پاکستان میں کورونا وائرس کو بڑھانے میں حکومت
پاکستان کا پورا ہاتھ ہے۔وہ وقت یاد کرو جب وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی
شاہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ایران کے تافتان بارڈر سے کورونا لے کر
پاکستان میں داخل ہونے والے زائرین کے ٹیسٹ اور کرنطینہ میں رکھنے کے حکومت
انتظمات کرے اور کسی کو بھی بغیر کورونا ٹیسٹ کئے پاکستان میں پھیلنے سے
روکا جائے۔ مگر عمران نیازی اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے ہوئے ’’تھوتھا چنا
باجے گھنا‘‘ کے مصداق نے اور ان کی ناکام حکومت نے اس معاملے پر کان نہ
دھرے اور سونے پہ سہا یہ کہ وزیرِ اعظم کی این ٹی ایم مشین خاص اورخاص دوست
زلفی بخاری نے ان لو گوں کو بغیر کسی حفاظتی انتظامات کے پورے پاکستان میں
پھیل جانے دیا۔عقلِ کل صوبوں اور ملک میں لاک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ مخالفت
پر کمر بستہ رہتے ہوئے ملک میں اس خطرناک وائرس کوداخل ہونے میں اپنا اہم
حصہ ڈالکراس مہلک وبا سے ملک کو محفوظ رکھنے کی کو شش کرنے کی بجائے وباء
کو ملک کے چپے چپے میں پھیلا کر روزانہ میڈیا پر آ آ کر جیسا راجہ ویسے
مشیروں کے مشوروں سے بے معنی بین بجانا شروع کیا ہوا ہے۔
ہمیں یہ دیکھنا ہو گاکورونا وائرس ہے کیا بلا؟کورونا کو کو وڈ 19یا امریکہ
نے چائنا وائرس کیوں کہا ہے۔شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بیماری سب سے پہلے
چین کے شہر وہان میں تباہی مچاتی ہوئی دیکھی گئی تھی۔ اس وائرس سے متاثرہ
لوگوں کے اندر بظاہر بخار کے ساتھ خشک کھانسی گلے اور جسم میں شدید درد کا
احساس ہوتا ہے۔ چھ سات دن کے بعد سانس لینے میں شدید دشواری کی علامت ظاہر
ہونا شروع ہو جاتی ہے۔اس کیفیت میں مریض کو فوری طور پر طبی مرکز کا رخ کر
لینا چاہئے یا سیف کورنتینا میں چلے جاناچاہئے۔عام نزلے زکام کے بر عکس اس
انفیکشن سے ناک بہنے اور چھینکوں کی علامات نہایت ہی کم ہوتی ہیں۔ چینی
تحقیقات کے مطابق کورونا وائرس کی بنیادی علامت بخار کا ہونا بتایا گیا
ہے۔50%سے زائد مریضوں میں تھکاوٹ اور خشک کھانسی کی علامتیں پائی گئی ہیں
جبکہ ایک تہائی کو سانس لینے میں دشواری اور شدید جوڑوں کے درد اور دردِ
سرکی علامتیں پائی گئی ہیں۔ بعض مریضوں میں متلی، دست اور ہاضمے کی خرابی
کی شکایت بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ وائرس متاثرہ شخص کی کھانسی یا چھینک سے
خارج ہو کر قریب موجود افراد میں سانس کے ساتھ تیزی کے ساتھ منتقل ہوجاتا
ہے۔جو مریض کے تھوک میں بھی پایا جاتا ہے۔زیادہ تر یہ وائرس بچوں، نحیف
بزرگوں کو تیزی سے متاثر کرتا ہے۔ایسے افراد کو وائرس کی موجوگی میں اپنے
لئے سخت حفاظتی اقدامات کر ناچاہئیں۔یہ وائرس نوجوانوں کو بھی اسی طرح
متاثر کرتا ہے۔
