اپنا خیال خود رکھیں

کورونا وائرس ہمارے ہاں پہنچ گیاہے اور جس تیزی کے ساتھ اس کے متاثرین میں اضافہ ہو رہا ہے ، اس نے ہر پاکستانی کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے، یعنی گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں میں متاثرہ افراد کی تعداد تیس سے بڑھ کر تین سو سات ہوگئی ہے ۔ ہر پاکستانی کی زبان پر جو پہلا سوال ہے وہ یہ کہ ایران سے پاکستان واپس آنے والے زائرین کے لئے تفتان کی گزرگاہ پر انتظامات حکومتی دعوؤں کے برعکس کم اور ناقص کیوں تھے۔ حالاں کہ حکومت اس خطرے کو بھانپ چکی تھی اور وہ بار بار یقین دہانی بھی کروا رہی تھی کہ زائرین کے لئے بہترین انتظامات کئے جاچکے ہیں لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہمیں یہ تک پتہ نہیں تھا اور نہ اَب پتہ ہے کہ زائرین کی تعداد کتنی ہے اور انہوں نے آگے کن کن علاقوں میں جانا ہے، انتظامات تو دور کی بات ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ تفتان میں قرنطینہ ٹینٹوں میں تعمیر کیا گیا تھا جہاں زائرین کے لئے ایک ڈاکٹر اورچار باتھ رومز کی سہولت تھی جب کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے ایک وقت کی چائے اور دو وقت کا کھانا بہم پہنچایا جاتا تھا۔وہاں قرنطینہ کے حوالے سے کوئی ایس او پی سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ البتہ سیکیورٹی اہل کار ضرور تعینات تھے تاکہ کوئی وہاں سے بھاگ نہ پائے۔ یاد رہے کہ سیکیورٹی کے باوجود زائرین نے احتجاج کیا اور کچھ مفرور بھی ہوئے۔ کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں کسی گاؤں میں ٹڈی دل حملہ آور ہوئے۔ سادہ زمانہ اور سادہ لوگ تھے ، وہ جب صبح کھیتوں میں جاتے تو اُن کی فصلیں تباہی کا نظارہ پیش کرتیں۔ گاؤں والوں کا خیال تھا کہ شاید اُن کی فصلوں کو ساتھ گاؤں والے رات کی تاریکی میں نقصان پہنچاتے ہیں۔ پس مشران نے فیصلہ کیا کہ رات کو پہرے کا بندوبست کیا جائے جس کے لئے دو ہٹے کٹے دیہاتیوں کو معمور کیاگیا۔کہتے ہیں کہ دونوں دیہاتی رات کو پہرہ دے رہے تھے کہ اچانک ٹڈی دل فصلوں پر حملہ آور ہوئے۔انہوں نے بندوقیں لوڈ کیں لیکن ٹڈی دل اِدھر اُدھر اُڑ رہے تھے اور اُن کو نشانہ لینے میں دشواری پیش آئی۔ کافی دیر کی ناکامی کے بعد ایک دیہاتی نے دوسرے کو اپنے سینے کی جانب اشارہ کیا جہاں ٹڈی دل بیٹھا تھا۔ دوسرے دیہاتی ساتھی نے نشانہ لے کر فائر کھول دیا ۔ صبح جب مشران اور گاؤں کے لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے رات کی روداد دریافت کی تو دیہاتی بولا کہ رات کو دشمن نے حملہ کیا ، اُن کے ساتھ مقابلے میں ہمارا ایک بندہ مارا گیا اور ہم نے بھی اُن کا ایک بندہ مارا۔ یہی صورت حال تفتان قرنطینہ کی تھی جہاں ڈاکٹر اور دیگر طبی عملے کے برعکس سیکیورٹی اہل کار تعینات کئے گئے۔اسی سوال کو ہر پاکستانی کی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن ) کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس میں بھی اُٹھایا گیا۔ اس کا جواب محترمہ فردوس عاشق اعوان نے اپنے ٹویٹ میں یہ دیا کہ ن لیگ کورونا جیسے حساس مسئلے پر بھی سیاسی دکان لگانے سے باز نہیں آئی ، یہ ایک قومی مسئلہ ہے اور سیاسی اسکورنگ کی بجائے اتحاد سے ہی اس وائرس کو شکست دینی ہوگی۔ مزید اُن کا کہنا تھا کہ عوام کے تحفظ ، مفاد اور سلامتی کے لئے اٹھائے گئے وزیراعظم عمران خان کے بروقت اقدامات کی دنیا گواہی دے رہی ہے۔