آپ کی ناک بہہ رہی ہے یا آنکھوں میں خارش ہورہی ہے،
تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو نیا نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری
کووڈ 19 ہے۔ نزلہ یا کورونا وائرس؟ پہچاننا بہت آسان ہے تاہم اگر آپ کو خشک
کھانسی، تھکاوٹ اور بخار کا سامنا ہے، تو پھر ضرور کووڈ 19 کا شک کیا
جاسکتا ہے۔ ‘موسم گرما کے دوران بھی کورونا وائرس ختم نہیں ہو گا’مگر ان
تینوں میں ایک نمایاں فرق کورونا وائرس کی ایک علامت سانس لینے میں مشکل
ہے، جو اس کی ایسی عام علامت ہے جو نمونیا سے قبل سامنے آتی ہے۔ عام طور پر
فلو یا نزلہ زکام میں سانس لینے میں مشکل کا سامنا اس وقت تک نہیں ہوتا جب
تک نمونیا کا مرض نہ ہوجائے۔ ماہرین کے مطابق انفلوائنزا کووڈ 19 سے بہت
ملتا جلتا مرض ہے مگر سانس لینے میں مشکل کا مسئلہ اس میں اتنا زیادہ نہیں
ہوتا جتنا کووڈ 19 کے مریضوں کو ہوتا ہے۔ نئے کورونا وائرس کے شکار افراد
میں عموماً سانس لینے میں مشکل کا سامنا ہوتاہے مریض کو پہلی علامت بخار
ہونے کے 5 سے 10 دن کے دوران ہوتا ہے۔ چھینک کوئی علامت نہیں چھینکنا، ناک
بہنا، چہرے میں تکلیف اور آنکھوں میں خارش سب الرجی یا عام نزلہ زکام کی
علامات تو ہیں مگر کووڈ 19 میں یہ عام نہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق کووڈ
19 کی سب سے عام علامات میں بخار، تھکاوٹ اور خشک کھانسی شامل ہیں، کچھ
مریضوں کو شاید تکلیف، خارش، ناک بند ہونے، ناک بہنے، گلے میں سوجن یا ہیضہ
کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔ کووڈ 19 کی علامات عموماً کسی مریض میں وائرس داخل
ہونے کے 2 سے 14 دن کے دوران نظر آتی ہیں۔ مگر عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے
کہ کچھ متاثرہ افراد میں کسی قسم کی علامات نظر نہیں آتیں اور ان کی طبیعت
بھی خراب نہیں ہوتی، ایسے افراد وائرس کو اپنے ارگرد منتقل بھی کرسکتے ہیں۔
الرجی کی علامات دائمی ہوسکتی ہیں
کووڈ 19 فلو یا عام نزلہ زکام کی طرح ایک ایسا مرض ہے جس میں لوگوں کو اپنی
حالت اس وقت ٹھیک ہی لگتی ہے جب تک علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ اس کے مقابلے
میں الرجیز عموماً دائمی ہوتی ہیں اور ان کی علامات ہفتوں، مہینوں یا برسوں
تک نمودار اور غائب ہوسکتی ہیں، مگر الرجیز میں عموماً بخار یا جسمانی خارش
کا سامنا نہیں ہوتا جبکہ کھانسی بھی اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک بلغم بہت
زیادہ نہ بننے لگے۔ الرجیز کے نتیجے میں چھینکوں کا زیادہ سامنا ہوتا ہے
خصوصاً دمہ کے شکار افراد کو، الرجی میں سانس لینے میں مشکل ضرور ہوتی ہے
مگر اس میں ہیضہ، گلے میں سوجن کا سامنا بھی نہیں ہوتا۔ چونکہ یہ ایک
خوفناک وائرس ہے اس لئے کچھ اوگوں کاخیال ہے کہ کورونا کے خلاف جنگ نہیں
جیتی جا سکتی ؟ حالانکہ ایسا نہیں ہے اس وباء سے متاثرہونے والے 98%مریض
صحت یاب ہو سکتے ہیں لیکن بچے، بوڑھے اور بیمار اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں
اور ان میں قوت مدافعت اور قوت ا رادی مضبوط ہوتو وہ اس مرض کو شکست دے
سکتے ہیں اس لئے حکومت نے کورونا کی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے ملک بھر میں
لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے اور حکومتی اقدامات اور احکامات کے نتیجہ میں
بہت حد تک عوام کورونا کی وبا سے بچنے کیلئے حفاظتی اقدامات پر کاربند نظر
آرہے ہیں۔ جب پاکستان میں کورونا کی صورتحال کا دیگر بڑے بڑے ممالک پر
کورونا کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ابھی تک نہ صرف صورتحال حکومت اور
اداروں کے کنٹرول میں ہے بلکہ اس پر قابو پانے کیلئے کوششوں، کاوشوں اور
اقدامات میں دن بدن اضافہ ہوتا نظر آر ہا ہے اور کرونا کے حوالے سے شائع
شدہ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ جس جس ملک نے بھی کورونا کو سنجیدگی سے نہیں
