وبائی دہشت گردی کی حشر سامانیاں

(کرونا وائرس کی تباہ کاریوں اور ان سے نجات کے حوالے سے ایک تحریر)

"دنیا کا آخری انسان ایک تاریک کمرے میں سہما بیٹھا تھا کہ دروازے پہ کسی نے دستک دی۔"یہ ایک جملے کی کہانی جس نے بھی لکھی ہے ایک شاہکار تخلیق ہے ۔اس ایک جملے میں خوف و ہراس کو جس طرح بیان کیا گیا ہے وہ یقینا ً موجودہ دور میں کرونا وائرس سے پیدہ شدہ ملکی و بین الاقوامی صورتحال کی عمدہ عکاسی ہے ۔ خوف اس سے پہلے بھی حضرت انسان کو لاحق رہا ہے لیکن موجودہ صورتحال نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ خوف کے لیے کوئی انتہائی قوی الجسہ مخلوق کا ہونا ضروری نہیں بلکہ ایک چھوٹے سے جراثومے ، جسے طاقتور خوردبین کے بغیر دیکھا بھی نہیں جا سکتا ،کے ذریعے حضرت انسان کو موت اور فنا کے خوف میں مبتلا کر کے رکھا جا سکتاہے ۔کہکشاؤں کو مسخر کرنے والے انسان نے سائنس کے ذریعے ہر لاعلاج مرض کا علاج تک دریافت کیا ہے لیکن دفعتاً کرونا جیسی بیماری کے ہاتھوں جدید دور کی عالمی طاقتیں بے بس ہو گئی ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کی معیشتیں برباد ہو گئی ہیں ۔ گلیاں و بازار بے رونق ہو گئے ہیں ۔ خوف کے مارے لوگ گھروں میں مقید ہو گئے ہیں یا حکومتوں نے زبردستی انہیں گوشہ نشینی(قرنطینہ) پہ مجبور کر دیا ہے ۔عبادت گاہیں ویران اور کوچہ و بازار سنسان ہیں ۔زندہ انسانوں کے شہر بھی شہر ِ خموشاں محسوس ہوتے ہیں ۔ بقول شاعر :
مرض عجیب ہے جس کی دوا ہے تنہائی
بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں

خوف انسانی غریزہ ہے یعنی یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ خوف انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے ۔ مٹ جانے کا خوف ہے جو اسے زندہ رہنے کی تگ و دو پہ مجبور کرتا ہے ، بے حیائی کا خوف اسے لباس میں ملبوس ہونے پہ مجبور کرتا ہے ،موسمی حالات اور جانوروں کے خوف سے تحفظ کے لئے وہ مکان بناتا ہے ، دشمن کے خوف سے اسلحہ و جنگی مہارت کا سہارا لیتا ہے اور اپنے خدا کے غضب کے خوف سے وہ عبادت کا طریقہ اختیار کرتا ہے تاکہ وہ زندگی میں بھی اور بعد از مرگ بھی کامیاب ٹھہرے ۔انسان پہ جب بھی کبھی مصیبت آئی اس نے مادی اسباب کے ساتھ ساتھ اپنے خدا کی پناہ بھی چاہی ۔لوگ خوف کے عالم میں مساجد اور عبادت گاہوں کی جانب دوڑتے ہیں لیکن یہ کرونا وائرس ایسی مہیب مخلوق ہے کہ اس نے انسان کے دل سے خوف خدا بھی نکال دیا ہے ۔ لوگ اس سے بچاؤ کی خاطر مساجد سے بھی دور بھاگنے لگے ہیں یہاں تک کہ حرمین الشریفین بھی خالی ہیں ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ لادین اور عاقبت نااندیش سوشل میڈیا پہ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ "عبادت گاہوں سے کسی کو شفا ء نہ مل سکی تو اب کافروں سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہی کوئی دوا اور علاج دریافت کریں "۔دوسری جانب کچھ مذہبی حلقے بھی احتیاطی تدابیر کو دین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اجتماعات کر رہے ہیں ۔ بنیادی طور پہ دونوں طبقوں کے ہاں دینی تعلیمات سے واقفیت کا فقدان ہے جس کی وجہ سے وہ اس طرز عمل کا اظہار کر رہے ہیں ۔