محترمہ کے لئے عرض ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر پونم کھیتر پال سنگھ کا کہنا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک ، یعنی پاکستان ، بھارت ، انڈونیشیا ، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش اور سری لنکا وغیرہ کوررونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے میں یکسر ناکام نظر آئے ہیں جن کی بنیادی وجہ ناقص انتظامات ہیں۔ محترمہ کے لئے مزید عرض ہے کہ چیف جسٹس گلزار احمد نے گزشتہ روز سی ای او وقومی ائیر لائن کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ کورونا کے پھیلاؤ کے ذمہ دار حکومتی ادارے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس پاکستان میں ائیر پورٹس اور بارڈر کے راستے آیا ، پاکستان میں پیدا نہیں ہوا ، ملک میں کورونا وائرس آتا رہا ، کسی کو فرق نہیں پڑا ،قرنطینہ میں جاکر دیکھیں حالات کتنے ابتر ہیں، کیا ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز ہے؟ بقول داغ ؔ دہلوی ، ’’ سبھی کو خبر ہے سبھی جانتے ہیں ‘‘۔ لیکن افسوس حکومت سب جانتے ہوئے بھی نہیں مانتی۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے بلکہ ہر حکومت کا وطیرہ رہا ہے کہ اپنی غلطیوں کو تسلیم نہ کیا جائے اور جتنا ممکن ہو سارا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈالا جائے۔ حکومت اور حزب اختلاف کی جنگ تو ہمیشہ جاری رہتی ہے ،ہم واپس کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی جانب آتے ہیں۔ اگر ہم دنیا کے کورونا وائرس سے انتہائی متاثرہ ممالک کو دیکھیں تو وہاں متاثرہ افراد کا گراف یک دم تیزی سی بڑھتا نظر آئے گا، یعنی ایک متاثرہ فرد سے صرف ایک فرد نہیں بلکہ تین سے د س ا فراد متاثر ہوئے ۔ ہمارے ہاں متاثرہ افراد کا گراف اسی رینج سے بڑھتا نظرآ رہا ہے۔ اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے پھیلاؤ کو کیسے قابو کیا جائے۔ اس بارے ہمارے پاس احتیاطی تدابیر موجود ہیں۔ اول، زیادہ تر وقت گھروں پر گزارا جائے، باہر نکلنے سے حتی الوسع گریز کیا جائے۔ دوم ، جب باہر سے گھر میں داخل ہوں تو ہاتھ دھوئے جائیں ۔ سوم ، کہتے ہیں کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے پس متوازن غذا کھانی چاہیے تاکہ کورونا وائرس کے خلاف جسم میں قوت مدافعت زیادہ ہو۔ چہارم ، بچوں اور بزرگوں کا گھروں میں خاص خیال رکھا جائے کیوں کہ اس وبا کے شکار افراد میں ان کی تعداد زیادہ ہے ۔پنجم ، من گھڑت اور بے بنیاد معلومات پھیلانے سے گریز کیاجائے اور اگر آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو مسنون دعاؤں کو شیئر کریں۔ ششم،اگر آپ گزشتہ چند دنوں یا ہفتوں میں کسی ایسے شخص سے ملیں ہیں جو بیرون ملک سے سفر کرکے آیا ہو اور خدانخواستہ آپ کورونا وائرس کی علامات محسوس کر رہے ہیں تو فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور مکمل ہسٹری بتائیں۔ ہفتم ، کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد دنیا بھر میں جہاں دولاکھ کے لگ بھگ ہے تو وہاں اس مرض سے صحت یابی کی شرح بھی زیادہ ہے، یعنی ستر سے اسّی ہزار افراد صحت یاب ہوچکے ہیں اور باقی متاثرہ افراد بھی روبہ صحت ہیں۔ لہٰذا کورونا وائرس سے متاثرہ فرد فوراً خود کو آئیسو لیٹ کرے تاکہ اس کا مناسب علاج جلد سے جلد ہو اور اس وباکا پھیلاؤ مزید نہ ہو۔ ہشتم ، سب سے اہم احتیاطی تدبیر یہ ہے کہ اپنا خیال خود رکھیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ امین۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301455 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.