بے بات!

 قلم کیا اُٹھائیں، کرونا کی پھیلائی ہوئی ویرانی اور دہشت نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ قلم سے یا د آیا، قلم بھی کیا چیز تھی، اب تووقت کی گرد تلے دب کر اپنا وجود کھو چکی۔ سرکنڈے کا پودا کاٹتے تھے، چاقو سے اس کے ٹکڑے کرتے تھے، پھر قلم بناتے تھے، ضرورت کے مطابق اُس کا قط بناتے تھے (یعنی لکھائی کو جتنا باریک یا موٹا کرنا ہوتا تھا، اس کے مطابق اس کی نوک کاٹتے تھے) قلم تھی تو دوات بھی تھی ، کپڑے کے ٹکڑے، روشنائی اور پانی کا مرکب۔ نئی دوات کا بنانا کیا رومان پرور منظر ہوتا تھا۔ جہاں قلم دوات تھی تو تختی اُن کا لازمی جزو تھی، جسے دن میں دو تین مرتبہ بھی لکھنا پڑ جاتا تھا، لکھیں، دھوئیں، خشک کریں ، سیل سے نکالے جانے والے سکے سے لائنیں لگائیں اور چل سو چل۔ زمانہ طالب علمی تھا، پھر قلم کی جگہ پین نے لے لی۔ تختی کی جگہ کاپی آگئی۔ پین سے پوائنٹر، بال پوائنٹ بھی گردش میں ہیں۔ تاہم اب بات کافی آگے بڑھ چکی ہے، پہلے کمپیوٹر آیا، اس نے قدامت پرستی کو پیچھے دھکیلا، ماحول میں جدت آئی، اب مزید ترقی ہوئی تو لیپ ٹاپ آگیا۔ قلم دوات اور پین کا دور بھی گزر رہا ہے، کل ایک کورئیر والے نے مجھ سے اپنے موبائل پر ہی دستخط کروا ئے، بال پوائنٹ کی جگہ انگشتِ شہادت کے ناخن سے ہی کام لے لیا گیا۔ بائیو میٹرک اور آن لائن نظام نے ماحول ہی بدل کر رکھ دیا۔

لیپ ٹاپ کی بات چلی ہے تو سابق وزیرا علیٰ پنجاب یاد آئے، جو خود کو خادمِ اعلیٰ کہلوانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں بڑی کلاسوں کے ذہین طلبا وطالبات میں مفت لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی روایت ڈالی۔ کہا گیا کہ لیپ ٹاپ کے ذریعے نوجوان نسل ترقیاتی منصوبے برآمد کرے، ملک کو بہتر مستقبل کی راہیں دکھائی جائیں، غریب طلبا خود یہ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، یہ الگ بات ہے کہ لیپ ٹاپ نمبر دیکھ کر دیئے گئے نہ کہ مالی حالت دیکھ کر،یوں ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز کے مصداق سب برابر ہو گئے۔ یہاں سیاسی مخالفین نے ایک نکتہ یہ تلاش کر نے کی کوشش کی کہ یہ لیپ ٹاپ دراصل ’’سیاسی رشوت‘‘ ہیں، نوجوان نسل کو اپنا ووٹر بنانے کی کوشش ہے۔ لیپ ٹاپ کی تقسیم کے ساتھ ہی طلبا و طالبات کو نیٹ کی مفت سہولت بھی فراہم کر دی گئی، تاکہ ترقی کشید کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ نیٹ کی سہولت سے سائنسی ترقی تو ممکن نہ ہوئی تاہم ’’فریقین‘‘ کو آپس میں رابطہ کرنے کے لئے جس طرح پاپڑ بیلنے پڑتے تھے، اس میں بہت آسانی پیدا ہو گئی۔ اب ہاسٹل سے ہاسٹل اپنے کمرے سے ہی ’’براہِ راست‘‘ رابطہ ممکن ہو چکا تھا۔

ہاسٹل کی بات چلی ہے تو جن ہاسٹلز میں طلبا وطالبات اپنی زندگی کے بہترین دن گزار رہے تھے، آسان رابطوں کے ذریعے اُن کی زندگی آسان تھی، انہیں وہاں سے بے گھر کر دیا گیا، یعنی انہیں ان کے والدین کے گھروں میں بھیج دیا گیا، جہاں سب سے مایوس کن کام یہ ہوگا کہ ’’رابطے‘‘ مشکل ہو جائیں گے۔ اب اِن ہاسٹلز میں بھی کرونا کے مریض بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، گویا درس گاہیں اب’’ قرنطینہ ‘‘کے روپ میں سامنے آئیں گی۔ اس حکومتی فیصلے سے طلبا و طالبات ، ان کے والدین اور عام لوگوں میں بے چینی اور تشویش کی لہر دوڑ ی ہوئی ہے، مریض جب کمرے خالی کر کے جائیں گے تو طلبا و طالبات وہاں کیسا محسوس کریں گے، آیا وبائی مرض کے اثرات وہاں سے مکمل ختم کرنے کا بندوبست ہو چکا ہوگا، اگر کچھ آثار رہ گئے تو؟ خیر یہ حکومتی فیصلہ ہے، جس پر عمل تو ہو کر ہی رہے گا، کوئی دھرنا یا ہڑتال بھی نہیں کر سکتا کہ کچھ لوگوں کا اکٹھا ہونا ایک طرف بیماری کو دعوت دینا ہے ، دوسری طرف قانونی لحاظ سے بھی قابلِ گرفت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نیٹ کی مفت سہولت اب بھی جاری رہتی ہے یا وہ بھی کچھ روز معطل رہے گی۔ ویسے تو یہ کرونا بھی وائی فائی کی طرح ہی ہے، معاملہ دُور دُور ہی رکھا جارہا ہے، قربتیں ختم ہو چکی ہیں، ہر کوئی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

محدود ہونے کی بات سے یاد آیا، جب سے کرونا کی دہشت پھیلی ہے اپنے سیاستدان بھی محدود ہو کر رہ گئے ہیں، جن کے دم سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی رونقیں تھیں، انہوں نے بھی خاموشی کی بُکل مار رکھی ہے، وہ عوام کو اپنے سیاسی بیانات سے محظوظ کرتے رہتے تھے، مگر اب ماحول سنجیدہ بلکہ رنجیدہ ہو چکا ہے، شایداس لئے کہ اب محظوظ ہونے کا مناسب موقع نہیں ہے۔ تاہم اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ اپنے سیاستدانوں کی زیادہ تر باتیں طنزو مزاح کے طور پر ہی شائع اور نشر کی جاتی ہیں، وہ ایک دوسرے کے جملوں کو سنتے اور ان کے جواب تراشتے اور تلاشتے رہتے ہیں، اور اگلے روز پوری بناوٹ کے ساتھ انہیں جاری کرتے ہیں، یوں یہ سلسلہ ’جواب آں غزل‘ کے انداز میں چلتا رہتا ہے۔ جہاں کرونا کی وبا نے قوم کو پریشان کر رکھا ہے، وہاں لوگ سیاستدانوں کے مزاحیہ پروگراموں سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اِس مشکل وقت میں قوم مزاحیہ پروگرام کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی ، اسے تربیت، علاج اور ضروری سہولتوں کی دستیابی کی ضرورت ہے۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472425 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.