کمال ہے جناب ا س طرح برف کا
ٹھیہ نہیں چلایا جا سکتا آپ پورا ملک چلانا چاہتے ہیں نہ کوئی فکر نہ
پریشانی ،نہ آٹا نہ بجلی نہ پانی ،امن و سکون تو دور کی بات اب تو سانس
لینا بھی دشوار اور محال،ایک طرف حکومت ایک طرف راہبر یعنی علما اور دوسری
طرف بے فکرے دھنیا پی کر سوتے عوام ،کیسی نیند ہے جو ٹو ٹنے کا نام ہی نہیں
لیتی ملک ٹو ٹ گیا مگر خواب غفلت ہے کہ سورج نصف نہار پہ پہنچ چکا پھر بھی
آنکھیں تک مو ندنے کو تیا ر نہیں،لمبی آمریت کے بعد جگاڑ جمہوریت کا لو لی
پاپ،سب کچھ جگاڑ،ہم بھی کیا قوم ہیں پٹرول نہیں تو سی این جی،بجلی نہیں تو
یو پی ایس،نہ بجلی ہے نہ پٹرول ،سی این جی کی اول کمی پوری کرنے کے لیے ایک
دن کی لو ڈشیڈنگ بعد ازاں دو دن،اول صرف سردی کے دن بند رہے گی پھر ایک
مہینہ اور اب لگا تار ہفتے میں دو دن ،ہم نے کہا ہم نہیں مانیں گے سی این
جی اسوسی ایشن والے بھی یہی بو لی بولے یہ شیڈول ہمیں منظور نہیں ،حکمرانو
ں نے کہا اونہہ پاگل ،تم سے پو چھا کس نے ہے،اب جنا ب وزیر اعظم ملتان نے
کہ جن کے سر پہ پاکستانی عوام نے سب سے بڑا تاج رکھا ہے چاہ یو سف کی صدا
پہ گھریلو کمرشل ہر قسم کے گیس کنکشن پر چھ ماہ کے لیے پا بندی لگا دی ہے ،یعنی
اب چھ ماہ نہ کوئی بچوں کو نیا گھر بنائے نہ ان کی شادی کرے اگر کی تو انکے
لیے ایل پی جی کے سلنڈر کا بند وبست کرے،جس کا نام سن کے ہی اچھے اچھوں کا
پتہ پانی ہو جاتا،گیس کی قیمت میں نیا سلنڈر آجاتا ہے،چھ چھ آٹھ آٹھ اور اب
دس سے لے کر اٹھارہ گھنٹے کی لو ڈشیڈنگ،اور ہم انتظار میں کہ بس ابھی آنیو
الی ہے گیارہ بجے گئی تھی ایک بجے آجائے گی اور جب ایک بج کر پانچ منٹ ہوئے
تو او ہو اب دو بجے ہی آئے گی اور اگر کبھی غلطی سے آجائے تو پو رے گھر میں
ایمر جنسی لگ جا تی ہے ،اباجی کہتے ہیں فو راً کپڑے استری کر لو کل کے
بھی،دادیاں نا نیاں چیختی ہیں،او ننھی، جلدی سے مو ٹر چلا کے پانی کی ٹینکی
بھر لو وضو کے لیے صبح سے پانی کے انتظار میں بیٹھی ہیں،ادھر خرادیے ،مکینک،درزی،فرنییچر
والے،پنکچر والے ،ڈینٹر پینٹر،ویلڈر،نائی ،دھوبی سب کے سب ہاتھ پہ ہاتھ
دھرے بیٹھے ہیں صرف ایک مطالبہ لیے کہ ہمیں کو ئی ظالم شیڈول تو دے لو ڈ
شیڈنگ کا نہیں بجلی کے آنے کا کس کہ آئے گی کس کس وقت ،اس سادگی پہ کو ن نہ
مر جائے اے خدا،ہماری یہ حا لت رہی اور اس امید پہ بیٹھے کہ حکمرانوں
کواحساس ہو گا تو پھر ہمیں بجلی کے صرف جھٹکے ہی ملیں گے جو ہر دس پندرہ دن
