئیں گے نہیں۔
مشیر خاص کی گفتگو سن کر امیر المومینین غصے میں آ گئے اور بولے، جا اوئے تو نالائق ہی ہے۔ اس وقت یہاں سے چل اورکچھ اور سوچ۔ مشیر خاص آرام سے واپس چلا گیا۔ امیر المومنین کی یہ صفت ہے کہ ناراضی اپنی جگہ مگر اپنے کسی مصاحب کو چاہے وہ جیسا بھی نالائق ہو نہ خود کچھ کہتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کو کچھ کہنے دیتے ہیں چاہے وہ نیب کا ادارہ ہی کیوں نہ ہو۔امیر المومنین کے ماتھے کی سلوٹین دیکھ کر اس وقت وہاں موجود مزاج شناس مصاحبین ہمہ وقت میں سے ایک نے عرض کیا، جناب فکر نہ کریں، بہتر ہے اسے اسی حال میں چھوڑ دیں ۔ آپ تو خود کہتے ہیں کہ کھوٹا سکہ بھی کبھی کام آ جاتا تو جہاں آپ کے ارد گرد آپ کے پروردہ اتنے کھوٹے سکے ہیں ، وہاں ایک اور سہی۔ ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ کا اصول آپ نے جہاں پوری قوم کو دیا ہے وہاں خود پر بھی نافد سمجھیں۔ بس گھبرانا نہیں۔ میں کوئی شاندار حل ڈھونڈتا ہوں ۔آ پ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

اگلے دن مصاحب مزاج شناس نے بتایا کہ امیر المومنین ،میرا ایک واقف ابھی ابھی یورپ سے آیا ہے ، فر فر انگریزی بولتا اور بہت مالدار ہے ۔اگر اسے مشیر رکھ لیا جائے تو نئے نئے آئیڈیاز سے آپ کو مالا مال کر دے گا۔ امیرالمومنین کے چہرے پر رونق آ گئی ۔ واہ واہ یورپ سے آیا ہے ، انگریزی بھی ٹھیک بولتا ہے اور خالص اے ٹی ایم ہے ،مطلب ملک کی معیشت کے ساتھ ساتھ ہماری پارٹی کی معیشت بھی شاندار ہو جائے گی، فوراً بلایا جائے۔ تھوڑی دیر میں ایک ممی ڈیڈی مخلوق وہاں موجود تھی۔ امیرالمومنین سے تعارف کرایا گیا کہ یہ ماہر معیشت ہیں اور بڑے کام کے آدمی ہیں۔ لمبی زلفیں کچھ کھویا کھویا انداز ، دماغی طور پر کچھ حاضر کچھ غیر حاضر۔ دیکھ کر امیرالمومنین نے فرمایا، مجھے تو یہ فلسفی لگتے ہیں۔ نووارد نے کہا کہ آپ نے ٹھیک فرمایا۔ دنیا کے عظیم فلسفی افلاطون ،جنہوں نے دنیا کو سیاسی رموز سے آشنا کیا اور جن کے خیال میں حکمرانی کے لئے موزوں تریں لوگ فلسفی ہونے چائیے، میں ان کا شاگرد ہوں ۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ معاشی بحالی کے لئے کچھ اچھوتا کام کرنا چاہتے ہیں۔ اب میں آ گیا ہوں تو کھبرانا نہیں کیونکہ اب فکر کی کوئی بات نہیں ۔ امیرالمومنین نے خوش ہو کر کہا، ’’اوئے ، تم اب تک کہاں تھے، جلدی بتاؤ کیا کیا جائے کہ لوگ خوش ہو جائیں‘‘۔

