پاکستان میں میڈیا اور موبائل
فون نے جس قدر تیزی سے ترقی کی ہے کسی اور شعبے میں اس کی مثال نہیں ملتی ،
آپ جہاں کہیں بھی ہوں کوئی نہ کوئی خبر کسی نہ کسی ذریعے سے آپ تک پہنچتی
ہی رہتی ہے ۔ایک صحافی ہونے کی حیثیت سے آئے روز کرپشن ، بم دھماکے ، لوٹ
مار کی خبریں پڑھ پڑھ کر اب صرف سرخیوں اور کالمز تک ہی محدود ہو گیا ہوں ،پہلے
صبح صبح ہاکر کا انتظار کرنا پڑتا تھا لیکن اب انٹر نیٹ نے وہ مشکل بھی حل
کر دی ہے ۔ ان بے پناہ خبروں کے ہجوم میں جب آپ خبر سے بھاگ رہے ہوتے ہیں
بعض اوقات ایسی خبر آپ کے سامنے آجاتی ہیں جس دیکھ یا سن کر آپ ایک لمحے
کیلئے چونک جاتے ہیں اور آپ کو اُس کی تہہ تک جائے بغیر چین نہیں ملتا، یہی
کچھ مورخہ 16مارچ کو میرے ساتھ بھی ہو ا جب ایکسپریس نیوز کے فرنٹ پیچ پر
لگی تین کالم خبر نے میر ی توجہ مبذول کروائی ، خبر کے مطابق ” مولا بخش
چانڈیو وفاقی وزیر قانون، فاروق اعوان مشیر قانون تعینات “۔
یہ خبر کسی اور کیلئے اہمیت رکھتی ہو یا نہیں لیکن میرا اس خبر سے بہت گہرا
تعلق ہے ،مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ فاروق اعوان کیسے مشیر بن سکتا ہے ؟،ابھی
پرسوں تو میری اُس سے ملاقات ہوئی تھی ، اس طرح کی کوئی بات ہو تی تو کم از
کم وہ مجھے ضرور بتاتا ، میرے ذہن میں کئی طرح کے سوالات اُٹھنے لگے ، خیر
میں نے فوری طور پر تفصیل جاننے کیلئے خبر کو کلک کیا ، مگر انٹرنیٹ اس قدر
سست تھا کہ خبر کھل کے ہی نہیں دے رہی تھی ۔ میں کافی شرمندگی محسوس کر رہا
تھا کیوں کہ میں نے گزشتہ4برسوں سے یہ طے کر رکھا تھا کہ میں اُس ایماندار
شخص کی مدد کروں اور اُسے اُس کا جائز مقام دلا کر رہوں گا لیکن وہ میری
مدد کے بغیر ہی اس مقام پر پہنچ جائے گا یہ میرے لئے کافی معیوب سی بات تھی
کیونکہ اب اگر میری اُس سے ملاقات ہوئی تو وہ مجھے یہ طعنہ ضرور دے سکتا ہے
کہ دیکھو تم صرف باتیں ہی کر تے رہے مگر میرے رب نے مجھے یہاں پہنچا ہی دیا
ہے اور یہ وہ طعنہ تھا جسے سننے کی مجھ میں سکت نہیں تھی ۔
ویسے تو فاروق اعوان میرا پڑوسی اور مجھ سے عمر میں دوگنا بڑا تھا لیکن
بچپن سے ہی اُس کے بھائی سے دوستی کے باعث اُس سے کافی رفاقت تھی ، فاروق
اعوان کٹر مسلم لیگی اور میاں نواز شریف کا عاشق تھا ،1996ء میں اُس نے ا
نتہائی غربت اور بے روزگاری کے باوجود اُس وقت کراچی کے علاقے لیاری میں
مسلم لیگ ن کا دفتر کھولا جب وہاں کسی دوسری پارٹی کو پر مارنے کی ہمت نہ
ہو تی تھی، لیاری میں کئی عرصے سے پیپلزپارٹی کا راج تھا اور اسے شکست دینا
ناممکن سمجھا جاتا تھا اس لئے کوئی بھی امیدوار پی پی کے سامنے آنے کی جرات
نہیں کر تا تھا ، شاید یہی چیز فاروق اعوان کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت
ہوئی ، مسلم لیگ ن کے جب بڑے بڑے جانثاروں نے لیاری کا ٹکٹ لینے سے انکار
کیا تو فاروق اعوان نے آگے بڑھ کر پارٹی ٹکٹ کیلئے درخواست دی اور بغیر کسی
لمبے چوڑے خرچ کے تاریخ میں پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی کو حلقہ PS-08میں
عبرتناک شکست دی ۔اُس کی فتح کے بعد پی پی حلقوں میں کافی بے چینی نظر آنے
لگی کیونکہ جس انداز سے وہ ممبر صوبائی اسمبلی ہونے کا حق ادا کر رہا تھا ،آئندہ
کسی انتخابات میں اُسے شکست دینے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔
وہ صبح 9بجے اپنے کے گھر کے نیچے قائم ایک چھوٹے سے دفتر ،جو کبھی اُس کے
والد کے رکشہ اسپئر پارٹس کی دکان ہوا کر تی تھی ، میں بغیر کسی سیکورٹی کے
کچھ اس انداز میں بیٹھتا جیسے صبح سویرے کسی راشن والے نے اپنی دکان کھولی
