نئے صوبوں کے قیام کی بات چل
نکلی ہے تو ہر کوئی اپنی دانست کے مطابق اس پر اپنی رائے کا اظہار کررہا ہے،
کسی کی نظر میں یہ سیاست ہے تو کسی کی نگاہ میں ضرورت۔ لیکن انصاف کا تقاضا
یہ ہے کہ اس معاملہ کو کسی بھی قسم کے تعصب سے بالاتر ہوکر زیر بحث لانا
چاہیے۔اسلام آباد اور لاہور میں بیٹھے لوگوں کی سوچ اور طرح کی ہے اور ان
مراکز سے سیکڑوں یا ہزاروں میل دور رہنے والوں کا زاویہ نگاہ اور طرح کا
ہے۔مرکزی شہروں میں رہنے والے حکمرانوں یا وہاں کے سیاستدانوں یا دانشوروں
کا خیال یہ ہوتا ہے کہ دور دراز کے باسی صوبے وغیرہ کے مطالبے کی صورت میں
ملک دشمنی کے مرتکب ہورہے ہیں، یا وہاں کے چند شر پسند سیاستدان عوام کو
گمراہ اور حکومت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں یا یہ کہ وہ اپنی سیاست چمکا رہے
ہیں۔
مثال کے طور پر صادق آباد سے لاہور پہنچنے میں بارہ گھنٹے کے قریب وقت
درکار ہوتا ہے، اگر کسی سائل کو اپنے کسی معمولی کام کی غرض سے لاہور جانا
پڑ جائے تو آنے جانے کا کرایہ ، وہاں قیام و طعام اور دفاتر کے چکر لگانے
کے لئے آٹھ دس ہزار کا بندوبست کرے ، تب جائے، اور یہ بھی نہیں یقین کہ کام
ہوگا بھی یا نہیں ، یا کام کروانے کے لئے بھی فائل کو پہئے لگانے پڑتے
ہیں،یا دو چار روز دفاتر کے دھکے کھا کر ، صاحب کے دفتر کے باہر بنچ پر
بیٹھ بیٹھ کر چوتھے روز مایوس ہوکر گھر لوٹ جائے،لاہور کے ٹھنڈے دفتر میں
بیٹھا ہوا بیوروکریٹ اس سائل کے ذہنی کرب، موجودہ معاشی حالات میں اس کی
مجبوریوں سے قطعاً آگاہ نہیں ہوتا، اگر ہو بھی تو احساس نہیں کرتا۔
نئے صوبوں کے قیام کا معاملہ کوئی انہونی بات نہیں،اگر چہ پاکستان میں یہ
تجربہ نہیں ہوا ، مگر ہمارے ہمسایہ ممالک ایسا کرچکے ہیں اور یہ تجربہ
ناکام نہیں ہوا، اگر بھارت یا دیگر ہمسایہ ممالک میں صوبوں میں اضافہ ہوا
ہے تو ان ممالک کی حکومتیں بھی کمزور نہیں ہوئیں اور ان صوبوں میں کسی قسم
کی غداری کی ہوا بھی نہیں چلی۔ اگر پنجاب یا خیبر پختونخواہ میں نئے صوبے
معرض ِ وجود میں آ جائیں گے تو اس سے ملک کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
جیسا کہ گلگت بلتستان کو خاموشی سے صوبہ بنا دیا گیا تو نہ کہیں سے غداری
کا شائبہ پیدا ہوا اور نہ ہی ملک کی سرحدوں میں کمزوری واقع ہوئی۔
صوبوں کے قیام کا مقصد دراصل چھوٹے یونٹ بنانا کر عوام کو ان کی دہلیز پر
سہولت فراہم کرنا ہے ، اس ضمن میں سابق فوجی آمر کا ضلعی حکومت کا نظام
بہترین نظام تھا ، اس کی صرف اس لئے مخالفت کرنا کہ وہ ایک ناپسندیدہ آمر
کا نظام تھا ، ختم کردیا جائے ، قرین انصاف نہیں، اس نظام میں بیوروکریسی
کی بجائے عوام کی حکومت کا احساس ہوتا تھا، مقامی بیوروکریسی ناظم ضلع کے
ماتحت تھی۔ اگرچہ یہ نظام بھی خامیوں سے مبرا نہیں تھا ، مگر خامیوں کو ختم
کر کے اسے مزید بہتر کیا جاسکتا تھا۔ یہاں اس ضلعی نظام کی مثال دینے کا
مقصد یہی ہے کہ عوام کے زیادہ تر مسائل ان کی دہلیز پر ہی حل ہوجاتے تھے ۔
اسی طرح اگر صوبے بھی چھوٹے یونٹ بن جائیں ، تواس کا فائدہ عوام کو ہی ہوگا۔
جن علاقوں میں صوبوں کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے ، اب وہاں قیادتیں ، پارٹیاں
اور عوام بھی ان کے حامی ہیں، یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ان علاقوں کے
لوگ بھی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنے لاہور یا اسلام آباد کے ، صرف محرومیاں
ہیں جو حکمرانوں نے دور دراز کے علاقوں کو دے رکھی ہیں، جب وہ بڑھ جاتی ہیں
تو اپنا حق مانگنے کا جذبہ بھی پیدا ہوجاتا ہے ،تیز رفتار میڈیا کے ہوتے
ہوئے حق مانگنے کا سلیقہ بھی آجاتا ہے۔حکمران اپنی طاقت اور اختیارات کے بل
بوتے پر جسے چاہیں غدار بناکر جیلوں میں ٹھونس دیں اور جسے چاہیں محب وطن
قرار دے کر اعلیٰ عہدہ عنایت کردیں۔ |