حالیہ دنوں میں آپ نے ذخیرہ اندوزی کا لفظ کئی بار سن
رکھا ہوگا. لیکن یہ ذخیرہ اندوزی محض چینی اور آٹے کی ذخیرہ اندوزی تک
محدود نہیں ہے. بلکہ اب ذخیرہ اندوزی کی ایک ایک نئی اختراع متعارف ہوئی ہے،
اور یہ قسم ماسک کی ذخیرہ اندوزی کہلاتی ہے. بدھ کے روز جب بذریعہ ایران
کرونا وائرس نے پاکستان میں قدم رکھا تو دو افراد میں اس کی شناخت ہوئی. جن
میں سے ایک کو کراچی اور دوسرے کو اسلام آباد کے اسپتالوں میں منتقل کر دیا
گیا. لہذا اس وائرس کے غیظ و غضب سے سرشار ہو کر، اس وائرس سے بچے ہوئے
لوگوں نے جب مارکیٹ کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ مارکیٹ سے ماسک کا خاتمہ
ہوگیا ہے اور مارکیٹ میں ماسک نیلام ہوگیا ہے. عام طور پر جراحی کے ماسک کے
ایک باکس کی قیمت 200 روپے کے لگ بھگ تھی پر یہ بات دسمبر کی ہے جب تک دنیا
کرونا جیسے متعدی مرض سے نا آشنا تھی. لیکن جوں ہی چین میں اس وائرس نے قدم
جمائے تو پاکستان نے مدد کی غرض سے اپنے اہم پڑوسی چین کو انتہائی اہمیت کے
حامل روک تھام کرنے والے سامان کا اسٹاک بھیج دیا. اس کی وجہ سے یہ ہوا کہ
سرجیکل ماسک کی عدم دستیابی ہو گئی. لوگوں کے مارکیٹ کے دورے سے یہ بھی
انکشاف ہوا کہ عدم دستیاب ہونے سے قبل ان کی آخری قیمت 700 روپے تھی. جو کہ
عدم دستیابی کی صورت میں بلیک میں فروخت ہورہا ہے. اسکے پیش نظر ہی ماسک کی
قیمت بڑھ کر ایک ہزار روپیہ فی باکس ہو گئی ہے. گو کہ معلوم ہوتا ہے کہ
منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے اس مجبوری کو بھی اپنے نفس کی نظر کردیا
ہے اور راتوں رات کمائی کے حصول کے خواب نے ان کو عظیم زلالت سے ہمکنار
کروا دیا ہے. اور بحیثیت انسان ان کی ذہنی پسماندگی، معاشی گراوٹ اور پیسے
کی حوس کو بے نقاب کردیا ہے. لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس عمل پر
ندامت کا شکار نہیں ہیں. بلکہ وہ تو اس عمل کو ذخیرہ اندوزی کے زمرے میں
نہیں لاتے یا شائد یہ ان کی دین سے دوری کی وجہ ہے یا شائد پھر وہ ایسا جان
کر بھی کر رہے ہوں . کیونکہ کئی لوگوں کا اس میں جواز یہ ہے کہ صرف اشیائے
خوردونوش کا جمع کرنا ہی ذخیرہ اندوزی ہے لیکن حقیقت میں اور دین اسلام کی
رو سے ذخیرہ اندوزی کی تعریف کچھ یوں ہے کے ہر وہ چیز جس کا روک رکھنا
لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث ہو اور معاشرے میں اس کی ضرورت پائی جائے چاہے
وہ اشیائے خوردونوش ہو یا کوئی اور چیز یہ سب ذخیرہ اندوزی میں آتی ہے. اور
در اصل اسلام نے ذخیرہ اندوزی کو حرام قرار دیا ہے.حدیث کی رو سے تو ذخیرہ
اندوزی صرف گناہگار ہی کرسکتا ہے. لہٰذا اس رو سے ذخیرہ اندوز نہ صرف
معاشرے کی لعنت سمیٹتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ گناہ کا بھی مرتکب ہوتا ہے. اور
شائد یہ وہی لوگ ہیں جو رمضان کے مہینے کو بھی اپنی نفس کی آگ بجھانے کا
زریعہ بناتے ہیں اور جب یہ آگ بجھ جاتی ہے تو اپنے آپ کو دھونے کے لئے اسی
کالے دھن کا استعمال کرتے ہیں. بات بہت تفصیل میں چلی جائے گی لہذا ہم اس
بحث کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں. دراصل یہ لوگ اپنی حرکت سے ملک و قوم کو
نقصان پہنچاتے ہیں. اس لئے حکومت وقت نے دیر آید درست آید کے مصداق ماسک کی
ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کا تعاقب کیا ہے اور ملک کے بیشتر علاقوں میں ماسک
بنانے والی فیکٹریوں سے زائد مقدار میں ماسک وصول کیے ہیں. جس سے امید ہے
کہ عوام کو ریلیف حاصل ہوگا اور ماسک کی فراہمی کم از کم قیمت پر ہوگی.
لیکن اگر ارباب اختیار بر وقت ایکشن لیتا تو عارضی عدم دستیابی پیدا ہی نہ
ہوتی اور اب مزید حکومت کو چاہیے کہ ماسک کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے
ماسک کی برآمد پر پابندی عائد کردے اور اگر اس سے بھی ضرورت پوری نہ ہو
پائے تو درآمد کرنے سے گریز نہ کرے، تاکہ اس ملک کے شہریوں کا تحفظ یقینی
بنایا جا سکے |