کورونا فلم

9 سال پہلے بننے والی فلم کیسے بن گئی آج کی ٹاپ ٹرینڈنگ فلم؟ ہوتا تو یہ ہے کہ پہلے کوئی حادثہ پیش آتا ہے پھر اس پر فلم بنائی جاتی ہے مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ پہلے فلم بن جائے اور حادثہ بعد میں پیش آئے۔اس وقت پوری دنیا میں کورونا وائرس کا ڈرپھیلا ہواہے۔

کورونا فلم بائی خبیب احمد کنجاہی

9 سال پہلے بننے والی فلم کیسے بن گئی آج کی ٹاپ ٹرینڈنگ فلم؟ ہوتا تو یہ ہے کہ پہلے کوئی حادثہ پیش آتا ہے پھر اس پر فلم بنائی جاتی ہے مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ پہلے فلم بن جائے اور حادثہ بعد میں پیش آئے۔

اس وقت پوری دنیا میں کورونا وائرس کا ڈرپھیلا ہواہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو جب لاہور میں رینجرز ہیڈکوارٹر‘ ریلوے اسٹیشن اور اس کے علاوہ ایک جگہ بم دھماکہ ہوا تھا تو ان بم دھماکوں کی خبر پہلے سے ہی ٹی وی پر لگ چکی تھی دھماکے بعد میں ہوئے تھے۔ اور خبر لگائی گئی تھی حامد میر صاحب کی طرف سے بعد میں اُن کو اس کے بارے میں پوچھا گیا۔ بہرحال آج میں بات صرف فلم کی کروں گا۔ میں کورونا پر پہلے ایک کالم لکھ چکا ہوں جس میں‘ میں نے کورونا کے حوالے سے بے شمارسوال اُٹھائیں ہیں۔ کورونا کا جب مسئلہ سامنے آیا تو کئی پیش گوئیوں کا ذکر بھی سامنے آیا جس میں 2کتابوں اور ایک فلم کا ذکر آیا کہ ان میں کورونا کے حوالے سے پہلے سے کچھ موجود ہے۔ پہلی کتاب ”اینڈ آف دی ڈیز‘‘ جس کو کچھ لوگ ایک نفسیاتی نا و ل بھی کہتے ہیں اور دوسری کتاب ”دی ائیر آف ڈارکنیس“۔ اس کے علاوہ تیسری فلم تھی۔

جی ہاں 2011 میں ایک فلم بنی جس کا نام تھا ”contagion“۔ جس کا اردو میں مطلب ہوتا ہے ”متعدی“۔ متعدی یعنی کہ ایک ایسی بیماری جو ایک جسم سے دوسرے جسم کو لگتی ہے۔ اسے چھوت کی بیماری بھی کہتے ہیں۔ اب لفظ متعدی پڑھ کر آپ کے ذہن میں فوراََ سے متعدی کے حوالے سے ایک حدیث بھی آگئی ہو گئی۔ فلم کو کس نے لکھا‘ کس نے بنائی اور کون لوگ اس میں ہیں یہ ایک لمبی فہرست بن جاتی ہے۔ بہرحال فلم میں ہیرو کے طور پر ہیں امریکی مشہور فلمی اداکار ”میٹ ڈیمون“۔ فلم کے شروع میں ہی ایک عورت کو دکھایا جاتا ہے۔ جس کو کھانسی ہے۔ آپ جب یہ دیکھتے ہیں تو آپ کے ذہن میں فوری سے کورونا کی علامات گردش کرنے لگتی ہیں۔ اس سے آگے چلیے تو کچھ اور لوگوں کو دکھایا جاتا ہے جن کو دیکھ کے ہی پتا چل جاتا ہے کہ انہیں کچھ بیماری ہے۔ کسی کو کھانسی تو کسی کا سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔ فلم کا آغاز ہی آپکو آج کے حالات سے اتنا ملتا جلتا ملتا ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ جو کچھ فلم میں ہے وہی آج ہے وہی آج آپ دیکھ رہیں ہیں۔ فلم میں ہانگ کانگ‘ امریکہ‘ چائینہ‘ لندن‘ انگلینڈ اور ٹوکیو جاپان وغیرہ اور ان کی آبادی کے بارے میں دکھایا جاتا ہے۔ملک‘ آبادی دِکھانے کا مقصدیہ تھا کہ وائرس کہاں سے نکلا‘ کس کو پہلے لگا‘ پھر کس طرح یہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں تیزی سے پھیل گیا۔ یہ بات تو سچ ہے جہاں سفر منٹوں میں اب طے ہوتا ہے وہاں اب بیمار انسان کے ساتھ ساتھ بیماری کا سفر بھی منٹوں میں ہوتا ہے۔ Beth emhoffجو کہ بیوی ہوتی ہے میٹ ڈیمون کی۔ وہ امریکہ سے ہانگ کانگ جاتی ہے وہاں سے واپس آتی ہے لیکن وہ وائرس کی لپیٹ میں آچکی ہوتی ہے۔ خود تو وہ جان سے جاتی ہے لیکن بعد میں اس کا بیٹا بھی اسی بیماری سے مر جاتا ہے۔ اوراس فلم میں بھی جو لوگ اس وائرس سے مرتے ہیں ان کی ڈیڈ باڈی نہیں دی جاتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی لوگ مرنے لگ جاتے ہیں۔

