اچھے دن کب آئیں گے؟
جموں و کشمیر کے باشندے اگست کے مہینے سے انٹر نیٹ کی سہولت سے محروم
ہیں۔جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی لوگ قدیم زمانے کی زندگی بسر کرنے پر
مجبور ہیں،تاجر طبقہ اور خاص کر طلاب کو انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے
شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ یوں تو ماہ اگست سے ہی لوگ گھروں میں قید ہو کر
لاک ڈائون کی قہر سامانیاںسہنے کیلئے مجبور تھے لیکن اب جب کہ سرکار نے لاک
ڈائون میں نرمی لائی تو کوڈ19کی صورت میں ایک اور مشکل کے ساتھ لوگوں کا
پالا پڑ گیا۔ سرکاری لاک ڈائون میں تو انٹرنیٹ خدمات مکمل طور سے بند کر دی
گئی تھی لیکن اب سرکار نےقدیم زمانہ کی روایت کو دہراتے ہوئےصرف2جی انٹرنیٹ
خدمات بحال کی ہیں جو کہ صارفین کے ساتھ ایک بھدا مذاق ہے۔کمپنیاں تو
صارفین سے 4جی ڈاٹا پیک کا پیسہ وصولتے ہیں لیکن اسے ستم ظریفی کہا جائےیا
بدقسمتی کہ صارفین کو4جی پیک کے عوض صرف 2جی انٹرنیٹ کی خدمات میسرہیں، کیا
سرکار اور ٹیلی کام کمپنیوں کی ملی بھگت کا کھلا ثبوت نہیں ہے ، کیایہ ٹیلی
کام کمپنیوں کا اپنے صارفین کے ساتھ اور سرکار کا عوام کے ساتھ دھوکہ دھڑی
نہیںہے؟کیا یہ دغابازی نہیں ہے،؟ کیا یہ چال بازی نہیں ہے ؟کیا یہ مکاری
نہیں؟ کیا یہ فریب کاری نہیں ہے؟ کیا یہ لوگوں کو بیوقوف بنانے کا افسوسناک
حربہ نہیں ہے؟
جی ہاں یہ سرکار کی ہٹ دھرمی ہے، عوام کے ساتھ بے رحمانہ سلوک ہے،ظلم ہے،
بربریت ہے، ڈیجیٹل انڈیا کے نام پر ایک ایسا سیاہ دھبہ ہے جو سات سمندروں
کے پانیوں سے بھی صاف نہیں ہو سکتا، یہ سرکاری لوٹ مار ہے،یہ سرکار کی طرف
سے عوام کو ایک کڑا پیغام ہے کہ دیکھ لو ہم چاہیے تو کیا نہیں کر سکتے۔ ہم
چاہیں تو تمہیں عمربھرقید خانہ میں رکھ سکتے ہیں، ہم چاہیے تو تمہیں آزاد
کر کے عیاشیاں کراسکتے ہیں، تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھئے صاحب عیاں ہوتا
ہے کہ دلی سرکار نے جموں وکشمیرکو سوائے سیاسی چراگاہ کے اور کچھ نہیں
سمجھا ہے۔ لال قلعے کی فصیل سے جموںو کشمیر کو بھارت کا تاج کہنے والے آج
اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو معلوم ہوگا جس جموں و کشمیر کو وہ
بھارت کا تاج کہتے ہیں وہاں جدید ٹیکنالوجی کے اِس دور میں لوگ انٹرنیٹجیسی
اہم خدمات سے محروم رکھے گئے ہیں۔ لاکھ منت سماجت اور مطالبات کے باجود بھی
جموں و کشمیر میں ۴ جی انٹرنیٹ خدمات کی بحالی ایک خواب بن کر رہ گیا۔
کووڈ 19کے پھیلائو کے پیش نظرایک طرف پبلک مقامات کے ساتھ ساتھ بینکوں میں
جانے سے منع کیا جارہا ہے اور ای بینکنگ پرز ور دیا جارہا ہے تو دوسری طرف
وادی میں موبائل انٹرنیٹ پر 4جی رفتار بدستور بند ہے جس کے نتیجے میں لوگ
بینکوں اور دیگر جگہوں پر جانے کیلئے مجبور ہیں ۔ اس کے علاوہ اگرچہ کئی
ریاستوںمیں ای کلاسز شروع کی جاچکی ہیں اور سکول و کالج بند رہنے کی صورت
میں طلبہ کو انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن پڑھایا جاتا ہے تاہم جموں و کشمیر
میں فور جی انٹرنیٹ پر سرکاری قدغن بدستور جاری ہے۔کوروناوائرس نے ایک
عالمی وبائی صورت اختیار کی ہے اور اب تک اس وائرس میں مبتلاء ہونے والوں
کی تعداد لاکھوں میں ہو گئی ہے جبکہ دنیا بھر میںاس مہلک وبا کی وجہ
سےسینکڑوں افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں جس کے پیش نظر دنیا بھر میں
لوگوں کو اپنے گھروں سے باہر نکلنے کیلئے احتیاط برتنے کا مشورہ دیا گیا ہے
جبکہ جموں کشمیر میں بھی سرکاری سطح پر بڑے بڑے اقدامات اُٹھائے جارہے
ہیںتاکہ اس وائرس کے پھیلائو پر قابو پایا جاسکے اس ضمن میں لوگوں کو پبلک
مقامات، یہاں تک کہ عبادت گاہوں میں جانےپر بھی پابندی ہے۔سرکار کی جانب سے
گھروں میں ہی بیٹھے رہنے پر آئے روز نئے نئے احکامات صادر کئے جا رہے
ہیںلیکن عوام کی جانب سے بار بار کی جانے والے فور جی انٹر نیٹ خدمات بحالی
کی مانگ سرکار کے ٹھنڈے بستے میں ہے۔ سرکار عوام کی اِس مانگ کو لیکر مکمل
طور ہٹ دھرمی اپنائے ہوئی ہے، سرکار کوئی چاہیے کہ طاقت کا استعمال کئے
بغیر اور اپنے ہٹ دھرم رویہ میں نرمی لاکر فور جی انٹرنیٹ خدمات کی بحالی
کو ممکن بنائے وگرنہ یہ صاف عیاں ہو رہا ہے کہ ٹیلی کام کمپنیوں اور سرکاری
کی آپس ملی بھگت سے لوگوں کو دو دو ہاتھ لوٹا جا رہا ہے جو کہ انتہائی
افسوسناک ہے اور اک جمہوریت زناٹےدار طمانچہ ہے۔آخر میںسرکار کے نام بس
یہی پیغام ہے
اچھے دن کب آئیں گے
کیا یوں ہی مر جائیں گے
اپنے آپ کو خوابوں سے
کب تک ہم بہلائیں گے
بمبئی میں ٹھہریں گے کہاں
دلی میں کیا کھائیں گے
اچھے دن کب آئیں گے
ہمکو بھی تو بتا دو مودی
اچھے دن کب آئیں گے
اچھے دن کب آئیں گے
|