جس دن سے آفس والوں نے ورک فرام ہوم کی سہولت دی اس دن کے
بعد میںکسی بھی کام سے اپنے گھر سے باہر نہیں نکلی اور انتہائی ضروری کام
کیلئے بھی گھر کا کوئی ایک فرد باہر جاکر وہ کام نمٹاتا ہے اورواپس آکر
تمام حفاظتی اقدامات مکمل کرتا ہے۔ اس دوران میں نے نہایت تسلسل کےساتھ
قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر دنیا بھر میں کورونا کی صورتحال کو مانیٹر
کیا ۔گزرے ہوئے تمام دنوں میں مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ہم ایک
انتہائی ناعاقبت اندیش قوم ہیں جنہیں ایک چھوٹی سی بات سمجھ نہیں آرہی کہ”
ہمیں اس وقت ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے جس سے لڑنے کیلئے کسی بھی قسم کے
ہتھیار کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی بھی ہتھیار سے ڈرنے اور بھاگ
جانے والا ہے۔ اس کے نمٹنے کیلئے صرف اور صرف سماجی رابطوں کو توڑنا ہے اور
وہ بھی 15سے30دن کیلئے ۔
عجب تماشا ہے‘ قرنطینے میں جانے والے مظاہروں کیلئے نکل پڑتے ہیں‘ شدید
متاثرہ ممالک سے واپس آنے والے رشتے داروں سے گلے ملتے اور وائرس کا شکار
ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔ لاک ڈاﺅن کے معنوں کو
شرمندہ کرنے کیلئے نوجوان لڑکے گھروں سے باہر ٹولیوں کی صورت میں مختلف طرح
کے گیمز کھیل رہے ہیں‘ مائیں اس زعم میں کہ کرونا وائرس ان کے بچوں کو تو
پہچانتا ہی نہیں ہے ‘ انہیں گھروں سے باہر دھکیلے ہوئے ہیں۔ہمارے بزرگ جو
گھروں کے سربراہان کے طور پر جانے جاتے ہیں اپنے دیرینہ دوستوں کو کیسے
چھوڑ سکتے ہیں تو چار‘ چار اور چھ‘ چھ کی ٹولیوں میں انہیں بھی آپ گھروں سے
باہر کرسیاں ڈالے کچہری کرتے دیکھ سکتے ہیں۔لوگ اپنی سیاست اور نام چمکانے
کیلئے لوگوں میں راشن تقسیم کرنے کیلئے مجمع اکٹھا کرلیتے ہیں‘ کہیں بھوک
سے مجبور عوام پرہجوم دسترخوان پر کھانا تناول کرتے نظر آتے ہیں ۔
کسی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ ڈالی تھی کہ ہمیں کورونا کے ساتھ ساتھ قومی
جہالت‘ بدنظمی ‘ بے حسی اور سرکشی جیسے عوامل کا بھی سامنا ہے۔ ایک ایسا
جرثومہ جومحض چھونے سے ہی منتقل ہورہا ہے کو نے اسے مذاق سمجھ لیا ہے۔ لو
گوں نے کھانے پینے کے مراکز بند نہیں کئے بلکہ آن لائن ڈیلیوریز شروع کردیں
جیسے کہ کورونا آن لائن کھانا پہنچانے والوں کا دوست ہے اور اگر وہاں موجود
کسی ورکر کو کورونا ہے تو اس پیکنگ کے ہمراہ ہمارے گھروں تک نہیں آسکتا ۔
مایوس کن صورتحال یہ ہے کہ ایک جانب ڈاکٹرز‘ نرسز‘ پیرا میڈیکل اسٹاف ‘ فوج
‘ پولیس اورصحافی اپنی جانوں پر کھیل کرقوم کو اس وائرس سے بچانے کی جنگ
لڑرہے ہیں دوسری جانب ہم عوام انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے ان کی
قربانیوں کو رائیگاں کررہے ہیں۔یہ وقت ٹی وی پر 10سیکنڈ کی کلپ بھیج کر ‘
سفید جھنڈے ہاتھو ں میںلینے اور گانے گاکر کسی کی قربانیوں کے اعتراف کا
نہیں جس کیلئے 30سے 40لوگوں کو اکٹھاہونا ہی پڑا بلکہ یہ وقت ہے اپنے‘ اپنے
گھروں میں خاموشی سے بیٹھ کر ایسے لوگوں کیلئے دعاگو ہونے کا ۔ایک ایسے وقت
میں جب اللہ کے گھر کے گرد طواف کرنے والے نہیں ہیں‘ مجبوری حالات کہ ہماری
مساجد خالی ہیں اور ہم خواہش کے باوجود وہاں محض اس لئے نہیں جاسکتے کہ
