بلوچستان کا آتش فشاں ۔ ۔ ۔ ۔

بلوچستان سے فوج کی واپسی،خوش آئند مگر مسائل کا حل نہیں ۔ ۔ ۔ ۔

محرومی،ناانصافی اور ظلم و زیادتی کے بطن سے ہمیشہ جرم،نفرت اور بغاوت کی زہر آلود کونپلیں پھوٹتی ہیں اور انتشار،لاقانونیت اور بے چینی ہی جنم لیتی ہے،جو کسی بھی ملک،قوم اور معاشرے کیلئے تباہی وبربادی کا باعث بنتی ہے،آج نفرت،بغاوت اور احساس محرومی کی آگ میں جلتا ہوا بلوچستان ایک ایسے ہی آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے،جس سے اُگلنے والا لاوا نہ صرف قومی وحدت کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ قومی سلامتی اور ملکی استحکام کیلئے بھی مضر ہے،جبکہ اَمر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی بقاء استحکام اور سالمیت کیلئے ملک کی موجودہ اکائیوں کا برقرار رہنا بہت ضروری ہے،جو آج ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے شدید خطرات میں گھری ہوئی ہیں،مگر افسوس کہ اس نازک صورتحال میں بھی ارباب اقتدار کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ اِسے زبان،رنگ ونسل اور علاقہ کے نام پر مزید بڑھاوا دے رہے ہیں،بھانت بھانت کے راگ الاپ رہے ہیں اور اصل مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے کے بجائے جغرافیائی اور لسانی تقسیم کی باتیں کر رہے ہیں،المیہ یہ ہے کہ وہ پاکستان جو ایک قومی وحدت اور اسلامی نظریئے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا،اُسے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور معاشی بے انصافیوں نے چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں تقسیم کر کے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کردیا ہے،ایک طرف مجبور،بے بس اور لاچار لوگ ہیں،تو دوسری طرف بالادست،بااختیار اور تمام وسائل کے مالک ارباب اقتدار،یہی وہ معاشرتی ناہمواری ہے جس نے وفاق اور صوبوں کے درمیان فاصلہ بڑھا دیا ہے،آج رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا اور قدرتی و معدنی دولت سے مال صوبہ بلوچستان اِسی آگ میں جل رہا ہے اور خانہ جنگی کے باعث وہ ایک بار پھر اُس مقام پر کھڑا ہے جہاں ایک چنگاری زبردست دھماکے کا سبب بن سکتی ہے ۔

آج بلوچستان کے حالات اسقدر تشویشناک ہیں کہ ہر محب وطن شہری فکر مندہے،روم جل رہا ہے مگر ہمارے حکمران چین کی بانسری بجا رہے اور بندوق کی نوک پر مسائل کے حل کی اُسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جس نے سابقہ فوجی آمر کے دور میں بگاڑ کی بنیاد رکھی،غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو جنم دیا اور قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کیا،ہماری اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے اپنی خفیہ ایجنسی ”را“ کے ذریعے بلوچستان کے انتہا پسند عناصر کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی اور انہیں علیحدگی کی تحریک کی جانب راغب کیا،اگر مشرف دور میں فوجی آپریشن کے دوران بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کا سانحہ رونما نہ ہوتا تو ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کیلئے موقع کی تاک میں بیٹھے عناصر کو اپنی مذموم کاروائیوں کیلئے موقعہ نہ ملتا اور آج یہ حالات نہ ہوتے،بدقسمتی سے اس سانحہ نے نفرت و منافرت کی گرہیں اتنی پیچیدہ کردی کہ اب کھولے نہیں کھل رہی،اِس تناظر میں بلوچستان کے حالات کے پیش نظر آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی تشویش نظرانداز نہیں کی جاسکتی،بالخصوص قومی یکجہتی کی خاطر بلوچستان میں اعتماد کی فضا کی بحالی،محرومیوں کا ازالہ اور اُس کے حقوق کی سیاست کرنے والے قوم پرست لیڈروں کو قومی دھارے میں لانا بہت ضروری ہوگیا ہے،جس کیلئے ہمیں لسانی اور علاقائی عصبیت کے دائرے سے باہر نکل کر خود کو ایک قوم ایک ملت کی شکل میں ڈھالنا ہو گا،ترجیحی بنیادوں پر بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے عملی پیش رفت کرنا ہوگی اور فوجی حکمرانی کے دور میں بلوچستان کے عوام اور قوم پرست لیڈروں کے دلوں میں پیدا ہونیوالی غلط فہمیوں کو دور کر نا ہوگا ہے ۔