جہاں تک بات ہے ہمارے سیکولر اور لبرل طبقے کی تو وہ مغربی مادہ پرستی سے متاثر ہیں اور اس سائنس کے معتقد ہیں جو جو ماوراء الطبیعات (Meta Physics) کا انکار کر چکی ہے ۔ان حضرات کے خیال میں بیماری کی وجہ ایک وائرس ہے اور اس کا علاج ویکسین ہوا کرتا ہے۔چونکہ یہ وائرس نیا ہے اس لیے اب تک اس کی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی ۔لیکن سائنس ہی اس کا علاج دریافت کرے گی ۔ ذکر و اذکار اور عبادات سے اس بیماری اور اس کے علاج کا کوئی تعلق نہیں ۔ یہ لوگ اصل میں مغرب کی نشاۃ ثانیہ (Renaissance)سے متاثر ہیں جس کی بنیاد عصر تنویر (Enlightenment) پہ ہے ۔اصل میں اس دور میں اہل یورپ کو پتہ چلا کہ مذہب نے ان کی عقل کو قید کر رکھا ہے اور یہ مذہب ہی ہے جو ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ابتداء میں تو عقلانیت کی جنگ مسیحیت سے ہوئی لیکن ان کی شدت پسندی نے ہر مذہب کو ترقی کا دشمن جانا۔مشرقی خصوصاً مسلم ممالک میں بسنے والے جدت پسند وں نے علمانیت اور عقلانیت(Secularism and Rationalism) کا علم اٹھایا تو اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مذہب کو پرکھنے کے بجائے مغربی ملاحدہ کی اندھی تقلید کرنے لگے اور اپنے ہی دین کی تعلیمات میں عیب تلاشنے لگے۔حقیقت یہ ہے کہ نئے انسان نے سائنس کے بل بوتے پہ مشیئت الٰہی کا خوب مذاق اڑایا لیکن انہوں نے انسانیت کو بہت نقصاں پہنچایا مثلاً اکیمیاوی ، جوہری اور حیاتیاتی ہتھیار کروڑوں انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنے ہیں اور یہ کرونا وائرس جدید ترین حیاتیاتی ہتھیار ہے جو ہمارے سامنے کروڑوں افراد کو کسی نہ کسی صورت متاثر کر چکا ہے اور انسانیت کے لیے درد سر بنا ہوا ہے ۔اگر مذہب نے اس بیماری کا کوئی علاج دریافت نہیں کیا تو جدید سائنس بھی اب تک اس کے علاج میں بے بس ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ جدید سائنس ہی اس وائرس کی پیدائش اور پھیلاؤ کی ذمہ دار ہے ۔
کرونا وائرس کے متعلق چینی حکام نے کہا ہے کہ یہ امریکہ کی لیبارٹری میں تیار کردہ حیاتیاتی ہتھیار (Biological Weapon) ہے جو چین کی آبادی اور معیشت کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔دوسری جانب امریکی اور برطانوی حکام اسے چین کی جینیاتی لیبارٹری کا تیار کردہ وائرس قرار دے رہے ہیں۔بہر حال یہ ایک انسانی تخلیق ہے جو جدید سائنس یعنی جینیاتی انجنئیرنگ کی مدد سے تیار کیا گیا لیکن اس نے انسانوں ہی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہزاروں کو موت کے گھاٹ اتارا ،لاکھوں کو متاثر کیا اوراربوں کو خوف میں مبتلاء کیا۔اہل مغرب کا وطیرہ ہے کہ وہ اپنے دشمن کو ہلاک کرنے کے لیئے حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال کرتے رہے ہیں اور اقوام متحدہ کی جانب سے حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کو دہشت گردی قرار دئیے جانے کے باوجود امریکہ، برطانیہ،روس اور چین دھڑلے سے ان ہتھیارون کی تیاری میں مصروف ہیں ۔ امریکہ پہ برطانوی قبضے کے بعد برطانیہ نے وہاں کے مقامی ریڈ انڈین قبائل کوختم کرنے کے لئے انہیں جراثیم آلود کمبل تحفے میں دیے جس کے نتیجے میں ریڈ انڈین لاکھوں کی تعداد میں چیچک کی وباء سے جاں بحق ہو گئے۔