دنیا بھر میں کورونا وائرس کا شورمچاہواہے یہ وباء
اتنی بھیانک ہے کہ ہرطرف خوف وہراس ہے اس سے متاثرین کے لوگ قریب بھی نہیں
جاتے جن کے لئے مریض ساری زندگی کما کما کر تھک جاتاہے جن کو ایک خراش لگے
تو اس کی نیند حرام ہوجاتی تھی وہ بھی ا س کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں حتیٰ
ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف بھی ان سے خوف کھاتا ہے پچھلے دنوں لاہورکے میو
ہسپتال میں کورونا وائرس کا ایک مریض طبی امداد کیلئے کئی گھنٹے
چلاتارہاکوئی اس کے قریب بھی نہ پھٹکا اسی دوران بے بسی کے عالم میں اس کی
موت ہوگئی اس کی سنگینی کااندازہ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ چین اور
اٹلی میں ہزاروں افراد دیکھتے ہی دیکھتے لقمہ ٔ اجل بن گئے یہ وباء اتنی
تیزی سے پھیلی کہ لوگوں کو سنبھلنے کاموقعہ ہی نہ ملا کہیں بچے، کہیں بوڑھے
اورکہیں عورتیں سڑکوں پر چلتی چلتی اچانک گرتیں خوفناک انداز میں چیختیں
کسی کو قے آتی، کسی کا خون آلودہ تھوک اسی کے کپڑوں پر گرتاکوئی تیڑھا
میڑھاہوکر آڑا ترچھاوہیں جان دے دیتا۔سینکڑوں بچوں نے اپنے والدین کے
ہاتھوں میں چل بسے اور جن کے ہاتھوں میں ان کے پیارے جان بحق ہوئے وہ بھی
اس وائرس کا شکارہوگئے ان کاانجام بھی اسی انداز سے ہوگیا گھر،بس سٹاپ،
سڑکیں،دفاتر،ہوٹل ،شاپنگ مال الغرض ہرجگہ لوگ مرتے چلے گئے شہرکے شہرلاشوں
سے بھرگئے گھنٹوں کوئی لاشوں کو اٹھانے والا نہیں آیا سب کے سب خوفزدہ تھے
ڈرے، ڈرے،سہمے،سہمے سب پر موت کا خوف طاری تھا جو ایک ایک خراش لگنے پر
آسمان سرپر اٹھالیاکرتے تھے ان کے دلخراش واقعات سننے والا کوئی زندہ نہیں
بچا کیونکہ یہ وباء یہ مرض کتنا خوفناک ہے ا س کا اندازہ ان2 واقعات سے
لگایاجاسکتاہے جو قیامت سے کچھ کم نہیں ہیں؟ ایک فرانسیسی ڈاکٹر نے "Tv5"
نامی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
آج ایک گھڑی ایسی آئی کہ مجھے لگا میں "شدت تکلیف سے" اندر ہی اندر جھلس
رہا ہوں۔
ہوا یہ کہ "کرونا" کے ایک مریض نے اپنے آخری وقت میں ہم سے درخواست کی کہ
وہ آخری مرتبہ اپنی اولاد سے ملنا چاہتا ہے۔ پہلے تو ہم نے صاف انکار کر
دیا۔لیکن جب وہ بری طرح رو رو کر اصرار کرنے لگا کہ اب زندگی کا کیا بھروسہ
میں آخری وقت اپنے پیاروں کو دیکھناچاہتاہوں ان سے باتیں کرنے کو دل
مچلتاہے تو ہمیں اس پر بہت ترس آیا اور ہم نے اس کی بات ماننے کا فیصلہ کیا۔
چنانچہ ہم ایک جگہ کاانتخاب کیا خصوصی طور پر صفائی اور دیگرحفاظتی
انتظامات کئے تاکہ مریض کے گھر والوں کے لئے کوئی خطرہ نہ رہے۔ پھر "بطور
ڈاکٹر" جب ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ اب "وہ " کسی اندیشہ کے بغیر آسکتے ہیں تو
ہم نے "موت کی آغوش میں آخری سانسیں لیتے شخص کی " آخری خواہش " پوری کرنے
کیلئے " اس کے گھر والوں کو فون کیا۔
لیکن بہت افسوس کے ساتھ یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ مریض کے گھر والوں نے باپ سے
آخری مرتبہ ملنے سے انکار کردیا کہ کہیں ان کو بھی یہ وائرس نہ لگ جائے۔
ہم نے ان سے بہت التجا کی اور لاکھ یقین دلایاکہ ہم نے حدسے زیادہ احتیاطی
