دنیا میں جسمانی بیماری کی طرح ذہنی بیماریاں بھی جنم
لیتی ہیں۔ اس کے اسباب میں سے ایک تو یہ کہ ذہنی بیماری ماں باپ سے منتقل
ہو کر بچے میں پہنچے جس کو مڈیکل کی زبان میں genes کہا جاتا ہے یا زندگی
میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ وہ انسان کے لاشعور پر کچھ اس طرح
بیٹھتے ہیں کہ انسان کے ذہن سے ان خیالات کو نکالنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
بچے میں کسی بھی قسم کی پیدا ہونے والی ذہنی بیماری کو اگر محسوس نہ کیا
جائے تو یہ وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کر لیتی ہے۔ بیماری کی وجہ سے
انسان نارمل زندگی سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ کوئی کام توجہ سے کرنے اور اس
کو اچھے طریقے سے انجام تک پہنچانے سے بھی وہ قاصر ہو جاتا ہے۔ جس طرح
ٹائیفائیڈ ، diarrhea اور مختلف اقسام کی جسمانی بیماریوں کی وجہ سے ڈاکٹر
سے علاج کروانا لازم ہو جاتا ہے تاکہ انسان جسمانی طور پر جلد صحت یاب ہو
سکے بالکل اسی طرح ذہنی الجھنیں اور مسائل ماہر نفسیات کے ڈاکٹر کو دکھانے
سے انسان کی ذہنی صحت بحال ہوسکتی ہے۔ ہمارے ہاں پڑھے لکھے طبقوں میں وہ
لوگ جو ذہنی مسائل سے دوچار ہوئے یا اپنے کسی قریبی شخص کو اس حالت میں
دیکھنا ان سے برداشت نا ہوا یا جنہوں نے نفسیات کا اچھے سے مطالعہ کیا ان
کے نزدیک یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوتا اور وہ یہ سمجھ جاتے ہیں کہ ذہنی
بیماری میں مبتلا شخص بہتری کی طرف آ سکتا ہے۔ مگر پاکستان کی آدھی سے
زیادہ آبادی ایسے لوگوں پر منحصر ہے جو نفسیاتی مسئلہ کو ایک بڑا مسئلہ بنا
کر ایسے شخص کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں جو ذہنی بیماری کے مسئلے سے
دوچار ہو اور یہی تنگ اور چھوٹی سوچ کے لوگ رشتےناطوں میں دشواریاں پیدا
کرتے ہیں۔ ذہنی دباؤ اور مسائل سے دوچار شخص کسی دوسرے کے لیے، اس کے ساتھ
بسنے والے لوگوں کے لئے جب تک نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے جب تک اس کا مکمل
طور پر علاج نہ کروایا جائے۔ علاج کروانے سے وہ شخص بھی نارمل زندگی کی طرف
آسکتا ہے اور اس کو انجوائے کرسکتا ہے اور ہر کام صحیح طریقے سے سرانجام
دینے لگتا ہے اور ساتھ والوں کی زندگی بھی پر سکون اور مطمئن ہو جاتی ہے۔
مگر بہت سے لوگ ان مسئلوں سے دوچار لوگوں پر جنات کا اثر سمجھ کر پیر فقیر
کے پاس لے جاتے ہیں
اور وہ شخص ان چھوٹی سوچ رکھنے والے لوگوں کی زد میں آکر نفسیاتی دباؤ جیسی
اذیت کا نشانہ بنا رہتا ہے۔ مگر چھوٹی عقل رکھنے والے لوگ یہ نہیں سمجھتے
کہ ذہن اور جسم کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہوتا ہے اگر جسم بیمار ہو جائے
تو ذہن پر سکون نہیں رہ سکتا بالکل اسی طرح اگر ذہن بیمار ہو جائے تو جسم
بھی بے چینی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ذہنی دباؤ سے متعلق بہت سی بیماریاں ہیں خب
میں سے صرف چند کے نام آپکو واضح کرونگی۔
1) وسواسی اجباری اضطراب۔
(obsessive compulsive disorder)
2) eating disorder
3)شیزوفرینیا.
4) major depressive episode
5) بے خوابی۔
(insomnia disorder)
6) Anorexia Nervosa
7) Bulimia Nervosa
8) dissociative identity disorder
9) گھبراہٹ کا شکار
(Panic disorder)
10) ڈراؤنے خواب کا آنا۔
(Nightmare disorder)
11) آٹزم
(Autism)
12) تحریری اظہار میں خلل
(Disorder of written expression)
13) separation anxiety disorder
14) stuttering
15) agoraphobia
اس کے علاوہ بھی بے شمار ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں ہیں جن کا میں یہاں ذکر
نہیں کر سکتی۔
لیکن میری آپ سب سے گزارش ہے کہ اگر آپ بچے میں کسی بھی قسم کی نفسیاتی
الجھن کو پہچان لیں تو اس کو ماہر نفسیات کو دکھانے میں دیر نہ کیجیے ورنہ
وہ بیماری وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کر لیتی ہے اور پھر بچے کی زندگی کو
مشکل بنا دیتی ہے۔
برائے مہربانی اپنی سوچوں کو بلند کیجئے کیونکہ جس انسان کو نفسیاتی بیماری
ہو یا وہ نفسیاتی مسئلے سے دوچار ہو وہ انسان جتنی اذیت کو سہارا ہوتا ہے،
اس اذیت کو اس انسان کے علاوہ کوئی اور محسوس نہیں کر سکتا۔ یہ بظاہر اتنا
اذیت ناک نہیں لگتا لیکن جو شخص اس مسئلے سے دوچار ہوتا ہے اسکی اذیت کا
اندازہ صرف اسی کو ہوسکتا ہے۔
میری دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو عقل شعور عطا فرمائے۔ آمین |