ہو اور کوئی بھی شخص بغیر کسی رکاوٹ کے اُس کے دکان میں آسکتا ہو، اسمبلی
اجلاس کیلئے پہلے پہل تو وہ اپنے بھائی کے رکشے میں جایا کرتا لیکن وہاں
موجود راجوں اور ماہراجوں کو اُس کا رکشے میں آنا پسند نہیں آیا تو انہوں
نے اسے ایک گاڑی اور گارڈ دے دیا، گاڑی اُس نے ورک شاپ پر کھڑی کر دی اور
گارڈ سے اُس نے دوستی کر لی اور 1998میں اُسے پولیس میں اے ایس آئی بھر تی
کروایا ، آج وہ کس پوزیشن میں ہے ، میں نے نہیں جانتا ۔ اُس نے اپنے ڈھائی
سالہ دور اقتدار میں ریکارڈ ترقیاتی کام کر وائے ، اُس کی بنائی ہوئی سڑکیں
، بجلی کے پول ، گراﺅنڈ ، لڑکیوں کیلئے ہائی اسکول ، سوشو اکنامک سینٹر آج
بھی اُس کی ایمانداری کے عوام دوست ہونے کا ثبوت ہیں ۔وہ شاید پاکستان کا
واحد ایم پی اے ہو گا جس نے اپنی تنخواہ بھی ترقیاتی کاموں میں لگا دی ہوگی
۔ لیکن 1999ء میں میاں نواز شریف کا تختہ اُلٹنے کے بعد وہ سیاسی طور پر
یتیم ہو گیا ،اُس کو دی گئی مراعات چھین لی گئیں اور وہ پھر سے پہلے کی طرح
زندگی گزار نے لگا ۔ اُس نے 2002کے انتخابات میں حصہ لینے کا بھی سوچا مگر
گریجویشن کی ڈگری راہ میں رکاوٹ بن گئی ۔
قارئین آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں جو یہ ساری کہانی لکھ رہا ہوں اس کا
ثبوت کیا ہے ، کس طرح سے آپ اس پوری کہانی پر یقین کر سکتے ہیں ۔ ثبوت یہ
ہے کہ 1997ء میں فاروق اعوان جب ایم پی اے تھا اُس کے بڑے بیٹے محمد سعید
کی عمر غالباً 4سال اور اُس سے چھوٹے کی اڑھائی سال ہو گی ، آج محمد سعید
18سال کا گبرو جوان ہے اور لیاری کے علاقے کھڈہ مارکیٹ میں ٹماٹر کی ریڑھی
لگاتا ہے ، اُس سے چھوٹا بیٹا16سالہ عدنان ایک ٹرانسپورٹ کے دفتر میں پیون
جبکہ اُس سے چھوٹا بیٹا 12سالہ ذیشان ، سعید کے ساتھ ٹماٹر لگانے میں مدد
کر تا ہے ، اور فاروق اعوان اپنی عمر کی وجہ سے اس قابل نہیں کہ کہیں
مزدوری کر سکے ، اُس نے تو مجھے کبھی نہیں کہا مگر میرے دل میں یہ بات ضرور
تھی کہ میں اُس کی مدد کروں گا اور اُس کی آواز اعلیٰ ایوانوں تک پہنچاﺅں
گا مگر میں بھی دوسروں کی طرح اپنے آپ میں اس قدر گم ہوں کہ خیال ہی نہیں
رہا ،رہی بات ن لیگ کی تو انہیں پنجاب کا اقتدار بچانے ، لوٹے خریدنے اور
ادھر اُدھر کی مارنے سے فرصت ملے تو وہ اپنے اس کارکن کی طرف توجہ دے جس نے
کبھی لیاری میں پیپلز پارٹی کے جیالوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو کر ن
لیگ کا دفتر بنایا اور اُن سے صوبائی اسمبلی کی نشست چھینی تھی ۔
آج مجھے جہاں فاروق اعوان کے مشیر بننے کی خوشی تھی وہیں یہ دکھ بھی تھا کہ
میں نے اُس کیلئے کچھ نہیں کیا ۔ میں اسی شدو مد میں مبتلاء تھا کہ اچانک
انٹرنیٹ کا وہ پیچ اوپن ہو گیا جسے پڑھنے کیلئے میں بے قرار تھا ، خبر پر
غور سے نگا ہ ڈالی تو پتہ چلا کہ یہ تو سابق وفاقی وزیر قانون بابر اعوان
کے بھائی فاروق اعوان کی بات ہو رہی ہے ، جنہیں شاید یہ منصب اس لئے ملا ہے
کہ اُن کے بھائی وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کا اہم ستون ہیں ۔دل کو تسلی
ہوئی کہ اب بھی کچھ وقت ہے کہ اس شخص کیلئے کچھ لکھا جائے اور ایوان اقتدار
میں بیٹھے ہوئے بابوﺅں کو بتایا جائے کہ اگر آپ کے چاچے مامے، بھائی ،
بیٹوں اور بھتیجوں کو بھرنے کے بعد اگر کونے کھانچے میں کوئی تھوڑی سی جگہ
بچے تو اس فاروق اعوان پر تھوڑی بہت نظر کیجئے کیونکہ گرمیاں آچکی ہیں اب
تو ٹماٹر بھی زیادہ دیر تازے نہیں رہ سکیں گے اور محمد سعید اور ذیشان کو
اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کیلئے کسی اور مزدوری کی ضرورت پڑے
گی ۔ |