اِس حوالے سے گزشتہ دنوں آرمی چیف نے آئندہ بلوچستان میں افواج پاکستان کو کسی آپریشن میں شریک نہ کرنے کا اعلان اور پانچ ہزار بلوچ نوجوانوں کو پاک فوج میں شامل ہونے کی دعوت دیکر فوجی حکمرانی کے دوران بلوچ قوم میں افواج پاکستان کے بارے میں پیدا ہونیوالی غلط فہمیاں دور کرنے کی مثبت کوشش کی ہے،اُمید ہے کہ اِس کے دوررس نتائج برآمد ہونگے،تاہم افواج پاکستان کو اندرونی خطرات کی نوبت لانے والے بیرونی محرکات کا بھی سدباب کرنا چاہیے جو دفاع وطن کا بنیادی تقاضہ ہے،اگر قومی یکجہتی کی خاطر بلوچستان میں افواج پاکستان کو عوام کیخلاف آپریشن سے دور کرنا ضروری ہے تو اسی جذبے کے تحت قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن سے افواج پاکستان کو باہر نکال لیا جانا بھی لازمی ہے کیونکہ یہ آپریشن بھی ردعمل میں خودکش حملوں کا باعث بن کر قومی اتحاد و یکجہتی اور افواج پاکستان کے ساتھ عوام کے اعتماد و بھروسے کے رشتے کو کمزور کر رہا ہے، اِس میں کچھ شک نہیں کہ بلوچستان سے فوج کی واپسی ایک مستحسن فیصلہ ہے مگر یہ بلوچستان کے مسائل کا پائیدار اور مستقل حل نہیں ہے،گو کہ پاکستان آرمی نے بلوچستان کے احساس محرومی کو کم کرنے کے لئے جہاں اور بہت سے منصوبوں پر کام جاری رکھا ہوا ہے وہیں آرمی چیف کی طرف سے کوئٹہ میں آرمی میڈیکل کالج کے قیام کا فیصلہ بھی انتہائی مفید اور سود مند ہے،اِس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان آرمی کو بلوچستان بھی اتنا ہی عزیز ہے جتنا کوئی اور صوبہ اور یہ کسی ایک صوبے کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی فوج ہے ۔

بلاشبہ بلوچستان ایک حساس صوبہ ہے،یہاں ایک زمانے سے ایسے عناصر موجود ہیں جو اسلام آباد اور پنجاب کے بارے میں منفی تاثر پھیلا کر بلوچ نوجوانوں کو اکسا تے رہے ہیں کہ وہ ہتھیار اٹھا کر اپنے حقوق حاصل کریں،خصوصاً پچھلے دس سالوں میں سرحد پار سے ملنے والی امداد کی وجہ سے ایسے عناصر کی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے،اَمر واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کے عناصر کی بیخ کنی میں پاک فوج نے اہم کردار ادا کیا ہے اور سرکردہ بلوچ سرداروں کو قومی دھارے میں لا کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ لوگ بلوچستان کی قسمت کی مالک نہیں ہیں جو علیحدگی کی باتیں کرتے ہیں بلکہ اکثریت اُن سرداروں اور محب وطن لوگوں کی ہے جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور علیحدگی پسندوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز کو اِس وقت بدترین اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا ہے جس سے عہدا برآں ہونے کے لئے قومی سطح پر اتحاد و یکجہتی کی شدید ضرورت ہے تاکہ دشمن کو ہماری کسی اندرونی کمزوری سے مزید فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے،کیونکہ بھارت تو تشکیل پاکستان کے وقت سے ہی ہماری آزادی و خودمختاری اور سا لمیت کے درپے ہے اور وہ ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،جبکہ کروسیڈی عزائم رکھنے والی ہنود اور یہود و نصاریٰ پر مبنی عالمی طاغوتی قوتیں بھی پاکستان کو ایک ایٹمی قوت ہونے کے ناطے اپنے مذموم و مکروہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں،اِس شیطانی اتحاد ثلاثہ کا اوّلین مقصد پاکستان کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے،چنانچہ ملک کی سا لمیت کے خلاف دشمن کی گھناؤنی سازشوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے ٹھوس،جامع اور با مقصد حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔

اس سلسلے میں حکومتی،سیاسی اور عسکری قیادتوں کو باہم سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور بلوچستان کے مستقبل کے حوالے سے باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے متفقہ لائحہ عمل تلاش کرنا ہوگا،کیونکہ حالات کا تقاضہ یہ مطالبہ کررہا ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے مزید چشم پوشی اختیار کرنے کے بجائے،اُس کے زخموں پر مرہم رکھا جائے،اُسے امداد نہیں جائز حق دیا جائے،اُسے مسائل نہیں وسائل فراہم کئے جائیں اور محض زبانی دعوؤں اور وعدوں کے بجائے عملی اقدامات کی طرف توجہ دی جائے،ہمارا ماننا ہے کہ اہل بلوچستان اسلام پسند اور محب وطن پاکستانی ہیں اور وہ بھی پاکستان سے اُتنی ہی محبت کرتے ہیں،جتنی کہ ہم اور آپ کرتے ہیں،آج اگر وہ ناراض ہیں تو حکمرانوں کے طرز عمل سے ناراض ہیں،پاکستان سے ناراض نہیں،اُن کے دل محبت،اخوت اور جذبہ ایثار سے ہی جیتے جاسکتے ہیں،صرف ایک یہی راستہ ایسا ہے جسے اپناکر بلوچستان سے بدامنی،نفرت اور بغاوت کی آگ کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے،حکومتی اور سیاسی قائدین نے اگر اب بھی بلوچستان کے مسئلے پر فوری توجہ نہ دی تو یہ صوبہ بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائے گا اور پھر شاید کوئی دوا،کوئی مرہم اور کوئی پھایا اُس کے زخموں کو مندمل نہ کرسکے گا،لہٰذا ہماری ارباب اقتدار اور تمام سیاسی قائدین سے گزارش ہے کہ وہ ناراض بلوچوں کو منانے اور انہیں قومی دھارے میں لانے کیلئے عملی اقدامات کی طرف توجہ دیں،یاد رکھیں کہ صرف محبت،ایثار،ہمدردی اور جذبہ حب الوطنی ہی بلوچستان کو بچا سکتاہے اور قومی وحدت کو قائم رکھ سکتا ہے ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357779 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More