نئی حکومت کے بعد سے وفاقی وزیر فواد چوہدری اپنے غیر
ذمہ دارانہ بیانات اور ٹوئٹس کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں۔ ان کے دل کی بھڑاس
ہمیشہ دینی و مذہبی لوگوں پر نکلتی ہے۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے ایک مرتبہ
پھر علماء کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’’
رجعت پسند مذہبی طبقے کی جہالت کی وجہ سے کورونا کی وباء پاکستان میں پھیلی
اب ہمیں کہتے ہیں اﷲ کا عذاب ہے توبہ کریں، اﷲ کا عذاب جہالت ہے جو ان
لوگوں کی صورت میں ہم پر مسلط ہے، علماء جو علم اور عقل رکھتے ہیں اﷲ کی
نعمت ہیں ان کی قدر کریں لیکن جہلاء کو عالم کا درجہ دینا تباہی ہے‘‘۔اس سے
پہلے وہ اسی طرح کے کئی غیر ذمہ دارانہ بیان جاری کرچکے ہیں کہ پاکستا ن کے
لیے سب سے بڑا خطرہ مولوی ہیں۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرچکے ہیں کہ ہمارے 75فیصد
مسائل کی وجہ علماء ہیں۔ اسی طرح جب عید اور چاند کا مسئلہ آتا ہے تو وہ
اپنی سائنس لے کر آجاتے ہیں اور علماء کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کردیتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ فواد چوہدری علم و عقل رکھنے والے جن
علماء کو اﷲ کی نعمت کہہ رہے ہیں وہ جاوید غامدی کی قبیل سے ہیں۔ فواد
چوہدری کو غامدی جیسے لوگ ہی پسند ہیں جو امت کی آسانی کے نام پر دین حق کے
اصولوں پر نقب زنی کرتے ہیں اور من مانی تاویلات کرکے امت کو گمراہ کرتے
ہیں۔ بہرحال مجموعی طور پر مذہبی طبقہ کے ساتھ حکومتی رویہ غیر مناسب ہے۔
ایک طرف دین بیزار وزراء ، صحافیوں اور لوگوں کا رویہ ہے کہ اپنا تن من دھن
سب کچھ مساجد اور علماء کے خلاف ہرزہ سرائی میں لگے رہتے ہیں۔ دوسری طرف
ریاست کو بھی اپنے علماء پر اعتماد نہیں ہے۔ صدرِ پاکستان کا اپنے ملک کے
علماء کو چھوڑ کرجامعہ ازہر سے فتویٰ منگوانا انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔
بحیثیتِ صدر اُن کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ پہلے اپنے ملک کے علماء سے بات
کرتے ۔ ان کی خدمت میں استفتاء بھیجتے۔ کم سے کم آئینی طور قائم کی جانے
والی اسلامی نظریاتی کونسل سے ہی رابطہ کرلیتے جہاں تمام مکاتبِ فکر کے
علماء کی نمائندگی موجود ہے۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ان کا یہ رویہ
اس بات کی واضح عکاسی کرتاہے کہ انہیں اپنے ملک کے علماء پر اعتماد نہیں
ہے۔ اگر انہوں نے یہ سمجھ کر مصرسے فتویٰ مانگا کہ وہاں کی بات کو سب ماننے
پر مجبور ہوجائیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے ، کیونکہ جامعہ ازہر والے
علماء بھی انسان ہی ہیں، وہ کوئی فرشتہ صفت مخلوق نہیں ہیں کہ جن سے غلطی
ہونا محال ہو، نعوذ باﷲ وہ کوئی خدائی یا رسالت کے منصب پر فائز نہیں ہے کہ
ان کی ہر بات درست اور قابلِ عمل ہوگی۔ جس طرح وہ علماء ہیں اسی طرح ہمارے
ملک میں بھی علماء ہیں ۔ جو کتابیں پڑھ کر وہ مسند افتاء پر بیٹھے ہیں ،
ہمارے ملک کے جید علماء اور مفتیانِ کرام نے بھی وہی کتابیں پڑھی ہیں۔
لہٰذا مذہبی و دینی طبقہ کو نظر انداز کرنے کارویہ قابلِ مذمت ہے۔ موجودہ
حکومت کا ہر معاملہ میں علماء کو نظر انداز کرنا یا انہیں تنقید کا نشانہ
بنانا ملک میں انتشار پھیلانے کا باعث ہے۔ اسی طرح قانون نافذ کرنے والے
اداروں کا علماء اور ائمہ مساجد سے شرمناک رویہ ، ان کے گھروں پر چھاپے اور
ان کی گرفتاریوں سے ایسا لگتا ہے کہ سب سے بڑے مجرم یہی ہیں۔ کسی بھی سیاسی
جماعت کے خلاف اتنی بڑی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی ، حتیٰ کہ مجرموں
کے خلاف بھی اتنی تیزی سے کار روائی نہیں کی جاتی جتنی تیزی سے علماء کے
خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا غیر منصفانہ رویہ
قابلِ مذمت اور قابلِ افسوس ہے۔ بازاروں اور سپر مارکیٹوں کا کھلا رہنا اور
مسجدوں کو تالے لگا نا اور انہیں سیل کرکے ائمہ مساجد کو گرفتا ر کرنا
انتہائی شرمناک رویہ ہے۔ حکومتی وزراء کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان
اسلام کے نام پر بنا ہے۔ جب حکومتی سطح پر اسلام کے یا ورثائے اسلام کے
نقوش مٹانے یا ان کی حیثیت کم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ملک افرتفری کا
شکار ہوگا۔ تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ جب کبھی ریاست نے اپنے ملک میں کسی
طبقہ کو جبراً کچلنے کی کوشش کی تو اس کے نقصان کا ازالہ کبھی نہیں ہوسکا۔
بہرحال ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ فواد چوہدری جیسے
فتنہ پرور وزراء کو لگام دی جائے۔ پہلے ہی کورونا وائرس کی وجہ سے پوری قوم
پریشان ہے۔ ایسے وقت میں پورے ملک میں اتحاد کی ضرورت ہے۔ تنقید اور طعن و
تشنیع سے مسائل زیادہ بڑھ سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کورونا وائرس
کی صورتحال کنٹرول سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے میں
ہر طبقہ کو ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ چاہے وہ علماء کا طبقہ
ہویا سیاسی طبقہ ہو، سب کو ایک قوم بن کر ملک کو درپیش مسائل سے نکالنے کی
ضرور ت ہے۔ اگر یہی رویہ رہا اور مذہب اور ریاست کے درمیان عدم اعتماد کی
کیفیت رہی تو ملک خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے۔
|