Centers for Disease Control and Prevention (CDC) کو جب اس بات کا پتا چلتا ہے تب تک یہ وائرس بہت لوگوں کا متاثر کر چکا ہوتا ہے کئی جانیں جا چکی ہوتی ہیں۔ اب ایک ایسا وائرس جس کو پہلے تو جاننے کی کوشش کرنی ہے پھر اس کی ویکسین بنانی ہے۔ اس میں ناجانے کتنے مہینے سال لگ سکتے ہیں۔ اگر یہ وائرس والی بات عوام تک آگئی تو لوگ ڈر جائیں گئے۔ لوگ سٹرکوں پر نکل آئیں گئے۔ حالات بگڑ سکتے ہیں اور بعد میں ہوتا بھی ایسا ہی ہے۔ فلم میں کئی کریکٹر ہیں‘ ہر کریکٹر کی الگ سے دلچسپی ہے سو اِسی لیے فلم شروع سے آخر تک آپکو لچسپ لگتی رہتی ہے اور اپنے ساتھ باندھے رکھتے ہے۔ پھر اس میں World Health Organization (WHO) ٹیم کی ایک ممبر Dr. Ornatesہانگ کانگ چلی جاتی ہے یہ پتا لگانے کہ پہلی خاتون کیسے مری وہ کہاں کہاں گئی اور کن کن لوگوں سے ملی۔ اس کی ویکسین بنانے کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ کچھ بلڈ سامپلز (blood samples) سے انہیں اس کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ ایک وائرس ہے۔ یہ کیسے دماغ اور پھیپھڑوں میں داخل ہوتا ہے۔ الگ الگ کمپنیاں اس وائرس کی ویکسین بنانے میں لگ جاتی ہیں۔ CDC کی ایک ڈاکٹر کو آخر کسی ذرائع سے پتا چلتاہے کہ یہ وائرس کہاں سے آیا ہے اور یہ کتنا خطر ناک ہے۔ الگ الگ سامپلز بنانے کے بعد بندروں کے اوپر ٹیسٹ کیے جاتے تھے۔ لیکن کوئی بھی تجربہ کامیاب نا ٹھہرا۔ کئی بندر پھر بھی مر جاتے ہیں۔ پھر ایک سامپل ایسا تیار ہو جاتا ہے جس کا رزلٹ صیح آتا ہے۔ اس سے بندر مرتا بھی نہیں نا ہی اس پر کسی قسم کا اور اثر ہوتا ہے۔ اب اس کو کسی متاثر شخص پرآزمانا کوئی آسان کام نا تھا۔ اس کیلیے آپکو اجازت لینی پڑتی ہے‘ کئی پیپرز پر سائن کرنے پڑتے ہیں۔ اسی سوچ و بچار میں خاتون ڈاکٹرایلی اس کو اپنے اوپر آزمانے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔ دو تین روز گزر جانے کے باوجود ڈاکٹر ایلی کو کچھ نہیں ہوتا سو اسی طرح یہ ویکسین کام کر جاتی ہے۔ پھر اس کے بعد اس ویکسین کیپیداوارکا تیزی سے کام شروع ہو جاتا ہے۔ پھر پوری دنیا میں یہ خبر بتا دی جاتی ہے۔ لیکن ویکسین بناتے بناتے اور مارکیٹ میں آتے آتے تقریباََ تین مہینے لگ جاتے ہیں اور تب تک 26 ملین لوگ جان کی بازی ہار گئے ہوتے ہیں۔ مجھے اس فلم میں سب سے ذیادہ پسند یہ آیا کہ ویکسین CDCکے مین مین سٹاف ممبرز کو مفت میں دی جاتی ہے تا کہ وہ اپنی فیملی کو بچا سکیں۔

