دنیا میں وقتاً فوقتاً ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں،
جن سے قیامت کا منظر یاد آجاتا ہے۔ ایک طرف جہاں دنیا تیسری عالمی جنگ کی
طرف بڑھتی نظر آرہی ہے وہیں ہمارے ملک کی سینکڑوں سال پرانی گنگا جمنی
تہذیب کے برخلاف ہندو مسلم کے درمیان نفرت اور دشمنی پیدا کرکے ملک مخالف
طاقتیں ملک کے سیکولرزم کردار کو نقصان پہونچانا چاہتی ہیں۔ اقتصادی بحران
سے دوچار ہمارے ملک میں جہاں تقریباً تین ماہ سے CAA، NPR اور NRC کے خلاف
جگہ جگہ احتجاج ہورہے ہیں، وہیں چین کے ووہان شہر سے پھیلا کورونا وبائی
مرض مختلف ملکوں کی طرح اب ہندوستان میں بھی پہنچ گیا ہے۔ کورونا کے متعلق
بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور اب دنیا کا ہر فرد اس مہلک بیماری اور اس کی
علامات واسباب سے واقف ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ مرض پہلے سے موجود تھا مگر
ابھی تک اس کا کوئی علاج یا ٹیکہ ایجاد نہیں ہوسکا۔ مختلف قسم کی بیماریوں
کے علاج ومعالجہ کے لئے دواؤں اور ٹیکوں کے ایجاد ہونے کے باوجود ایسی نئی
بیماریاں سامنے آتی رہتی ہیں جن کے سامنے ساری دنیاوی طاقتیں زیر ہوجاتی
ہیں، جس کی تازہ مثال کورونا وائرس ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں اس بیماری
کے خوف نے لوگوں کے چین وآرام کو چھین لیا ہے۔ ہمیں غور وخوض کرنا چاہئے کہ
سائنس نے بہت ترقی کی ہے، چنانچہ بعض لوگ چاند پر زندگی کے آثار تلاش کرنے
میں مصروف ہیں، بعض ممالک بڑے بڑے میزائیل بناکر ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے
انتظامات کررہے ہیں۔ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ پوری دنیا کو
ایک گاؤں کے مانند بنانے کی کوشش کی جاری ہے۔ لیکن بعض مہلک بیماریوں کو
روکنے کا انتظام پوری دنیا کے سائنس داں مل کر بھی نہیں کرپائے ہیں۔ سائنس
داں دنیا کے عجیب وغریب نظام کو دیکھ کر یہی کہنے پر مجبور ہیں کہ ابھی تو
وہ اس دنیا کا بہت تھوڑا حصہ ہی سمجھ سکے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ دنیا کا اتنا
بڑا نظام کسی بڑی طاقت کے بغیر کیسے چل سکتا ہے؟ ہر گز نہیں، ہرگز نہیں۔ اس
لیے ایسی بیماروں سے عبرت حاصل کریں اور اس پوری کائنات کے خالق، مالک اور
رازق کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس کی مخلوقات سے یقینا استفادہ کریں لیکن اس
کے احکام پر عمل پیرا ہوں کیونکہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ دنیا کے کسی
بڑے ملک کے سربراہ ہونے کے باوجود، دنیا میں سب سے زیادہ دولت رکھنے کے
باوجود، دنیا کے بڑے سے بڑا سائنس داں بننے کے باوجود اور دنیا میں بہت
زیادہ شہرت حاصل کرنے کے باوجود ہم بھی سارے انسانوں کی طرح ایک دن زمین
بوس ہوجائیں گے۔ صحیح معنی میں آج سائنس ترقی حاصل کرنے کے باوجود یہ
سمجھنے سے بھی قاصر ہے کہ موت کا مزہ نہ چکھنے کی خواہش رکھنے کے باوجود
آخر تمام انسان مر ہی کیوں جاتے ہیں اور وہ کیوں پیدا ہوئے ہیں؟ اوریہ دنیا
آخر کیوں بنی ہے؟ یہی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے خالق ومالک ورازق
کائنات ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے۔
موجودہ کورونا وائرس کے پھیلنے کے متعلق مختلف باتیں سامنے آرہی ہیں کہ یہ
Biological ہتھیار کا ایک نمونہ ہے جو مستقبل میں ایک طاقت دوسری طاقت کو
کمزور کرنے کے لئے استعمال کرسکتی ہے، یا چین میں اقتصادی بحران پیدا کرنے
کی امریکہ کی کوشش ہے، یا چین کی کوئی سازش یا خفیہ منصوبہ ہے جس سے دنیا
ابھی تک ناواقف ہے، یا واقعی اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے؟ مگر مسلمان ہونے کے
باعث ہمیں یہ ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ ایسے وبائی امراض کے پھیلنے پر
شریعت اسلامیہ کی روشنی میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں
پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ سب سے پہلے ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات
سے مضبوط ہونا چاہئے، لہذا ہم گناہوں سے معافی مانگنے کے ساتھ احکامِ الٰہی