لیا اور اس پر قابو پانے میں سستی اور کمزوری دکھائی وہ اب تیزی سے اس کے
سامنے ڈھیر ہوتے نظر آ رہے ہیں، عوام کی اکثریت احتیاطی تدابیر کر رہی
ہے۔امریکا سمیت جدید یورپ کورونا کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔ تاخیر سے جانوں کا
ضیاع، وائرس کا پتہ چلانے کیلئے ٹیسٹ کی استعداد کار بڑھانا ہوگی۔ گوکہ اس
وائرس کا آغاز تو چین سے ہوا اور اب چین ہی کرونا وائرس پر قابو پانے والا
پہلا ملک ہے جہاں ہر آنے والے دن یہ خبریں آ رہی ہیں کہ وہاں متاثرین کی
تعداد میں کمی آ رہی ہے اور کرونا میں ملوث صحت یاب ہو رہے ہیں اور جن کے
اندر کرونا وائرس کی منتقلی کا عمل تقریباً رک گیا ہے اس کی بڑی وجہ تو خود
چینی عوام کے اندر پیدا شدہ جذبہ اور چینی حکومت کے اقدامات تھے۔چینی حکومت
نے کہا کہ ماسک پہنو تو اگلے ہی روز چینی عوام ماسک پہنے نظر آئے، پھر کہا
گیا کہ آپس میں فاصلہ رکھو، تو فاصلے نظر آئے اور جنہوں نے فاصلے نہیں رکھے
ان کے خلاف اقدامات بھی نظر آئے۔ کامیابی کی دوسری مثال جنوبی کوریا کی ہے۔
چین جہاں شدت سے اضافہ ہوا، اتنی تیزی سے کمی بھی آئی۔ چین اور اردگرد کے
ممالک خصوصاً ساؤتھ کوریا، ہانگ کانگ، سنگا پور میں بھی یہ قابو آتا نظر آ
رہا ہے۔مگر دوسری جانب امریکا، اٹلی، سپین میں اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا
اور اس کے خلاف متحرک ہونے میں جتنی تاخیر ہوئی اتنی ہی یہاں تباہ کاریوں
اور خصوصاً انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور اب امریکا میں یہ صورتحال
تشویشناک حدوں کو چھوتی نظر آ رہی ہے۔ اسی تناظر میں پاکستان کی صورتحال کا
جائزہ لیا جائے تو پنجاب اورسندھ کی حکومتوں کو اس لئے سراہا جا رہا ہے کہ
انہوں نے خطرے کا ادراک کرتے ہوئے جتنی تیزی سے اقدامات کئے اس کے نتائج
بہتر آئے۔متاثرین کی تعداد بڑھنے کی بجائے اب اس کے آگے بندبندھا نظر آر ہا
ہے البتہ سندھ کے دیہی علاقوں میں اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔ جہاں تک پنجاب
، پختونخواہ، اسلام آباد، گلگت بلتستان اور کشمیر کا سوال ہے تو یہاں
متاثرین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور کچھ اموات کی خبریں بھی سامنے آئی
ہیں۔ لیکن مثبت پہلو یہ ہے کہ حکومتیں اور انتظامی مشینری لاک ڈاؤن کو مو
ثر اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے سرگرم نظر آ رہی ہے۔ متاثرین کا پتہ چلانے
میں بہت حد تک حکومتی ادارے کامیاب نظر آ رہے ہیں مگر جہاں تک ٹیسٹ کا عمل
ہے تو اس کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ اس حوالے سے سہولتوں
کافقدان ہے۔ جب تک ٹیسٹ کی رفتار تیز نہیں ہوگی متاثرین کا کھوج لگا کر
انہیں یہاں منتقل نہیں کیا جا سکے گا ٹیسٹ ہی بہتر اور مو ثر ہتھیار ہیں۔
پاکستان کی حد تک یہ بات اطمینان بخش ہے کہ تحفظ اور کنٹرول کے اقدامات
کرنے کے فیصلے کے ساتھ ان پر تیزی سے عمل کیا گیا ہے۔ بڑے تمام اجتماعات پر
پابندی لگ گئی ہے یہاں تک کہ جمعہ کے اجتماعات کو بھی بند کر دیا گیا۔
سکول، کالجز، یونیورسٹیاں اور بہت حد تک حکومتی و نجی ادارے بھی بند کئے
گئے ہیں تاکہ سماجی میل جول کو محدود کر دیا جائے۔ حکومت ریاستی ادارے،
انتظامی مشینری اور خصوصاً صحت کا سسٹم پوری طرح متحرک نظر آ رہا ہے۔
حکومتی اقدامات پر اسی سپرٹ کے مطابق عمل ہوتا رہا تو زیادہ دن نہیں لگیں
گے کہ اس کے مثبت اثرات ضرور سامنے آئیں گے اور وباء پر کنٹرول کے ذریعہ
معمولات زندگی بھی بحال ہوتے جائیں گے۔ کورونا وائرس پاکستان کی ر یاست کا
بہت بڑا امتحان ہے۔ کم وسائل ، محدود سہولتوں کے باوجود اگر ہم اس کے آگے
بند باندھنے میں کامیاب رہتے ہیں تو دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے بعد کورونا
کی بلا پر قابو پانے کا عمل پاکستان کی عالمی حیثیت میں اضافہ کرے گا۔
|