تدابیر کر لی ہیں اور آپ کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن وہ نہیں مانے اور
فون کاٹ دیا۔ یہ کہتے ہوئے فرانسیسی ڈاکٹر آبدیدہ ہوگیا۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن
کریم میں قیامت کا ہولناک منظر کھینچتے ہوئے فرمایا: یہ وہ دن ہے کہ جس دن
انسان اپنے بھائی سے بھاگے گا،اپنے ماں باپ اور اپنی بیوی بچوں سے دور
بھاگے گا۔ میرے نزدیک تو یہ قیامت کاسا منظر تھا۔۔دوسرا واقعہ سوشل میڈیا
پر گردش کرتی ایک دلخراش تصویر ہے جس نے دنیا کی بے ثباتی آشکارکرکے رکھ دی
ہے اس کی آنکھوں کی یہ بے بسی لاکھوں آنکھوں کو نم کرگئی یہ تصویر
انڈونیشیا کے ڈاکٹر علی کی آخری تصویر ہے جوکروناوائریس کے مریضوں کا علاج
کرتے ہوئے خود کو کرونا وائریس سے نہیں بچا سکے تو اس عظیم ڈاکٹر جب ا
لگاکی اب وہ زندہ نہیں بچیں گے تو انہوں نے اپنی اہلیہ کو فون کرکے تمام
صورت ِ حال سے آگاہ کیا انڈونیشیا کے ڈاکٹر علی نے اسے کہا تم بچوں کو لے
کر گیٹ کے سامنے آجاؤ میں اپنے پیاروں کاآخری دیدار کرناچاہتاہوں لیکن
خبردار تم یا بچے بھول کربھی میرے پاس آنے کی غلطی نہ کرنا تم نہیں جانتی
یہ غلطی کتنی بھیانک ثابت ہو سکتی ہے یہ میری تم لوگوں کے ساتھ آخری ملاقات
ہوگی ا سکے بعدمیں جتنے دن بھی زندہ رہوں مجھے ملنے کی ضدنہ کرنا ان شاء اﷲ
ہماری ملاقات جنت میں ہوگی بس میں جی بھرکر تمہیں دیکھنا چاہتاہوں ۔ ڈاکٹر
علی اپنے گھر گئے اور گیٹ کے باہر کھڑے ہوکر اپنے بیوی بچوں کا جی بھر کے
آخری دیدار کیا اور دور کھڑے رہے وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ بیماری بیوی بچوں
کو لگے یہ تصویر انکی اہلیہ نے اپنے موبائل فون سے لی تھی ڈاکٹر علی انسانی
روپ ایک فرشتہ ثابت ہوئے مرنے سے پہلے گھر آئے بچوں کو گیٹ کے باہر سے
دیکھا اور چل دیا اسکے بعد دنیا کو الوداع کہہ دیا ذراتصورکی آنکھ سے
دیکھئے دل ہی دل میں محسوس کیجئے کتنا تکلیف دہ وہ لمحہ رہا ہوگاجب اپنے
معصوم بچوں کو اپنے سینے سے بھی نہیں لگا سکے، نہ پیار کرسکے اور نہ ہی چوم
سکے ڈاکٹر علی اپنے فرض پرقربان ہوگئے یقینا انسانیت ڈاکٹر علی کی ہمیشہ
مقروض رہے گی۔پاکستان میں گلگت بلتستان ڈاکٹر اسامہ ریاض کروناوائرس کے
مریضوں کا علاج کرتے کرتے خودمریض بنکر چل بسے اب دنیا میں درجنوں ڈاکٹراور
پیرا میڈیکل سٹاف میں اس خطرناک مرض کے وائرس کانکشاف ہواہے اﷲ تبارک تعالیٰ
سے دعاہے کہ وہ سب متاثرین کو صحتِ کاملہ سے نوازے( آمین) اس وقت دنیا
بھرمیں50,000کے افراداس وباء کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں لاکھوں متاثرہیں سوچنے
کی بات یہ ہے کہ جب میڈیکل ٹیمیں اس وباء سے محفوظ نہیں رہ سکیں تو عام
آدمی کو تو اور بھی زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے آپ بھی احتیاط کیجئے کہ
احتیاط ہی اس وباء سے بچنے کا واحدطریقہ ہے۔ اپنے ،اپنے خاندان اور اپنے
پیاروں کی خاطر گھروں تک محدودہونے میں ہی عافیت ہے لہذا اپنی حفاظت کیلئے
حکومت کا ساتھ دیجئے اورڈاکٹروں کی تجاویز پر عمل کیجئے یقین اس میں آپ کا
ہی فائدہ ہے ایک بار پھر گذارش ہے احتیاط کیجئے۔
|