امریکہ نے ستر اور اسی کی دہائی میں افریقی سیاہ فام لوگوں کی نسل کشی کے لئیے ایچ آئی وی یعنی ایڈز جیسا حیاتیاتی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لاکھوں افریقیوں کی جان لی لیکن اب یہ مرض خود امریکہ کے شہریوں کے لئے درد سر بنا ہوا ہے ۔ اب یہ کرونا وائرس جو انفلوئنزہ اور ایڈز کے ملاپ سے تیار کیا گیا ہے تمام دنیا کے لیے وبال ِجان بنا ہوا ہے۔ ایک طرف انسانی زندگی خطرے میں ہے تو دوسری جانب بڑی طاقتوں سمیت کئی ممالک کی معیشت دیوالیے پن کے خطرے سے دوچار ہے ۔ ایسے میں مادہ پرست سائنسدان اس کی دوا دریافت کریں گے بھی تو مغرب کا سرمایہ دار فارماسوٹیکل مافیا علاج کی آڑ میں لوگوں کا خون نچوڑےگا۔

کرونا وائرس سے بچنے کے لئے جو تدابیر سائنس دان اور ڈاکٹر بتا رہے ہیں وہی تدابیر اسلامی تعلیمات بھی ہمیں بتا رہی ہیں ۔اگر عقلانیت کے دعویدار خود عقل کو استعمال کرتے ہوئے دینی تعلیمات کا مطالعہ کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ اس سے نجات کا راستہ تو دین نے ہی بتایا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے مہلک امراض سے بچاؤکے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تعلیم فرمائی ہے۔ ایک موقع پر آپ ﷺنے فرمایا: ’’جذام کے مریض سے بچو جیسے تم شیر سے بچتے ہو، (بخاری)‘‘۔ سیدنا اُسامہ بن زید ؓروایت کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’طاعون ایک صورتِ عذاب ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلی اُمّتوں یا بنی اسرائیل پر مُسلط فرمایا، سو جب کسی جگہ یہ بیماری پھیل جائے، تو وہاں کے لوگ اُس بستی سے باہر نہ جائیں اور جو اُس بستی سے باہر ہیں، وہ اُس میں داخل نہ ہوں، (مسلم)‘‘۔ سیدنا عمرؓ شام کے سفر پر جارہے تھے، سَرغ نامی بستی سے اُن کا گزر ہوا، سیدنا ابوعبیدہ بن جراحؓ اور اُن کے ساتھیوں نے بتایا کہ اِس بستی میں طاعون کی وبا پھیل گئی ہے۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے مہاجرین وانصار صحابۂ کرامؓ اور غزوۂ فتحِ مکہ میں شریک اکابرِ قریش سے مشورہ کیا، پھر اجتماعی مشاورت سے اُنہوں نے بستی میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ سیدنا ابو عبیدہ بن جراحؓ نے کہا: امیر المومنین! اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہو، انہوں نے جواب دیا: ہاں! اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اللہ کی تقدیر کی آغوش میں پناہ لے رہا ہوں۔ پھر سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ آئے اور اُنہوں نے کہا: اِس حوالے سے میرے پاس رسول اللہﷺ کی ہدایت موجود ہے، آپ ؐ نے فرمایا: ’’جب تم کسی بستی میں اِس وبا کے بارے میں سنو، تو وہاں نہ جاؤ اور اگر تم پہلے سے وہاں موجود ہو اور یہ وبا پھیل جائے تو وہاں سے بھاگ کر نہ جاؤ‘‘۔ یہ سن کر سیدنا عمر بن خطابؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنا سفر آگے کی طرف جاری رکھا، (مسلم)‘‘۔ ذرا غور کیجئے وباء سے بچنے کے لئے مریض سے دوری کاحکم ہے ، اور آمدو رفت بند کرنے کی ھدایت ۔ آج اطباء بھی یہی ہدایت کر رہے ہیں ۔