کہیں ہم دوسروں اور خود اپنے لئے خطرہ نہ بن جائیں‘ ایسے میں صرف اور صرف
اپنے گھروں تک محدود ہوجائیں۔ گزشتہ ایک مہینے سے تسلسل کے ساتھ ہر ٹی وی
چینل‘ ہر میزبان‘ ہر سیاستدان‘ ہر اداکار‘ ہر سماجی کارکن صرف ایک ہی بات
کہہ رہا ہے کہ دوسروں سے دور ہوجائیں سیلف آئیسولیشن اختیار کریں ۔نہ کسی
کو اپنے گھر آنے دیں اور نہ ہی کسی کے گھر جائیں ۔ خود احتیاط کریں اور
دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔
یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ گزشتہ دنوں چند بوندیں بارش کی برسیں تو
پکوڑے اور سموسے کی دکانیں سج گئیں‘ من موجیوں کی ٹولیاں موٹرسائیکلوں پر
باہر نکل آئی ‘ میں نے کئی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ موت کا وقت مقرر
ہے اگر وہ کورونا وائرس کے ذریعے لکھی ہے تو اسی کے ذریعے آئے گی‘ بزدلوں
کی طرح گھروں میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ ایسے میں کیا کرے گی ہماری
فوج اور کیا کریں گے حکمران۔
صرف ایک چھوٹی بات سمجھ لیں کہ کورونا وائرس کو شکست دینے کا صرف ایک ہی
طریقہ ہے اور وہ ہے گھر میں بیٹھنا بصورت دیگر ہمیں ایک ایسی صورتحال کا
سامنا کرنا پڑے گا جس کا تصور بھی محال ہے۔کورونا وائرس کا شکار ممالک میں
امریکہ جیسا سپرپاور ملک پہلے نمبر ہے جس کے پاس یقینا سہولیات ہم سے ایک
ہزار گنا بہتر ہیں اس کے باوجود وہ ملک طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی بات
کرتے ہوئے چین سے مدد مانگنے پر مجبور ہوگیا ایسے میں ہم تو کہیں بھی نہیں
کھڑے۔
ایک لمحے کیلئے سوچئے کب جب امریکہ جیسا طاقت ور ملک اس وائرس کی تباہ
کاریوں پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہا ہے تو پھر ہم کس کھیت کی مولی ہیں-
پاکستان ایک ایسا ترقی پذیر ملک ہے جس کے پاس طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر
ہیں جس کا ہم صحافی ہمیشہ ہی رونا روتے رہے اورعوامی سطح پر اس حوالے سے
آگاہی مہم چلانے کے ساتھ ساتھ حکومتی حلقوں کو اس ضمن میں سنجیدگی اختیار
کرنے پر مجبور کرتے رہے لیکن آج بھی پاکستان میں طبی سہولیات کا شدید فقدان
ہے ایسے میں کسی بین الاقوامی وبا سے نمٹنے کا ہم میں حوصلہ ہی نہیں ہے
لہٰذا ہوش کے ناخن لیں اور خود کو گھروں تک محدود کرلیں۔غیر ضروری طور پر
گھروں سے باہر نہ نکلیں‘ اگر باہر نکلنا نہایت ضروری ہے تو تمام احتیاطی
تدابیر اختیار کریں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ موت برحق ہے ‘ اپنے وقت پر
آئے گی اور جس طرح سے اللہ رب العزت نے لکھ دی ہے ویسے ہی آئے گی لیکن کوئی
مذہب اپنی اور اپنے پیاروں کی جان خطرے میں ڈالنے کو نہیں کہتا۔ یہ وقتی
مسئلہ ہے جو وقت کے ساتھ حل ہوجائے گا۔ خدا کیلئے حکومت کا ساتھ دیں‘ ہماری
حکومت اتنی مضبوط نہیں ہے کہ وہ اتنے بڑے مسئلے سے نمٹ سکے ‘ اس اہم ترین
جانی مسئلے سے نمٹنے کیلئے سب کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی۔ آنے
والے15دن نہایت اہم ہیں‘ اس میں اپنے گھروں سے نہ نکلیں۔تفریح کرنے‘ کھانے
پینے‘ گھومنے پھرنے کیلئے عمر پڑی ہے بلکہ زندگی ہوگی تو یہ سب ہوسکے گا
خدارا معاملے کی سنگینی کو سمجھیں اور سمجھداری کا ثبوت دیں۔
|