اقوام متحدہ اندھی ہوسکتی ہے مگر دنیا نہیں !۔

ساڑھے چار ہزارسالہ طویل تاریخ کے حامل اس خوبصورت خطے جسے کشمیر کہتے ہیں، نے تاریخ کے ان گنت اتار چڑھاودیکھے۔ مقامی افراد و اقوام نے احسن طریقے سے اس کا انتظام و انصرام سنبھالا۔کئی بیرونی چیرہ دست بھی آئے اور برسوں تک یہاں کے مقامی باشندوں کا استحصال کرتے رہے۔کشمیر کی ساڑھے چار ہزار سالہ معلوم تاریخ میں سے محض 6 سو 66 سال ایسے ہیں جن میں یہاں بیرونی حکمرانوں کا تسلط قائم رہا۔اس سب کے باوجود تاریخ، عمرانیات اور سماجیات کے ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیر ہر دور میں اپنی ایک مخصوص تہذیب اور ثقافت کے ساتھ تاریخ کے صفحات میں زندہ رہا۔ یہاں کے حسین لوگوں نے پے در پے مظالم،ناختم ہونے والے المیوں اور مسلسل جبر کے ماحول میں بھی اپنے حواس نہیں کھوئے۔ اگر ہم تاریخ کشمیر کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ ایک وقت میں اسلام کی دعوت نے کشمیر میں ایک ایسا قدم جمایا کہ یہ پوری وادی اسلامی ریاست بن کر نئے سرے سے جگمگا اٹھی۔اسلام کی آمد سے قبل یہاں ہندوؤں کی حکومت تھی اورپھر1339ء میں یہاں پہلی باقاعدہ اسلامی حکومت قائم ہوئی۔1339ء سے لے کر1818ء تک کشمیر ایک اسلامی ریاست تھی۔1819 ء میں پنجاب کے اکثر علاقوں پر قبضہ کرنے والے مشہور زمانہ ظالم سکھ حکمران رنجیت سنگھ نے دولت رفاغنہ کے مسلمان حکمرانوں کے غدار درباریوں سے ساز باز کرکے ایک زبردست لشکر لے کر کھٹوعہ، جموں، راجوری اور پونچھ کو تاخت وتاراج کیا اور آگے بڑھتے ہوئے وادی کشمیر پر زور دار حملہ کیا جس کے نتیجے میں رنجیت سنگھ کی افواج جموں اور کشمیر پر قابض ہوگئیں۔1819ء سے 1845ء تک یہ وادی گل پوش سکھوں کے جابرانہ تسلط کے نیچے سسکتی رہی۔ بعد ازاں سیاہ دل انگریزوں نے اپنی انسان دشمن فطرت پر عمل کرتے ہوئے ریاست کشمیر کی نیلامی کا اعلان کردیا۔ چنانچہ جموں کے ایک ہندو جاگیردار گلاب سنگھ ڈو گرانے کشمیر کو لاکھ کے عوض خرید لیاتاہم مسلمانانِ کشمیر کی مزاحمت کی وجہ سے گلاب سنگھ ریاست پر عملاً قبضہ کرنے میں ناکام رہا حتیٰ کہ انگریز سپہ سالار مسٹر لارنس نے ایک بڑی فوج کے ساتھ کشمیر پر قبضہ کرکے اسے گلاب سنگھ کے حوالے کیا۔1853ء میں اس قبضے کے بعد سے 1947ء تک کشمیر پر گلاب سنگھ کی اولاد ہی حکمرانی کرتی رہی۔ جبکہ اس دوران کشمیری مسلمانوں کی جدو جہد آزادی بھی جاری رہی۔مگر جب 1947ء میں تقسیم ہند کے نتیجے میں جب انگریز نے ہندو ستان چھوڑا تو نہرو بیٹن سازش کے بعد جہاد کشمیر ایک منظم اور مربوط ومضبوط تحریک کی شکل اختیار کرچکا تھا۔ جس کے نتیجہ میں اول گلگت، بلتستان اور چلاس وغیرہ کے علاقوں سے قابض ہندو افواج کو نکالا گیا اور پھر 14اگست 1947ء کو بارہمولا، مظفر آباد، میر پور، کوٹلی، پونچھ اور راجوری میں بھی مسلمانوں نے اعلان جہاد کردیا۔ مسلمانوں کا یہ اقدام بے سرو سامانی کے باوجود اس قدر پختہ تھا کہ ان تمام شہروں سے ڈوگر ا ہندو فوج بھاگ گئی۔ حتیٰ کہ خود حکمران وقت راجہ ہری سنگھ سری نگر سے بھاگ کر جموں میں آکر پناہ گزین ہوگیا۔ یہی سے اس نے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو سے رابطہ کیا جہاں جواہر لال نہرو نے حالات کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ میں گٹھنے ٹیکے جہاں پر اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر پر اپنی پہلی قرارداد جاری کی جس میں کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ سمجھتے ہوئے جلد از جلد ریفرنڈم کا حکم دیا گیا تھا مگر آج 72سال گزرجانے کے باوجود اقوام متحدہ کی قراردادیں جوں کی توں ہیں اور آج کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو تقریباً72سال گزرگئے مگر اقوام متحدہ ابھی تک نیند سے بیدار نہ ہوسکی۔ آج ایک طرف جہاں پوری دنیا میں کرونا وائرس نے تباہی مچائی ہوئی ہے وہاں وادی کشمیر میں کشمیری اپنے ہی گھروں میں بند بغیر خوراک یا ادویات کے زندگی گزارنے پرمجبور ہیں ،وہاں آخر اقوام متحدہ کیوں سرگرم نہیں ہورہی؟۔وادی کشمیر میں آج کرفیو کو 2027روز گزر گئے ہیں جہاں بھارتی جبر و استداد کی نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ مظلوم کشمیری گزشتہ 2027روز سے اپنے ہی گھروں اور اپنی ہی سرزمین پر قیدیوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔مودی سرکار نے گزشتہ 7ماہ سے 80 لاکھ نہتے کشمیریوں کو محصور بنارکھا ہے۔ مظلوم کشمیری، بھارتی ظلم کی چکی میں مسلسل پس رہے ہیں۔ معصوم بچوں اور عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، مسلسل کرفیو کے باعث خوراک اور ادویات تک رسائی حاصل نہ ہونے کے سبب ہر طرف موت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔دیکھا جائے تو مقبوضہ کشمیر دنیا میں سب سے بڑا فوجی علاقہ بن چکا ہے۔ تاہم بھارت اپنی ظالمانہ حرکات سے کشمیریوں کی آزادی کیلئے آواز کو کبھی نہیں دبا سکتا۔ وادی میں غیرقانونی حراست، خواتین سے زیادتی اور پیلٹ گنز کا بے گناہ لوگوں کے خلاف ہتھیاروں کے طور پر استعمال سے کشمیریوں کے انسانی حقوق کو روندا جا رہا ہے مگر اس تمام تر ظلم کے باوجود اقوام متحدہ اندھی لنگڑی لولی بنی ہوئی ہے ، آخر ایسا کب تک چلتا رہے گا؟ آخر انسانیت کب تک مرتی رہے گے؟ اقوام متحدہ یہ دیکھ سکتی ہے مگر ہم نہیں ،پاکستان کشمیریوں کے ساتھ ہر مشکل وقت میں ساتھ کھڑا ہے اور اگر اقوام متحدہ کا کردار اسی طرح رہا تو پاکستان کو مجبوراً امن کا راستہ چھوڑ کر جنگ کا راستہ چننا پڑے گا اور پوری دنیا جنگ کے نتائج سے بخوبی آگاہ ہے ۔

Syed Noor Ul Hassan Gilani
About the Author: Syed Noor Ul Hassan Gilani Read More Articles by Syed Noor Ul Hassan Gilani: 44 Articles with 33552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.