اسی طرح آپ ﷺکا فرمان ہے: ’’بیمار کو تندرست سے الگ رکھا جائے، (مسلم) "۔اس میں قرنطینہ کی ہدایت موجود ہے۔ اسلام وہ واحد دین ہے جس میں ہاتھ ، پاؤں اور چہرے کا دھونا فرض ہے اور دن میں پانچ نمازوں کے لئے وضو میں ان اعضا ء کا دھونا فرض ہے ۔ اطباء اس مرض سے بچاؤ کے لئے صابن سے ہاتھ دھونے کا مشورہ دیتے ہیں ۔یہاں بھی اسلامی تعلیمات راہ میں حائل نہیں بلکہ سائنسی تعلیمات کا ساتھ دے رہی ہیں ۔اب اگر چھینکنے اور کھانسنے کے آداب کا جائزہ لیں تو بھی اسلامی تعلیمات کھانسنے اور چھینکنے کے وقت ناک اور منہ کے سامنے ہاتھ رکھنے کا حکم دیتی ہیں اور آج کے اطباء اور سائنسی ماہرین بھی تقریباً یہی درس دے رہے ہیں ۔اسلامی تعلیمات قرنطینہ اختیار کرنے کی ہدایت کر رہی ہیں لیکن مریض سے نفرت کے بجائے انسانی ہمدردی کا بھی درس دیتی ہیں ۔ حدیث میں ہے: ’’رسول اللہ ؐ نے جذام کے مریض کو اپنے ساتھ بٹھا کر ایک برتن میں کھانا کھلایا، (ابن ماجہ)‘‘۔ آپ ؐ کے اِس عمل کا مقصد یہ ہے کہ کسی وبائی مرض میں مبتلا مریض سے احتیاط تو کی جائے، لیکن اُس سے نفرت نہ کی جائے تاکہ اُسے حوصلہ ملے اور اُس کے دل میں احساسِ محرومی پیدا نہ ہو۔ آج بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ڈاکٹر اور طبی عملہ اسی سوچ اور جذبے کے ساتھ ایسے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔سائنس صرف علم کا نام ہے اس لیے وہ اپنے دائرہ کار تک ہدایات دے سکتی ہے لیکن دین کا دائرہ آفاقی ہے اس لیے وہ عقائد ، عبادات اور معاملات میں انسان کی راہنمائی کرتا ہے۔معاملات کے حوالے سے دینی تعلیمات تو اوپر بیان ہو چکیں ۔عقائد کے حوالے سے بھی ایسی صورتحال میں رہنمائی موجود ہے حدیث نبوی ہے کہ : ’’نبی کریم ﷺنے فرمایا: کوئی مرض (اپنی ذات سے) مُتعدی نہیں ہوتا، (بخاری)‘‘۔ جب رسول اللہ ﷺنے مرض کے بذاتہٖ مُتعدی ہونے کی نفی فرمائی تو ایک اَعرابی نے سوال کیا: یارسول اللہ! اُونٹ ریگستان میں ہرن کی طرح اُچھل کود کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی خارش زَدہ اُونٹ ریوڑ میں گھس جاتا ہے اور اُس کے نتیجے میں سارے اُونٹ خارش کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: پہلے اُونٹ کو خارش کہاں سے لگی، (مسلم)‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے مرض کے مُتعدی ہونے کی نفی نہیں فرمائی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی طرف مُتوجہ فرمایا اور بتایا کہ عالَم اسباب مُسبِّبُ الاسباب کے حکم کے تابع ہے۔ امراض میں متعدی ہونے کی تاثیر اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی ہے، لیکن وہ اللہ کی مشیت سے مؤثر ہوتی ہے، کسی چیز میں کوئی تاثیر ذاتی نہیں ہوتی، اگر ایسا ہوتا تو دوا استعمال کرنے والا اور طبیب سے رجوع کرنے والا ہر مریض تندرست ہوجاتا، لیکن عام طور پہ ایسا نہیں ہوتا، بلکہ جس کے لیے شافی رب کا حکم ہوتا ہے، اُس کے حق میں ڈاکٹر کی تشخیص بھی درست ہوتی ہے اور دوا بھی وسیلۂ شفا بن جاتی ہے ۔ جب بات عقیدے پہ آتی ہے تو موجودہ سائنس اور اسلام کا عقیدہ مختلف ہے ۔ سائنس اسے متعدی بیماری سمجھتی ہے اور اس کی وجہ جراثیم کو قرار دیتی ہے اور اس سے نجات کا واحد راستہ دوا کو سمجھتی ہے جو اب تک دریافت نہیں ہوئی ۔