بعد قیمت بڑھا کے لگا دیے جاتے ہیں ،ایسے ہی تو نہیں کہا گیا کہ اس قوم کی
حا لت نہیں بدل سکتی جس کو خود احساس ہی نہ ہو کہ اس کی حالت کیا ہے خود
نہیں بو لتے ،کس کا انتظار ہے؟،صاحبان محراب ومنبر کا کہ وہ ہمارے حق میں
بو لیں گے تو جناب یہ بھول ہے اس خوش فہمی کو دل سے کھر چیے،وہ کیا کسی کے
با رے میں سو چیں گے جو ابھی تک یہ طے نہیں کر سکے کہ ایک وقت میں تین
طلاقیں دینے سے ایک طلاق ہو تی ہے یا تین،رو زہ پانچ منٹ پہلے یا دیر سے
کھولنے سے فضیلت ملتی ہے یا مکروہ ہو جاتا ہے،قصر کی نماز سینتالیس میل پہ
ہے یا ساٹھ کلو میٹر پہ، کچھ کہتے ہیں خرگوش حلال ہے۔کچھ کے نزدیک حرام تو
کہیں مکروہ ،کبھی شریعت کے نام پہ بے وقوف بناتے ہیں تو کبھی کتاب کے نام
پہ،ہیں کو ا کب کچھ نظر آتے ہیں کچھ ، صرف نعرے اور دعوے کمٹمنٹ نام کی کو
ئی چیز ان کے ہاں نہیں پا ئی جاتی،اپنا مفاد ہو تو سب ایک ،عام افراد کے
لیے فتویٰ ساز فیکٹریاں، انگریز کو گالیاں اس کی ایجادات میں انکی جان،عملی
طور پہ کچھ کرنا نہیں فقط اپنی قیمت بڑھوانے کے لیے سادہ لو ح لو گوں کا
ٹشو پیپر کی طرح استعمال ، جلوس اور احتجاج ما فیا ،گھن نہ آئے تو اور کیا
ہو آخر میں حکمراں ،پل پل رنگ بدلتے مکروہ چہرے،ایسے بے شرم اور بے حس
زمانے نے کم ہی دیکھے ہوں گے،جھوٹ پہ جھوٹ ،غیرت حمیت کو تو کب کا تیاگ چکے
، اب زندہ رہنے کا حق بھی چھیننے کے درپے ہیں اس قوم کی بہتری یا ابتری کا
اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کی باگ دوڑ اسکے زرداریوں ،مزاریوں،بابر
اعوانون،نوید قمروں،رانوں،اور پرویز اشرفوں کے ہاتھ میں ہے،اب دس بار مشرف
کو وردی میں منخب کرانے والے بھی ساتھ مل گئے ہیں، ایک سے سے ایک بڑھ کر
ہیرا دستیاب ہے یہاں اندھیروں کا راج نہ ہو تو کیا ہو،ان سے پہلے والے کہتے
تھے ہم امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو پتھر کے زمانے میں پہنچ جاتے آج حالت سب
کے سامنے ہے،سو جوتوں اور پیاز والا سلسلہ ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتا،
اللہ پاکستان پہ رحم کرے،عوام نے اب بھی اگر انگڑائی نہ لی اور ان فرعون
صفتوں سے جان نہ چھڑائی تو یا د رکھئے قدررت کی طرف سے عطا کیے گئے بے پناہ
وسائل والے ملک کو کو انھی جو نکوں کے رحم و کرم پر چھوڑا تو وہ دن دور
نہیں جب خدا نخواستہ یہ ہمیں کوڑ ی کوڑی کا محتاج نہ کر دیں،برف کی ڈلی کو
جتنا بھی لپیٹیں آخر پگھل جاتی ہے جبکہ ہم نے تو اپنی برف عین دو پہر
چلچلاتی دھوپ میں بیچ چوراہے رکھ چھوڑی ہے- |