اس مرض سے کیونکر بچا جائے؟ یہ بات ہر فرد کے ذہن میں رہنی چاہئے کہ اس
وائرس سے کوئی بھی بوڑھا بچہ جوان، عورت مرد متاثر ہو سکتا ہے۔ لیکن اس سے
مزید خطرہ پہلے سے بیمار اورکمزور قوت مدافعت رکھنے والوں کو ہوتا ہے۔ دمے
کے مریض کورونا سے بڑی تیزی سے متا ثر ہو سکتے ہیں۔ انگلینڈ کے ڈاکٹر ڈین
ہاورڈ کہتے ہیں کہ ذیابیطس کے مریضوں کو کورونا وائرس بڑی تیزے کے ساتھ
متاثر کرتا ہے۔اگر کسی کو تیز بخار نزلہ کھانسی اور سانس لینے میں دشواری
محسوس ہو رہی ہو تو ایسے لوگوں کو فوراََ حفاظتی اقدمات کی طرف متوجہ
ہوجانابے حد ضروری ہے۔ہمیں یہ بات ہر حال میں ذہن نشین ہونی چاہئے کہ
کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کی کھانسی، چھینک اور تھوک دوسرے لوگوں کو
متاثر کا بڑا ذریعہ ہیں بسوں ویگنوں میں ایسے مریضوں کا سفر کرنا عوام
الناس کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایسے مریضوں کے جسم،کپڑوں اور استعمال شدہ
چیزوں سے دور رہا جائے تو ہم اس وائرس کی تباہ کاریوں کا شکار ہونے سے بچ
سکتے ہیں۔ورنہ یہ موذی وائرس کسی پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔مورخہ یکم
اپریل تک امریکہ میں 188,578 رپورت ہو چکے ہیں جن میں سے3890، اموات ہوچکی
ہیں۔جن میں خطر ناک کیفیت میں مبتلا4576،افراد ہیں ۔جبکہ چین میں 81518کیسز
رپورٹ ہوئے اور اموات 3365 ہوئیں اور خطر ناک کیفیت میں 528کیسز ہیں۔اٹلی
میں متاثرہ افراد کی تعداد185792میں سے 12428لوگ موت کے منہ میں چلے
گئے۔اور 4025 خطر ناک کیفیت میں مبتلا ہیں۔ان کے مقابلے میں ہندو پاکستان
دنیا کے گرم خطے ہیں جہاں متاثرہ افراد کی تعداد نسبتاََ کم ہے۔
پاکستان میں حکمرانی کی نا اہلیت کا ثمر یہ ہے کہ ہندوستان ایک کروڑ بیس
لاکھ آبادی کا ملک کرونا اثرات میں آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے کہیں پیچھے
اپنی مثبت حکمتِ عملی کے تحت ہے۔ جب کہ کرونا مریضوں کی تعداد کل 1397ہے ۔
جہاں صرف 33اموات ہوئی ہیں اور خطر ناک کیفیت میں کوئی ایک بھی مریض نہیں
ہے۔اس کے مقابلے میں پاکستان میں نا اہل حکمرانوں کی موجودگی میں بیس کروڑ
کی آبادی میں سے 1938،کیسز رپورٹ ہوئے اور 26،اموات ہوئیں اور 12 کرونا
افکیٹیڈ مریض خطر ناک کیفیت میں مبتلا ہیں۔ہندوستان نے کرونا وائرس سے اپنی
بڑی آبادی کو لاک ڈاؤن کر کے محفوظ رکھا ۔جس پر مودی نے اپنے عوام سے معافی
مانگ کر مزید لاک ڈاؤن کے ذریعے ملک کی حکمت ِ عملی جاری رکھنے کا کہا
ہے۔مگر ہمارا وزیر اعظم دوسرے دن کی بانسری بجاتے ہوئے جھوٹ کا سہارا لے کر
عوام کو بیوقوف بنانے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ
مودی نے لوک ڈاؤن پر معافی مانگی ہے اسلئے میں ملک میں لاک ڈاؤن نہں ہیں
ہونے دون گا۔حکمرانوں کی کوئی مثبت حکمتِ عملی کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی
ہے۔
|