پر عمل پیرا ہوں۔ سیرت نبوی ﷺ پڑھنے والے حضرات بخوبی واقف ہیں کہ حالات
آنے پر حضور اکرم ﷺ نے ہمیشہ صحابہئ کرام کو اپنے قول وعمل سے اللہ تعالیٰ
کی طرف رجوع کرنے کا پیغام دیا ہے۔ یقینا بعض امراض ایک شخص سے دوسرے شخص
میں منتقل ہوسکتے ہیں، اسی لئے کسی وبائی مرض کے پھیلنے پر آخری نبی ﷺنے
ساری انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ وبائی مرض کے پھیلنے کی جگہ جانے سے
احتیاط رکھی جائے اور اُس علاقہ کے لوگوں کو دوسرے علاقوں میں جانے سے حتی
الامکان بچنا چاہئے،لیکن اس یقین کے ساتھ کہ بیماری اور شفا اللہ کے حکم سے
ہی ملتی ہے۔
اس موجودہ بیماری کا بظاہر کوئی علاج دستیاب نہیں ہے،اس لئے احتیاطی تدابیر
کا اختیار کرنا شریعت اسلامیہ کے مخالف نہیں ہے۔ مگر ہماری کوئی تدبیر قرآن
وحدیث کے واضح حکم کے خلاف نہ ہو۔ بعض عرب ممالک بشمول سعودی عرب میں
احتیاطی تدابیر کے طور پر پنج وقتہ نمازوں کی جماعت اور نماز جمعہ کی
ادائیگی کو پورے ملک میں غیر معینہ مدت کے لئے بند کردیا گیا ہے، حتی کہ
مسجد حرام میں طواف کو بھی روک دیا ہے، یعنی مسلمانوں کی تربیت گاہیں ہی
بند کردی گئی ہیں، حضور اکرم ﷺ اور خلفاء راشدین کے عہد مبارک میں تمام تر
سیاسی، سماجی، معاملتی اور مذہبی فیصلے مساجد سے ہی ہوا کرتے تھے۔ ایسے
مواقع پر مساجد مسلمانوں کے لئے پناہ گاہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سعودی عرب کا
تمام مساجد کو بند کرنے کا فیصلہ سعودی علماء کے پلیٹ فارم سے کرایا گیا ہے
مگر سبھی جانتے ہیں کہ اس نوعیت کا فیصلہ حکومت کی ہدایات پر ہی ہوتا ہے۔
سعودی علماء کا احترام کرتے ہوئے میں ان کے فیصلہ سے اپنا اختلاف درج کررہا
ہوں کہ علماء احناف نے قرآن وحدیث کی روشنی میں پنج وقتہ نماز کے لئے جماعت
کو فرض نہیں بلکہ واجب کہا ہے لیکن سعودی علماء حضرات کا موقف پنج وقتہ
نماز کے لئے جماعت کے فرض ہونے کا ہی رہا ہے۔ ہوائی اڈے، ریلوے اسٹیشن، بس
اسٹاپ اور دیگر خدمات سے پہلے خانہئ کعبہ کے طواف اور مساجد کو بند کرنا
ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ کورونا وائرس سے حفاظت کے لئے مساجد کو بند کرنے کے
لئے اعلان میں قرآن وحدیث کا بھی سہارا لیا گیا ہے، مگر اس حقیقت کا کوئی
انکار نہیں کرسکتا ہے کہ حضور اکرمﷺ کے عہد مبارک سے لے کر آج تک 1400 سالہ
اسلامی تاریخ میں متعدد مرتبہ وبائی امراض دنیا میں پھیلے، جن کی وجہ سے
جانی نقصان موجودہ کورونا وائرس کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ ہوا، حتی کہ
دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں طاعون جیسا
وبائی مرض پھیلا مگر ایک مرتبہ بھی کسی بھی اسلامی حکومت نے ملک کی مساجد
بند کرنے کا فیصلہ صادر نہیں فرمایا۔ جن ممالک میں حکومتی سطح پر مساجد بند
کرنے کے اعلان ہوچکا ہے وہاں کے لوگ ان شاء اللہ جماعت کے چھوڑنے کے گناہ
گار نہیں ہوں گے، حکومت اور علماء کرام ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ
ہوں گے۔ البتہ سبھی لوگ توبہ واستغفار کا اہتمام رکھیں۔ حالت سفر میں سخت
سردی اور بارش کے وقت حضور اکرم ﷺ کا خیموں میں نماز پڑھنے کی اجازت دینا
صرف کسی مرض کے وہم کی بنیاد پر پورے ملک کی مساجد کو بند کرنے کے لئے دلیل
کے طور پر پیش کرنا قابل قبول نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی جگہ پر وبائی مرض
پھیلنے کی تحقیق ہوجائے تو صرف متاثرہ علاقہ میں مساجد بند کرنے کی گنجائش
ہوسکتی ہے نہ کہ پورے ملک کی مساجد کو بند کردیا جائے۔ قرآن کریم (سورۃ
النساء آیت 102) میں عین جنگ کے موقع پر بھی فرض نماز کو جماعت کے ساتھ ہی
پڑھنے کی تعلیم دی گئی ہے، جہاں ایک لمحہ کی غفلت سے جیتی ہوئی جنگ شکست
میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
یقینا ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں لیکن اللہ تعالیٰ پر توکل
کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اسباب وذرائع ووسائل کا استعمال کرنا منشائے