نوجوان فلسفی نے پہلے گول گول آنکھیں گھمائیں ،پھر منہ اونچا کیا اور بڑی سنجیدگی سے بولے ، ’’میں آپ کا مسئلہ سمجھتا ہوں۔ جرمنی بھی ایسے ہی مسائل سے دوچار تھا۔جو بھی چانسلر ہو پریشان رہتا تھامگر میرے مشوروں پر عمل کا نتیجہ ہے کہ آج وہ یورپ کی سب سے بڑی چار ٹریلین کی اکانومی ہے۔برطانیہ بھی آپ کو پتہ ہی ہے یورپ سے علیحدگی کے بعداس کے حالات بہت خراب تھے بس دو تین مشوروں کے بعد آج اس کی اکانومی 2.8 ٹریلین پر ہے۔ فرانس کی 2.8 ٹریلین کی اکانومی بھی میری آرا کے بغیر ممکن نہیں تھی۔اٹلی تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی اکانومی کبھی 2 ٹریلین پر جا سکتی ہے مگر ہمارا کمال دیکھیں کہاں پہنچا دیا ہے‘‘۔ امیرالمومنین نے خوش ہو کر کہا، ’’اوئے تو اس وقت تک کہاں تھا۔ ہمیں بھی بتا ہمارے لئے کیا مشورہ ہے‘‘۔فلسفی نے کہا ’’میرا کمپیوٹر اور دیگر چیزیں اس وقت اٹلی میں ہیں مجھے وہاں جا کر ان کو بتانا بھی ہے کہ میرے وطن کو میری ضرورت ہے اور اجازت بھی لینی ہے، ورنہ وہ کہاں ،کہیں اور جانے دیتے ہیں۔ اپنی چیزیں اور ان سے اجازت کے بعد میں مستقل آپ کاسرکاری عہدیدار۔ بس میرے جانے اورآنے کا بندوبست کر دیں۔ میرے واپس آتے ہی آپ کے تمام تر مسائل دنوں میں حل ہو جائیں گے‘‘۔فلسفی چار ہفتے کی مہلت لے کر اٹلی چلا گیا۔

پچھلے ہفتے امیرالمومنین نے اپنے مصاحب کو طلب کیا کہ تم نے ایک فلسفی ملایا تھا، جو چار ہفتے کے لئے واپس گیا تھا۔مسائل سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں ،وہ ابھی تک نہیں آیا، اسے بلاؤ، فوراً آئے۔ مصاحب نے ہاتھ باندھ کر عرض کی ، ’’جناب وہ تو آنے کو تیار ہے مگر ’’کرونا‘‘ ضد کر رہا تھا کہ وہ بھی ساتھ چلے گا۔میں نے منع کر دیا کہ بھائی پہلے اس سے جان چھڑاؤ پھر ہمارے پاس آنا۔ بہت اچھا اور ٹھیک کیا ہے۔ وہ ’’کرونا‘‘ ساتھ لے کر نہیں آ سکتا، امیر المومینین نے خوش ہو کر کہا۔ میرے جیسا ایک کالم نویس اس وقت وہاں بیٹھا تھا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا، ــ’’امیر المومنین!آپ کو اندازہ کیوں نہیں ہوتاکہ جب بھی کوئی غیر ملکی مشیر آتا ہے تو کوئی نہ کوئی روگ لازمی ساتھ لے کر آتا ہے۔ نئے مشیر کے ’’کرونا‘‘ سے آپ کو ڈر لگتا ہے، کبھی غور کریں، یہ سارے غیر ملکوں میں پروردہ مشیر اس قوم پر عذاب ہیں جو آپ نے پالے ہوئے ہیں۔ اپنی مٹی بھی بڑی زرخیز ہے کبھی اسے بھی آزما کر دیکھیں‘‘۔ امیر المومنین جلال میں آ گئے، اوئے پکڑو اسے یہ یقیناً لفافہ صحافی ہے اور مخالفوں کے لئے جاسوسی کرنے یہاں آیا ہے۔ ورنہ ہمیں غلط کہنے کی ہمت کیسے کرتا۔ہم کیسے غلط ہو سکتے ہیں۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442669 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More