dr shaver کو بھی یہ بھی ویکسین ملتی ہے لیکن وہ خود یہ ویکسین نہیں لیتا بلکہ وہ اُسے ایک اور سٹاف ممبر کے بیٹے کو لگا دیتا ہے۔ انسانیت یہاں آپ کو دیکھنے کو ملتی ہے کہ ہیں لوگ جو اپنی جان سے ذیادہ دوسروں کی جان کو عزیز سمجھتے ہیں۔

CDC کی طرف سے بتایا جاتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کو مت چھوئیں نا ہی کسی سے ہاتھ ملائیں وغیرہ۔ وائرس اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ ایک بڑے حال کو عارضی طور پر ہسپتال بنایا جاتا ہے۔ یہاں آپکو بلکل اُس جیسی صورت حال ملتی ہے ایکسپوسینٹرز کی صورت میں۔ وائرس سے متاثر لوگوں کا علاج کرتے کرتے ایک ڈاکٹر خود اس کاشکار ہوجاتی ہے اور مر جاتی ہے۔ جب آپ اس ڈاکٹر کو مرتے
دیکھیں گئے تو آپ کو چین کے ڈاکٹر لی اور پاکستانی نوجوان ڈاکٹر اُسامہ یاد آئیں گئے۔

فلم میں آپ یہ بھی دیکھیں گئے کہ اِسی طرح 1918میں سپینش فلو سے بھی کُل آبادی کا تقریباََ ایک فیصد کہا جاتا ہے کہ مر گیا تھا۔ حالات اتنے گھمبیر ہو جاتے ہیں کہ ہر شخص آپکو تب بھی ماسک لگائے ملتا ہے۔ لاک ڈاون دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسجد‘ چرچ‘ سکول‘ ہوٹل اور آفس سب بند ملتے ہیں۔ جیسے آج حالات ہیں تقریباََ یہی حالات آپ کو فلم میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بہرحال بتا دوں کہ پہلی خاتون کو وائرس کیسے لگا اور کیسے یہ وائرس پھیلا۔ فلم کے آختتام میں آپ یہ خود بھی دیکھ لیں گئے کہ ہانگ کانگ کے اند ر ایک بلڈوزر (Bulldozer)غلطی سے ایک پیڑیعنی درخت کو توڑ دیتا ہے۔ اس پیڑ پر بیٹھے چمگادڑوہاں سے اُڑ کر کیلے (Banana) کے درخت پر چلے جاتے ہیں وہاں وہ کچھ کیلے کھاتے ہیں۔ پھر وہاں سے اُڑ کر وہ ایک پِگ فارم Pig Farm)) میں چلے جاتے ہیں لیکن وہاں ایک چمگادڑ کیلے کا ایک ٹکڑا نیچے گِرا دیتا ہے اور وہیں پہ ایک سور اُسے کھا لیتا ہے۔ اگلے دن اُسی سور کو کیسینو (Casino) میں لے جایا جاتا ہے۔ ایک شیف اس کو صاف صاف کرتے کرتے سور کہ منہ میں بھی ہاتھ ڈالتا ہے۔ اتنے میں اُسے ایک شخص آ کے بتاتا ہے beth emhoffآئیں ہیں۔ شیف وہیں اپنے ہاتھوں کو اپنے eprin (باورچی اپنے کپڑے بچانے کیلیے پہنتے ہیں) سے صاف کرتا ہے۔ اور جا کر beth emhoff سے ہاتھ ملا لیتا ہے۔ یوں چمگادڑ اور سور کے وائرس سے وائرس beth میں چلا جاتا ہے۔ پھر جہاں جہاں وہ جاتی ہے وائرس بھی ساتھ ساتھ جاتا ہے۔ یوں یہ وائرس پھیلتا ہے۔

باقی بہت کچھ ہے آپ لوگ یہ فلم دیکھیں آپ کو کونٹیجن فلم آج کے حالات پر مبنی ایک دستاویزی فلم سے کم نہیں لگے گی۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Khubaib Ahmad
About the Author: Khubaib Ahmad Read More Articles by Khubaib Ahmad: 7 Articles with 8924 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.