شریعت اور حکم الٰہی کے خلاف نہیں ہے۔ حضور اکرمﷺ نے اسباب ووسائل کو
اختیار بھی فرمایا اور اس کا حکم بھی دیا خواہ لڑائی ہو یا کاروبار۔ لہذا
حسب استطاعت اسباب کا اختیار کرنا چاہئے، لیکن اللہ تعالیٰ پر توکل بھی
ضروری ہے۔ قرآن کریم میں اللہ پر توکل یعنی بھروسہ کرنے کی بار بار تاکید
کی گئی ہے۔ اختصار کے مد نظر یہاں صرف چند آیات کا ترجمہ پیش کررہا ہوں۔
”تم اُس ذات پر بھروسہ کرو جو زندہ ہے، جسے کبھی موت نہیں آئے گی“ (سورۃ
الفرقان 58) ”جب تم کسی کام کے کرنے کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو“
(سورۃ آل عمران 159) ”جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی
ہوجاتا ہے“ (سورۃ الطلاق 3) ”بے شک ایمان والے وہی ہیں جب ان کے سامنے اللہ
کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل نرم پڑجاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی
تلاوت کی جاتی ہے تو وہ آیات ان کے ایمان میں اضافہ کردیتی ہیں اور وہ اپنے
رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں“ (سورۃ الانفال 3)۔ہمارے نبی نے بھی متعدد مرتبہ
اللہ پر توکل کرنے کی تعلیم دی ہے، فی الحال صرف ایک حدیث پیش ہے: حضرت عمر
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم اللہ پر
توکل کرتے جیسے توکل کا حق ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ تم کو اس طرح رزق عنایت
فرماتے جیسا کہ پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح سویرے خالی پیٹ نکلتے اور شام کو
پیٹ بھر کر واپس لوٹتے ہیں۔ (ترمذی)
کورونا مرض کو بڑھنے سے روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں، اس
بیماری کی علامتیں پائے جانے پر فوراً ہسپتال کا رخ کریں اور دوسروں سے حتی
الامکان دور رہیں۔ تمام لوگوں کو چاہئے کہ بار بار ہاتھ دھوتے رہیں خاص کر
ہر نماز کے وقت اچھی طرح وضو کریں۔ پانی وافرمقدار میں پینا چاہئے، بے
ضرورت اجتماعات سے دور رہیں، مگر یہ بات یاد رکھیں کہ موت کا وقت اور جگہ
متعین ہے اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اپنی وسعت کے مطابق اس مرض
سے بچنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے موت کی اس حقیقت کو بار بار بیان کیا
ہے، چار آیات کا ترجمہ پیش ہے: تم جہاں بھی ہوگے(ایک نہ ایک دن) موت تمہیں
جا پکڑے گی۔ چاہے تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہے ہو۔ (سورۃ النساء
78) (اے نبی!) آپ کہہ دیجئے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تم سے آملنے
والی ہے۔ یعنی وقت آنے پر موت تمہیں ضرور اچک لے گی۔ (سورۃ الجمعہ 8)
چنانچہ جب اُن کی مقررہ میعاد آجاتی ہے تو وہ گھڑی بھر بھی اُس سے آگے
پیچھے نہیں ہوسکتے۔ (سورۃ الاعراف 34) اور نہ کسی متنفس کو یہ پتہ ہے کہ
زمین کے کس حصہ میں اُسے موت آئے گی۔ (سورۃ لقمان 34) ان مذکورہ آیات سے
معلوم ہوا کہ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ
کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ چنانچہ بعض بچپن میں، توبعض عنفوان شباب
میں اور بعض ادھیڑ عمر میں، جبکہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ
جاتے ہیں۔ بعض صحت مند تندرست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں لیکن انہیں
نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔
جب ہمارا یہ یقین ہے کہ حالات سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتے ہیں، اور
وہی مشکل کشا، حاجت روا، بگڑی بنانے والا اور صحت دینے والا ہے، لہذا ہم
دعا کا خاص اہتمام رکھیں کیونکہ دعا ایک اہم عبادت بھی ہے۔ ہمیں دُعا میں
ہرگز کاہلی وسستی نہیں کرنی چاہئے، یہ بڑی محرومی کی بات ہے کہ ہم مصیبتوں
اور بیماریوں کے دور ہونے کے لئے بہت سی تدبیریں کرتے ہیں مگر وہ نہیں کرتے
جوہرتدبیر سے آسان اور ہرتدبیر سے بڑھ کر مفید ہے (یعنی دعا)، اس لئے ہمیں
چاہئے کہ اپنے خالق ومالک کے سامنے خوب دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ پوری
دنیا سے اس بیماری کو دور فرمائے، آمین۔
|