یعنی وجہ بھی مخلوق اور علاج بھی مخلوق سائنسی ماہرین کی دوڑ مادے سے شروع ہو کر مادے پہ ہی ختم ہوتی ہے اس میں خالق اور شافی ٔ مطلق کا کوئی عمل دخل سائنس داں تسلیم نہیں کرتے ۔ ایک خاص موقع پر ایسے وائرس کا پیدا ہونا اور انسانوں میں منتقل ہونا ہر سلیم الفطرت انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر کی کارفرمائی کو تسلیم کرے۔عقیدے کے حوالے سے بیان کردہ حدیث کو سمجھے میں ہمارے کچھ دینی حلقوں کو بھی مغالطہ ہوا ہے اور انہوں نے اس سے غلط نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کوئی بھی مرض متعدی نہیں ہے اور وہ مہلک امراض سے بچائو کے لیے حفاظتی تدابیر کو توکل کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طبی ماہرین کی کی ہدایات اور حکومتی آھکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کھلے عام مذہبی سرگرمیاں ، محافل ، اجتماعات عرس وغیرہ منعقد کر رہے ہیں۔ یہ سرگرمیاں نوافل کا درجہ رکھتی ہیں اور مباح اعمال ہیں ان کو فرض سے بھی زیادہ اہمیت دے کر اس صورتحال میں خود کو اور دوسروں کو تکلیف سے دوچار کرنا کسی بھی صورت دین کی خدمت نہیں۔ وہ خود کو بھی مصیبت میں مبتلاء کر رہے ہیں اور مغرب زدہ طبقے کو دینی تعلیمات کا مذاق اڑانے کا موقع بھی فراہم کر رہے ہیں۔ اوپر بیان کردہ دیگراحادیث سے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کہ مسلمانوں کو متعدی وبا سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہییں اور حفاظتی تدابیر کا اختیار کرنا توکُّل اور تقدیر پر ایمان کے منافی نہیں ہے، بلکہ توکُّل کی حقیقت اور تقدیر پر ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ اسباب کو اختیار کیا جائے، لیکن اَسباب کو مُؤثِّر بِالذّات ماننے کے بجائے خداوندِ مُسبّب الاسباب پر ایمان رکھا جائے، کیونکہ اسباب میں تاثیر اُسی نے پیدا کی ہے اور اُسی کے حکم سے یہ موثر ہوتی ہے۔

دین کا دائرہ کار عبادات پہ بھی ہے جو قلبی بھی ہوتی ہیں بدنی بھی اور مالی بھی ، اور ان کا مقصد انسان کو رب کے ساتھ جوڑنا ہوتا ہے ۔ دین اسلام میں فرض نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم ہے اسی طرح حج بیت اللہ بھی اجتماعی عبادت ہے اور اس میں بھی لوگ اکٹھے ہوتے ہیں ۔ البتہ دیگر عبادات چاہے فرض ہوں یا نوافل وہ گھر پہ ادا کی جا سکتی ہیں ۔ فرض نمازوں اور حج میں بھی خوف ، مرض یا ناتوانی میں رخصت دی گئی ہے البتہ مساجد کو بند کرنے اور حج کو منسوخ کرنے کی کوئی تعلیمات نہیں ہیں ۔ موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ جید علماء کرام اس موقع پہ اجتہادی فتاوی جاری کریں اور عوام اور حکومت کی راہنمائی کریں ۔ مفتی منیب الرحمن ، مفتی تقی عثمانی و دیگر علماء نے حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے پلیٹ فارم سے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے ، عوام کو چاہیے کہ ان کی ہدایات پہ عمل درآمد کریں ۔

