اﷲ تعالیٰ کے ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشید ہوتی ہے
اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جو غوروفکرکرتے ہیں بلاشبہ غور و فکرکرنے
والوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں چونکہ مسلمانوں میں تحقیق اور تخلیق کا عنصر
بتدریج کم ہوتاجارہاہے اس لئے اﷲ تعالیٰ کی حکمت اور نبی پاک ﷺ کے ارشات کے
روشنی میں کماحقہ فائدہ بھی غیرمسلم ہی اٹھارہے ہیں جو ان کے لئے مالی
طورپرفائدہ مندبھی ثابت ہورہاہے اور اسی بناء پر انہوں نے ثابت کردکھایا ہے
کہ وہ دنیا کے ذہین ترین لوگ ہیں اب مسلمان عورتوں کی عدت بارے جدیدترین
تحقیقات ہوئیں تو اس میں خیرکی حکمت دریافت ہوئی کیونکہ اب ثابت ہوچکاہے کہ
مرد کا ڈی این اے (DNA) عورت کے جسم میں 4 ماہ 10 دن تک موجود رہتا ہے مسلم
عورتوں کی عدت اور ڈی این اے (DNA) کی سائنسی تحقیق کے حساب سے پاک باز عفت
مآب عورتوں کو خراج ِ تحسین پیش کیاہے۔فلوریڈا کا ایک ڈاکٹر جیمز انسانی
جسم کے ڈی این اے پر 1968ء میں ایک لیبارٹری میں کام کر رہا تھا وہ ایک
کرسچن تھا اس کی بیوی سیاہ فام تھی اور ان کے چار بچے تھے اس کے پڑوس میں
ایک مسلم فیملی رہتی تھی ڈاکٹر جیمز کی بیوی کا مسلم گھرانے میں آنا جانا
رہتا تھا مسلمان عورت کا مرد اسی دوران فوت ہو جاتا ہے اس لئے وہ عورت شوہر
کے انتقال کے بعد عدت میں بیٹھ جاتی ہے۔ ڈاکٹر جیمز کی بیوی اپنے شوہر سے
مسلمان عورت کی عدت کا ذکر اکثر گھر میں کرتی رہتی تھی کہ یہ کیسا مذہب ہے
جو عورت کو 4 ماہ 10 دن تک گھر میں قید کر رکھے اس پر وہ بھی سیخ پاہوتا کہ
یہ تو انسان کے بنیادی حقوق کے منافی حکم ہے پھر نہ جانے کیا ہوا ڈاکٹر
جیمز کو عدت کی سائنسی تحقیق کا شوق پیدا ہوا اور اس نے مسلم عورتوں کی عدت
کے دورانیے کی تحقیق اسلامی مطالعہ پر کی اور اس دوران ان کے جسم میں ڈی
این اے پر ریسرچ شروع کئے جوں جوں وہ تحقیق کرتا گیا اﷲ پاک اس ڈاکٹر کے
عقل کے پردے کھولتا چلا گیا-
وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ مسلم عورتیں دوسرے مذاہب کی عورتوں سے عدت کی وجہ
سے بھی پاکباز رہتی ھیں اس کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ ایک مرد کا ڈی این اے
عورت کے جسم میں 4 ماہ 10 دن تک موجود رہتاہے جب عورت کا شوہر فوت ہو جائے
یا عورت کو طلاق ہو جائے تو اسلام نے عورت پر 4 ماہ 10 دن عدت اس لئے لازمی
قرار دیا ہے تاکہ جب بیوہ یا مطلقہ عورت دوسری شادی کرے تو اس کے جسم میں
پہلے شوہر کے ڈی این اے کا وجود باقی نہ رہے جو مطلقہ یا بیوہ عورت 4 ماہ
10 دن کی عدت کے اندر دوسرے مرد سے شادی کر لیتی ہے وہ پاکباز نہیں ہوتی،
کیونکہ اس کے جسم میں پہلے شوہر کا ڈی این اے موجود ہوتا ہے جو کہ عدت کے
اندر شادی کرنے والی مطلقہ یا بیوہ عورت کے دوسرے شوہر سے پیدا ہونے والی
اولاد میں ٹرانسفر ہوجاتا ہے جس کی اسلام میں انتہائی ممانعت بیان کی گئی
ھے۔ یہ ریسرچ کرتے کرتے ڈاکٹر جیمز نے اپنی بیوی اور چاروں بچوں کے ڈی این
اے سیمپل اپنی لیب میں چیک کئے تو وہ نہ صرف حیران وپریشان بلکہ پیشمان
ہوگیا کہ تو اسکی بیوی کے جسم میں 4 مختلف مردوں کے سیمپل پائے گئے اور ان
کے بچوں میں سے سوائے ایک بیٹا کے باقی دو بیٹوں اور ایک بیٹی میں ڈاکٹر
جیمز کے علاوہ تین اور مردوں کے ڈی این اے سیمپل نکل آئے۔ ڈاکٹر جیمز نے
اپنے ایک بیٹا جس میں فقط ڈاکٹر اور اسکی بیوی کا ڈی این پایا گیا تھا اسکو
اپنے پاس رکھا اور بیوی کو طلاق دیدی اس نے دو بچوں کو ان کی ماں کے پاس
چھوڑ دیا اور خود مسلمان ہو گیا۔ اور کینیڈا جا کر ایک مسلم عورت سے شادی
کر لی۔ ڈاکٹر جیمز عیسائی مذہب چھوڑ کر اسلام کے دائرہ میں داخل ہو گیا اور
اپنا نام ڈاکٹر جون عمر رکھ لیا اس نے اپنی اس ریسرچ کو کینیڈا کے ایک
اخبار میں اپنی رپورٹوں کے ساتھ شائع کروایا تو ڈاکٹر جون عمر کے حلقہ
احباب میں سے کافی سارے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ یورپ میں ڈی این اے پر
سائنسی تحقیق 1960ء کے عشرے میں شروع کی گئی تھی جبکہ مذہب اسلام میں صدیوں
پہلے عدت کی بنا پر انسانی ڈی این اے کی طرف اشارہ دیا گیا ہے سچ ہے اﷲ
تعالیٰ کے ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشید ہوتی ہے اس کا اندازہ وہی
لگا سکتے ہیں جو غوروفکرکرتے ہیں بلاشبہ غور و فکرکرنے والوں کے لئے بہت
نشانیاں ہیں۔
|