تمام تر عبادتوں کی روح اور ان کی اصل دعا ہے ۔ یہ ایسی عبادت ہے کہ حرف ِدعا کے زبان تک آنے سے پہلے ہی رحمٰن کے عرش تک پہنچ جاتی ہے ۔ یہ دل کی جتنی گہرائی سے نکلے گی اتنی ہی پر تاثیر اور مقبول ہو گی ۔ توبہ و استغفار اور اخلاص پہ مبنی دعا رحمٰن رب کے ہاں مقبول ہوتی ہے ۔مغربی سائنسدان تو بیماری کو لا علاج قرار دے کر قرنطینہ تجویز کر کے بیٹھ گئے لیکن دین ایسے موقع پر امید فراہم کرتا ہے ۔ وہ ہے دعا و استغفار اور صدقہ ۔

سیدنا عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو شخص کسی مصیبت زدہ کو دیکھے اوریہ دعا پڑھے: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِی مِمَّا ابْتَلاَکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیلاً‘‘، ترجمہ: ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے بچایا جس میں تجھے مبتلا کیا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی‘‘، تو وہ زندگی بھر اس وبا سے محفوظ رہے گا، (ترمذی)‘‘۔ آپ ﷺنے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا مانگنے کی تعلیم فرمائی ہے: ’’اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا طلب گار ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے عفو و درگزر، اپنے دین و دنیا، اہل و عیال اور مال میں عافیت کی التجاکرتا ہوں، اے اللہ! ہماری ستر پوشی فرما، ہماری شرمگاہوں کی حفاظت فرما اور ہمیں خوف و خطرات سے محفوظ اور مامون فرما، اے اللہ! تو ہمارے آگے اور پیچھے سے، دائیں اور بائیں سے، اوپر سے حفاظت فرما اور میں اس بات سے تیری عظمت کی پناہ میں آتاہوں کہ میں اچانک اپنے نیچے سے پکڑ لیا جائوں، (ابودائود)‘‘۔ دعا سے متعلق ہماری غلط فہمی ہے کہ ہم احادیث مبارکہ میں وارد دعاؤں کو پڑ ھنے پہ اکتفا کر دیتے ہیں حالانکہ دعا دل سے مانگی جائے تب ہی قبول ہوتی ہے ۔دعا کے ساتھ دوسری چیز صدقہ ہے جو مالی عبادت ہے یہ بھی مشکل اور مصیبت کو رفع کرنے کا ذریعہ ہے ۔ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "پوشیدہ صدقہ اللہ تعالی کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے صلہ رحمی عمر میں اضافہ کرتی ہے نیک عمل آدمی کو برائی کے گڑھے میں گرنے سے بچاتی ہے" ( بیہقی)۔ "صدقہ سے رب کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور بری موت کو ٹالتا ہے (ترمذی)۔صدقہ ایک جانب مال کو بڑھاتا ہے دوسری جانب عمر کو بڑھاتا ہے تیسری جانب مشکلات اور مصائب سے نجات کا ذریعہ ہے اور سب سے بڑھ کر دعا کی قبولیت کا باعث بھی ہے ۔

دینی تعلیمات کی روشنی میں موجودہ صورتحال سے عہدہ برا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ روحانی تدابیر پر بھی عمل کریں۔اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے رجوع الی اللہ کریں ۔ اپنے گزشتہ گناہوں پہ نادم ہو کر رب سے استغفار کریں توبہ کریں اور اس موقع پہ صدقہ و خیرات کریں اور صلہ رحمی کریں ۔ اس وقت جو عبادت سب سے زیادہ محبوب ہے وہ صدقہ ہے ۔ اس صورتحال میں ہمارے ارد گرد کثیر تعداد میں لوگوں کے روزگار متاثر ہوئے ہیں ۔ یہ موقع ہے کہ ہم اپنے مال سے ان متاثرین کے چولہے گرم کر لیں اور ان کے لیے خوراک کا انتظام کریں ۔ حتی الوسع کسی کی امداد کریں ۔اپنے ہاں کام کرنے والوں کو بروقت اور پوری تنخواہ دے کر بھی یہ صدقہ ادا ہو سکتا ہے ، ادھار سودا خریدنے والے کاادھار معاف کر کے بھی ادا ہو سکتا ہے اور اپنے مال سے خرچ کر کے دوسرے کی تکلیف رفع کر کے بھی ہو سکتا ہے ۔ ایک دوسرے سے رابطے میں رہ کر ضرورت مندوں کا تعین بھی کیا جا سکتا ہے اور عادلانہ طریقے سے تقسیم بھی کیا جا سکتا ہے ۔ اور اپنے رشتہ داروں سے رابطہ اور ان کی امداد صلہ رحمی کا باعث بھی ہے۔جو لوگ اپنی زکوۃ کا حساب کر کے رمضان المبارک کے انتظار میں بیٹھے ہیں ان سے التماس ہے کہ زکوۃ ادا کرنے کا یہ صحیح موقع ہے ۔ اگر اس موقع پہ آپ کا مال کسی کے کام نہ آیا تو رمضان میں اسے ستر گنا نہیں کیا جائے گا۔ اور یقین جانیے یہی وقت ہے اپنے رب کو خوش کرنے کا اور توبہ کا ۔ اس وقت دین کی سب سے بڑی خدمت بھی یہی ہے کہ لوگوں کی جان کا تحفظ کیا جائے اور مالی ایثار کا مظاہرہ کیا جائے ۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی کا اقدام مستحسن ہے جس نے کرونا وائرس سے پیداشدہ نازک صورتحال میں الخدمت فاؤنڈیشن کے ذریعے ملک بھر میں پھیلے ہسپتال ، لیبارٹریاں اور طبی عملہ عوام کی خدمت کے لئے حکومت کوپیش کر دیا اور دوسری جانب متاثرین کو راشن فراہم کرنے اور آگاہی فراہم کرنے کی مہم بھی شروع کر دی ۔عوام اور حکومت دونوں کو چاہیے کہ اس مرض سے ڈرنے کے بجائے قوت ایمانی اور جذبۂ خدمت خلق کے ساتھ اس سے لڑنے کی تیاری کریں تاکہ نسل انسانی کی بقا ممکن ہو سکے ۔
مرنا تو اس جہاں میں کوئی حادثہ نہیں
اس دور ِ ناگوار میں جینا کمال ہے

موجودہ دور کی مہیب صورتحال تقاضا کر رہی ہے کہ اپنی چھوٹی اور بڑی غلطیوں پہ نادم ہو کر اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ توبہ کا دروازہ کھلا ہے انفرادی و اجتماعی طور پہ توبہ کر لی جائے ۔انسانوں کی لگائی ہوئی اس آگ نے انسانیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔اگر اموات کا سلسہ شروع ہو گیا تو حضرت انسان کے پاس اسے روکنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔بڑھتی ہوئی اموات ، تیزی سے تباہ ہوتی معیشتیں اور ویران ہوتی عبادت گاہیں اشارہ کر رہی ہیں کہ وہ وقت قریب آگیا ہے جب مہلت عمل ختم ہو جائے گی جب توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا ۔ وبا سے بچ جانے والے انسان وسائل کی جنگ تو شروع نہیں کر دیں گے اور حیاتیاتی ہتھیاروں سے بچ جانے والے انسان ایک دوسرے کو کیمیاوی اور جوہری ہتھیاروں سے فنا تو نہیں کر دیں گے ۔اگر ایسا ہوا تو پھر ایک حشر برپا ہو گا اور رب ہم سب سے پوچھے گا کہ اے حضرت انسان میں نے جس علم کو تمہاری جھولی میں ڈال کر تمہیں دیگر مخلوقات پہ فوقیت دی تھی تم نے اسی علم کی بنیاد پر میرے مقابل خود کو لانے کے لیے اپنے ہی آپ کو تباہ کر ڈالا۔تم نے دنیا کو بھی اپنے لیئے جہنم بنا دیا اور اب آخرت میں بھی جہنم کے مستحق ٹھہرے ۔ کیا تم دنیا میں اسلیے بھیجے گئے تھے ؟ کیا ہم جواب دے سکیں گے ؟ کاش یہ سب اندیشے اور خوف مل کر ہمیں خوف ِ خدا سے آشنا کر دیں اور یہ عذاب ہم سے ٹل جائے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ اس مہیب مرض سے انسانیت کو نجات دے کر مہلت عمل بڑھا دے ۔

 

Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 85 Articles with 105218 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More